حصول علم اور فضل و کمال کے مختلف ذرائع ہیں جن میں
مطالعہ علم کے حصول کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔مطالعہ کو روح کی غذا بھی کہا
گیا ہے۔قوموں کی ترقی و عروج میں مطالعہ کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔مطالعہ کی
حسین وادیوں سے گزر کر آدمی علم کی عظیم الشان منزل تک پہنچتا ہے۔’’گرچہ
پرانا کوٹ پہنولیکن نئی کتاب خریدو‘‘(Wear the Old Coat,Buy the new
book)انیسویں صدی کے امریکی ماہر تعلیم آسٹن فلپس (Austin Phelps) کا یہ
قول مطالعہ کی اہمیت و افادیت کی بہترین غمازی کرتا ہے۔مطالعہ کے عادی لوگ
جہاں روشن خیال ، کشادہ دل ہوتے ہیں وہیں یہ کبھی ذہنی افلاس کا شکار نہیں
ہوتے ہیں ،چاہے دنیا کا خزانہ کیوں نہ ختم ہوجائے لیکن ان کی باتوں ،خیالات
،نظریات ،الفاظ و معنی سے خوشبو، لطافت اور بو قلمونی کبھی ختم نہیں ہوپاتی
۔مطالعہ کی عادت اور کتاب سے محبت چھوٹے کو بڑا اور بڑے کو بہت بڑا بنادیتی
ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ فضلا علم و دانش نے کثرت مطالعہ کے ذریعہ علم و تحقیق
کے اعلیٰ مرتبوں پر فائز ہوکراپنا لوہا منوایا۔ عصر حاضر میں اقوام مغرب و
ہنود کی دنیاوی ترقی میں مطالعہ کا اہم کردار ہے۔ یورپ ،امریکہ میں بڑے بڑے
تعلیمی ادارے اور وسیع وعریض کتب خانے ان کے مطالعاتی ذوق کی گواہی دیتے
ہیں۔مطالعہ ایک نہایت مفید مشغلہ ہیجو آدمی کو ضیاع ا وقات سے بھی محفوظ
رکھتا ہے۔مطالعے سے علم میں اضافہ ، فصاحت و بلاغت ،یاداشت میں پختگی،فکر
میں بلندی ،وسعت نگاہی ،گہرائی و گیرائی اور معاملہ فہمی پیدا ہوتی
ہے۔مطالعے کے شوقین قلم کے ذریعہ قرطاس پر اگنے والی علم کی فصل کو اپنے
ذوق مطالعہ سے سیراب کرتے ہیں ۔ نئی نسلوں کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے
کے لئے مطالعہ کا عادی بنا نا ضروری ہے کیونکہ جس معاشرے میں مطالعہ کا ذوق
و عادت ماند پڑجائے یا ختم ہوجائے وہاں علم بھی ناپید ہوجاتا ہے۔ بچپن میں
بوئے گئے عادات کے بیج بلوغت تک پہنچنے پہنچتے مضبوط درخت کی شکل اختیار
کرلیتے ہیں۔اس لئے بچے جب پڑھنے لکھنے کے قابل ہوجائیں تو بغیر کسی تاخیر و
انتظار کے انہیں مطالعے کی جانب راغب و مائل کرنا بے حد ضروری ہے۔ یہ اہم
کام والدین،اساتذہ اور اسکول انتظامیہ بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔ مطالعہ کی
عادت سے بچوں کی زبان و بیان میں نکھار آتا ہے۔الفاظ و معانی کے سوتے
پھوٹتے ہیں۔فکر کی رفتار تیز سے تیز تر ہوجا تی ہے۔تخیل میں وسعت پیدا ہوتی
ہے۔مشکل وقت اور پریشانیوں میں مصائب سے مقابلہ کرنے کا بچوں میں سلیقہ و
حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔مطالعے سے صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہونے کے علاوہ طلبہ
کے تعلیمی سفر پر بھی اس کے دورس مثبت ومفید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
آج کسی بھی اسکول کے لئے وافر مقدر میں طلبہ کے مطالعہ کے لئے کتابوں کی
فراہمی یقینا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔لیکن طلبہ میں ذوق مطالعہ اور مطالعہ
کی اہمیت و افادیت کو جاگزیں کئے بغیر کتابوں کی فراہمی بے وقعت ہوجائے گی۔
یہ بات میں بڑی ذمہ داری سے رقم کررہا ہوں کہ صرف کتابوں کے پڑھنے کو
مطالعہ نہیں کہتے ، بلکہ مطالعہ وہ ہوتا ہے جس میں قاری خود کو مصنف کے
فکری رویوں اس کے بیان کردہ خیالات اور تجربات سے بالکل قریب محسوس کرے
۔موثر مطالعہ نہ صرف قاری کے ذہنی رویوں کو متحرک کرتا ہے بلکہ اسے میدان
عمل میں بھی لاکرکھڑا کردیتا ہے۔ طلبہ میں مطالعہ کی عادت کو اس قدر رواج
دیا جانا چاہئے کہ وہ کتاب کے کردارکی خیالی تجسیم و تصورسازی کے لائق
ہوجائیں ۔تحریرکردہ افکار کو اپنے دماغ کے پردے پر چلتے پھرتے دیکھ پائے۔
ہرحرف کے صوت و معنی جاننے کے علاوہ سطروں میں چھپے عندیہ و مفاہیم تک پہنچ
سکے ۔ تحریر کردہ تصورات، افکار ،خیالات و مناظر کو نہ صرف وہ محسوس کرے
بلکہ مطالعہ کردہ موضوع پر اسے گفتگو کا ملکہ بھی حاصل ہوجائے۔طلبہ میں
مطالعہ کی عادت کو ایسے راسخ کیا جائے کہ جب وہ کسی کتاب یا مضمون کا
مطالعہ کریں توان کی نظر اس کے مقاصد ،مفاہیم اور حسن و قبیح پر مسلسل جمی
رہے۔ وہ سچائی تک پہنچ سکیں اور جھوٹ کا ابطا ل کرنے کے لائق ہوں۔ مطالعے
کے دوران معنیٰ و مفاہیم کو اخذ کرنے کی شعوری کو شش بے حد ضروری ہوتی
ہے۔انگریزی کا مشہور ادیب ،مصنف ،فلسفی Aldous Huxleyجس نے قریب پچاس
کتابیں لکھی ہیں مطالعہ(پڑھائی) کے متعلق کہتا ہے "Every man who knows how
to read has in his power to magnify himself,to multiply the ways in
which he exists,to make his life full,significant and interesting."(ایک
آدمی جو یہ جانتا ہے کہ مطالعہ(پڑھائی) کیسے کیا جائے اس کے پاس اپنی ذات
کو بہتر واعلیٰ بنانے کی قوت پائی جاتی ہے ۔وہ اپنی زندگی کو نمایاں بامقصد
اور پرکیف بنانے کے لئے اپنے گرد و پیش کے ماحول ،راستوں اور امکانات
کومزید وسعت دینے کے لائق ہوتا ہے)۔ ذوق مطالعہ کو پروان چڑھانے میں اگر
بچوں کی مدد کی جائے تو یہ بات نہایت وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ زندگی
میں بہت ہی نمایاں اور بہتر کام انجام دینے کے قابل بن جاتے ہیں۔
موجودہ دور میں مطالعہ کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے کیونکہ ٹکنالوجی کے غلط
استعمال سے صورتحال بہت ابتر ہوچکی ہے۔ضیاع وقت کے لئے ہم جہاں ٹیلی ویژن
سے شاکی تھے وہیں اب موبائیل فون اور انٹرنیٹ کے بے جا استعمال نے طلبہ کے
وقت اور صلاحیتوں دونوں پر قدغن لگا دی ہے۔اساتذہ بچوں میں کتب بینی کا شوق
اور مطالعہ کی عادت کو فروغ دے کر اس صورتحال کو مزید ابتر ہونے سے بچا
سکتے ہیں۔ مطالعہ سے بے رغبتی پر نوحہ کنا ں ہونے کے بجائے اساتذہ طلبہ کو
بہتر اور موثر قاری(ریڈر) بنانے کی کوشش کریں۔اسکولوں میں مطالعہ کے ماحول
کو فروغ دیں تاکہ علم و حکمت کے سوکھے سوتے پھر سے بہنے لگیں۔ اپنی حکمت و
دانائی سے طلبہ اور کتاب میں اٹوٹ تعلقپیدا کریں۔بچوں میں روح مطالعہ و نفس
مطالعہ تک رسائی کی صلاحیت پیدا کریں تاکہ کتابیں ان کے لئے سود مندوکارآمد
بن جائیں۔مطالعہ حصول کاایک اہم ذریعہ ہے اورعلمی رسوخ وپختگی کے حصول میں
اسے شرط اول قرار دیا گیا ہے۔ اساتذہ حصول علم کے اس موثر و کارآمد وسیلے
کی اہمیت کو اپنی سعی و کاوشوں سے پامال نہ ہونے دیں۔ بچوں کی شخصیت کی
تعمیر میں والدین اور اساتذہ کا اہم کردار ہوتا ہے۔ بچے فطری طورپر وہی
کرتے ہیں جو وہ اپنے اساتذہ اور والدین کو کرتے دیکھتے ہیں۔اساتذہ اپنے
مطالعہ سے طلبہ کے ذوق مطالعہ کو جلا بخشیں۔ اپنے مطالعہ کی مہارتوں اور
تکنیک کے فروغ سے بچوں میں مطالعہ کی صلاحیت کوپروان چڑھائیں تاکہ وہ بغیر
کسی دشواری اور منظم طریقے سے شوق و ذوق سے مطالعے میں مگن ہو سکیں۔ مطالعے
سے جب لطف و حظ حاصل ہوتو مطالعہ کی عادت راسخ ہوجاتی ہے۔ طلبہ کو مطالعے
سے لطف اٹھانے کی تکنیک سے آراستہ کرتے ہوئے اساتذہ بچوں میں مطالعہ کی
پائیدار عادت کو استوار کرسکتے ہیں۔
پڑھنے (مطالعہ) کوسیکھنے(اکتساب/علمیت) میں کیسے تبدیل کیا جاسکتا ہے؟یہ
بہت ہی اہم سوال ہے ۔اساتذہ موثر مطالعہ کو موثر اکتساب میں آسانی سے تبدیل
کرسکتے ہیں۔یہ ہم جانتے ہیں کہ مطالعہ اکتساب کے فروغ میں معاون ہوتا ہے
لیکن یہ مطالعہ کو اکتساب میں تبدیل کیسے کیاجائے یہ جاننا بے حدضروری ہے ۔
جب قاری دوران مطالعہ بین السطور مخفیمصنف کے مطالب و مفاہیم تک رسائی حاصل
کرنے کے علاوہ اس کی قابل فہم تشریح و ترجمانی کی کوشش کرتا ہے تب مطالعہ
خود بخود اکتسابی عمل (سیکھنے) میں تبدیل ہوجاتا ہے۔مطالعہ (پڑھنا)ایک ایسا
فکر انگیز محرک عمل ہے جس میں قاری کی بصری اور ذہنی دونوں قوتیں شامل رہتی
ہیں۔ مطالعہ کے دوران بیک وقت قاری کی آنکھیں اور دماغ مصنف کے بیان کردہ
لغوی و معنوی پیغام تک پہنچنے کی کوشش میں مصروف عمل رہتے ہیں۔مطالعہ کی
کامیابی کا دارومدار قاری کی سعی و انہماک(Concentration)پر منحصر ہوتا
ہے۔جتنی سنجیدہ کوشش اور بہتر مہارتوں کو استعمال کیا جائے گا اسی قدر
مطالعہ کے بہتر نتائج ظاہر ہوں گے۔طلبہ میں مطالعہ کی عادتوں کے فروغ کی
اہم وجوہات میں درجہ ذیل وجوہات شامل ہیں۔
(1)طلبہ کو ووقت کے بہتر ،مثبت اور سود مند استعمال کے لائق بنایا جاسکے۔
(2)مزید معلومات کے حصول کے لائق بنانا۔
(3)متنوع(قسم قسم کے) موضوعات کی وسیع معلومات کاحصول ۔
(4)مطلوب تفریح و دائمی مسرت کا حصول۔
(5)تنقیدی و تخلیقی فکر کے ذریعے ذہنی صلاحیتوں کافروغ۔
(5)رفتہ رفتہ طلبہ کو اچھا مقرر،مفکر اور ادیب بنانے کی کوشش۔
مذکورہ بالامطلوبہ مقاصد کے حصول کا انحصار طلبہکی دلچسپی او ان کی حاصل
کردہ(سیکھی ہوئی)مہارتوں پر مبنی ہوتا ہے۔قاری کے ذہن میں ماضی کے تجربات
سے اخذکردہ دن بہ دن اضافہ ہونے والے معلومات کا ایک ذخیرموجود ہوتا ہے جو
دوران مطالعہ ازخود ذہنی تصورات و صورتوں میں ڈھلنے لگتا ہے۔ مطالعہ کے
دوران عبار ت سے اخذکردہ معنی و مفہوم اور کتاب کے فراہم کردہ مواد کے
ارتباط سے ذہن کے پردے پرکئی اشارات و محرکات کے زیر اثرمعنی و مفاہیم کی
صورت گیر ی عمل میں آتیہے۔اسی لئے کہا گیا ہے کہ’’ معنیٰ و مفہوم مطبوعہ
(چھپے ہوئے) صفحات پر نہیں بلکہ قاری کے ذہن میں پنہاں ہوتے ہیں۔‘‘
ایسی متعدد مثالیں روزانہ ہر کمرۂ جماعت میں دیکھنے میں آتی ہیں جہاں
اساتذہ ،طلبہ سے شاکی نظرآتے ہیں اور شکایتاً کہتے ہیں کہ ’’طلبہ کیمطالعہ
سے رغبت کم ہوتی جارہی ہے‘‘،’’بچے نہیں پڑھ رہے ہیں ،پڑھنے کے بجائے اپنا
وقت برباد کررہے ہیں‘‘،’’بہت جلد سب کچھ بھول جارہے ہیں‘‘ان شکایتوں کی
دیگر کئی وجوہات بھی ہوسکتی ہیں لیکن مطالعہ سے مربوط ان مسائل کی جڑیں (
اساس) ذیل میں بیان کردہ وجوہات میں پیوست نظر آتی ہیں۔
(1)مطالعہ کرنے یا پڑھنے کے لئے طلبہ کی مناسب طریقے سے حوصلہ افزائی کی
جاتی ہے اور نہ انھیں مطالعہ کے طریقے کار سکھائے جاتے ہیں۔مطالعہ کی جانب
راغب کرنے میں مناسب حوصلہ افزائی، رہبری،رہنمائی،تحریک و ترغیب کے فقدان
کی وجہ سے طلبہ مطالعہ (پڑھنے)کی بنیادی مہارتوں کے حصول اور ادراک سے قاصر
رہتے ہیں۔بلکہ مطالعہ سے بد دل ہوجاتے ہیں۔
(2)دیگر ترقی یافتہ ممالک کی بہ نسبت ہمارے ملک کے طلبہ میں مطالعہ کی شرح
بہت کم پائی جاتی ہے بہ الفاظ دیگر ہمارے طلبہ مطالعہ کو ایک بوجھ سمجھ کر
اس سے اعراض کرتے ہیں۔
(3)مجموعی طور پر ہمارے طلبہ میں مطالعہ(پڑھنے)سے دلچسپی میں کمی کی وجوہات
میں مقررہ نصابی کتب کا صحیح طریقہ سے مطالعہ نہ کرنا،غیر معیاری
گائیڈس،ورک بکس،اسٹڈی میٹریل پر انحصار کرنا اور تن آسانی سے کام لیتے ہوئے
آسان و مختصر(سارٹ کٹس) راستوں کو ترجیح دینا وغیر ہ شامل ہیں۔
(4)منظم مطالعہ(پڑھنے) کی تکنیک (مہارتوں) کا نہ سیکھنا یا پھر اس پرعمل نہ
کرنا۔
(5)اسکولس طلبہ کودلچسپ و متنوع مطالعہ کامواد فراہم کرنے میں ناکام ہیں یا
پھر کوتاہیسے کام لے رہے ہیں۔اساتذ ہ بچوں میں دلچسپی و رغبت پیدا کرتے
ہوئے مطالعہ کی عادت کو فروغ دینے میں تساہل اور بے پروائی کا شکار ہیں۔
مطالعہ کی بنیادی مہارتیں(Basic Reading Skills)
مخلف درجات وسطحوں پر تدریسی خدمات انجام دینے والے اساتذہ کے لئے لازم ہے
کے وہ ہر درجہ و سطح کے معیار و طریقہ کار سے آگاہ ہوں۔درجہ و سطح کے معیار
کے مطابق مطالعہ(پڑھنے) کی مہارت کو فروغ دیں۔لگاتار محنت ،رہنمائی ا ور
رہبری سے کام لیں۔مطالعہ کی عادت کو فروغ دینے اور راسخ کرنے کے لئے مختلف
پروگرامس و منصوبے وٖضع کرتے ہوئے ان پر عمل درآمد کریں۔مثبت ،کارآمد
اورماہرانہ انداز میں وقت کو بروئے کار لائیں ۔وضع کردہ منصوبوں کی کامیابی
طلبہ کے مطالعہ کی عادات ،اپنی ذات کی نشو ونما کے لئے حاصل کردہ ان کی
تمام مہارتوں اور حکمت عملیوں کے آزادانہ استعمال پر منحصر ہوتی
ہے۔پڑھنے(مطالعہ )کی عادت کوبچوں میں پروان چڑھانے اور مطالعہ سے ان میں
رغبت پیدا کرنے کے لئے اساتذہ کامطالعہ کی تکنیک اورمہارتوں سے متصف ہونا
بے حد ضروری ہے۔اگرچہ کہ مطالعہ(پڑھنے )کے کسی بھی پہلو کونظرانداز نہیں
کیا جاسکتالیکن ذیل میں چند ایسے اہم نکات بیان کئے جارہے ہیں جن کو فوقیت
دینا بے حد ضروری ہے۔مطالعہ (پڑھنے)کی مہارت مجموعی طور پرکئی ایک امور پر
دسترس حاصل کئے بغیر پیدا نہیں کی جاسکتی جن میں قابل ذکرسمجھ کرپڑھنا،خود
کار رضا و رغبت(تشویقی آمادگیMotivated Readiness) اور مطالعہ کے دوران
پڑھنے کی شرح اور لچک وغیرہ اہم ہیں۔
قوت ادراک وفہم کا فروغ(Developing the Comprehension power) ـ۔موثر مطالعہ
کے مشمولات میں سب سے اہم جز قوت ادراک و فہم کا فروغ ہوتا ہے۔قاری تحریر
کو پڑھتے ہوئے مصنف کے فہم کا نہ صرف ادراک کرے بلکہ اس کی تشریح و تفہیم
اور ردعمل کو پیش کرنے کے لائق ہو ۔قوت ادراک و فہم سے ممیز مطالعہ سب سے
اعلیٰ و ارفع مطالعہ کہلاتاہے۔قوت ادراک و فہم کے فروغ کے لئے قاری کو اپنے
ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔الفاظ کے معنی و مفہوم کے علاوہ
اس کے استعمال سے بھی واقفیت ضروری ہوتی ہے۔ اساتذہ فہم و دانش کو متحرک
کرنے والے ایسے منتخب تدریسی مواد کی فراہمی کو یقینی بنائیں جوطلبہ میں
دوران مطالعہ ادراک وفہم کو مہمیز کرنے کا کام انجام دے سکے۔طلبہ میں
مطالعہ کی بہتر عادت و رغبت کو فروغ دیں۔نئے اورمشکل الفاظ اور ان کے معنیٰ
و مفہوم تلاش کرنے کی عملی تربیت کے ذریعہ طلبہ کے فہم و ادراک کی سطحوں کو
بام عروج پر پہنچایا جاسکتا ہے۔نئے الفاظ کو جملوں میں استعمال کرنے کی
سرگرمیاں تفویض کرنے سے باآسانی نئے الفاظ طلبہ کے ذہنوں میں طویل مدت تک
محفوظ ہوجاتے ہیں۔فہم وادراک جسے مطالعہ کی جان کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا
ذخیرۂ الفاظ میں اضافے کی وجہ سے تیز تر ہوتا ہے۔ مطالعہ کی عبارت و مواد
سے نئے و غیر مانوس الفاظ کی تلاش میں طلبہ کی رہبری و ہمت افزائی ضروری ہے
۔یہ سرگرمی باقاعدگی سے انجام دینے سے طلبہ میں افہام و تفہیم کی صلاحیت
پروان چڑھتی ہے۔ مواد مطالعہ کو طلبہ سے اپنے جملوں میں بیان کروانے سے قوت
فہم و ادراک کو مزید ترقی حاصل ہوتی ہے۔مطالعہ کردہ مواد کے مرکزی خیال کی
پیش کش کے لئے طلبہ کو زبانی اور تحریری کام تفویض کرتے ہوئے بھی ان کے فہم
کو بلندی فراہم کی جاسکتی ہے۔مطالعہ کردہ مواد سماج کی تبدیلی میں کیسے
کارآمد ہوسکتاہے اس پر بھی طلبہ سے سیر حاصل بحث و مباحث کے ذریعے ان میں
فہم و ادراک کی صلاحیتوں کو بام عروج تک پہنچایا جاسکتا ہے۔(جاری ہے)
|