انگارہ آج چہک رہی تھی ۔ وہ بہت مسکرا کر بات کر رہی تھی
۔ لہجہ روئ کی طرح نرم تھا۔ حامد کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ انگارہ جو ہر
وقت دہکتی رہتی ہے اور الفاظ سے اس کی اصلاح کی خاطر پٹائ کرتی رہتی ہے ،
اسے آج کیا ہو گیا ہے۔
حامد اس کے جال میں پھنس گیا اور ریشمی الفاظ میں دھنس گیا۔ خاموشی اور
کنارہ کشی کی چال میں ناکامی کا منہ دیکھتے انگارہ کا منہ دیکھنے لگا ۔
انگارہ کے تیور بدلنا شروع ہوے ۔ انگارہ کے الفاظ کی چنگاریاں بھڑکنے لگیں
۔ حامد کا وجود جلنے لگا ۔
اب اسے سمجھ آئ کہ وہ تو خاموشی کا حصار توڑنے کے لیے سب کچھ کیا جارہا
تھا تاکہ کردہ اور ناکردہ گناہوں کی اسے سزا دی جاسکے۔ انگارہ کو حامد کا
چین سے رہنا کسی صورت برداشت نہ ہو سکا ۔ اسی لیے وہ اسے پیار سے اکھاڑے
میں لانا چاہ رہی تھی ۔
اب تو سانولی بھی حوصلہ دینے کے لیے اس کے پاس نہ تھی۔
|