زبان اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔اس نعمت کی اصل قدر
وہ جانتے ہیں جو قوتِ گویائی سے محروم ہیں۔یہ بظاہر گوشت کا ایک لوتھڑا ہے
مگر ہمارے تمام جذبات اوراحساسات کو بیان کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ہر ذائقہ
کا احساس رکھنے والا یہ لوتھڑا خود بھی بہت سے ذائقے چکھاتا ہے ۔کڑوا،کسیلا،شیریں
و میٹھا،طنزیہ و تحقیری، محبت بھرا،نفرت انگیز سب طرح کے مزے اسی کے ذریعے
ملتے ہیں۔
بات کرنے،اپنے جذبات کا اظہار کرنےاوراپنے مدعا کو الفاظ دینے کی صلاحیت
اللہ تبارک و تعالی نے دوہی چیزوں کو دی ہے ایک قلم اور دوسرے زبان۔قلم کو
حرکت دینے کی صلاحیت زندگی کے بہت سے تجربوں کے بعد سامنے آتی ہے جبکہ
زبان تو پیدائش کے ساتھ ہی حرکت میں آجاتی ہے۔
بچہ بھی اپنے مدعا کا اظہار اس عظیم نعمت ہی کے ذریعے کرتا ہے خواہ وہ صرف
رونے ہی کی شکل میں کیوں نہ ہو۔مگر کیا کبھی انسان نے اس نعمت کی قدر
پہچانی یا اسے مفت ملی ہوئی ایک چیز کی طرح بے دریغ استعمال کیا؟ نہ اس کی
حفاظت کی ، نہ اس کی تربیت کی اور نہ ہی اس کو ان مفید کاموں میں لگایا جن
کے ذریعے اس عظیم نعمت کا شکر ادا کیا جا سکتا تھا۔
یہ جتنی بڑی نعمت ہے اتناہی تقاضا ہے کہ اس کا صحیح استعمال کیا جائے مگر
عمومی طور پر اس کو بے مقصد ،فضول اور لغو کاموں میں استعمال کیا جا تا
ہے۔حالانکہ زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ تحریر کیا جا رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَ عَنِ الشِّمَالِ
قَعِیْدo مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ (سورۃ
ق،آیت:۱۷،پارہ ۲۶)
ترجمۂ کنزالایمان:’جب اس سے لیتے ہیں دو لینے والے ایک داہنے بیٹھا اور
ایک بائیںکوئی بات وہ زبان سے نہیں نکالتا کہ اس کے پاس ایک محافظ تیار نہ
بیٹھا ہو۔
چناچہ ضروری ہے کہ ہم اپنی زبان کو ان باتوں سے روکیں جو ہماری تباہی و
بربادی کاذریعہ ہیں۔
قارئین:
اپنی زبان کو بے فائدہ گفتگو سے پاک رکھیں۔ ان باتوں سے بچیں جن سے ہمارا
کوئی تعلق نہیں،جن کے بغیر ہمارا گزارا ہو سکتا ہے،جو ہمارا وقت ضائع کرنے
کا سبب ہیں۔ ایسی بے فائدہ،فضول اور لا یعنی باتوں کا حساب دینا ہو
گا۔جنہیں عام زبان میں ہم گپ شپ مزے سے سنتے اور بیان کرتے ہیں۔
فون پر لمبی لمبی باتیں کرنا۔کئی کئی بار صرف خیریت اور حال احوال
پوچھنا۔غیر ضروری طور پر دوسروں کے بچوں اور گھریلو زندگی کے معاملات میں
دلچسپی کا اظہار کر نا۔خاندانی سیاست پر غیر مفید رائے زنی کرنے کو اپنی
ہوشیاری اور سمجھداری سمجھنا۔
کبھی ہم نے غور کیا کہ یہ باتیں کرنے کے بعد ہمارے حصے میں کیا آیا؟صرف
گناہ اور وقت کا ضیاع۔اپنی زبان کو غیر ضروری باتوں سے روک کر اپنا وقت
بچائیں اور مفید کاموں میں لگا کر ترقی و کامیابی کی منزلیں طے کریں۔ یہ
وقت آپ اپنے بچوں کو اچھی باتیں سکھانے،ان کے ساتھ مفید موضوعات پرگفتگو
کرنے،ان کو آنے والے کل میں معاشرے کا مفیدرکن بنانے کے لیے صرف کر سکتے
ہیں۔کسی بیمار کی تیمارداری کر سکتے ہیں،مزاج پرسی کے لیے جا سکتے ہیں۔کوئی
مفید لیکچر سن سکتے ہیں یا معاشرے کی فلاح و بہبود کا کوئی کام کرسکتے ہیں۔
قارئین :
وہ گفتگو جو گناہوں پر مشتمل ہو۔اجنبی خواتین یا مردوں کے بارے میں،ان کی
شکل و شبھاہت،ان کے انداز و اداؤں پر بتصرے کرتے رہنا جن میں فلمی ستاروں
سے لے کرکھلاڑی،کوئی مشہور شخصیت یا وہ افراد جو معاشرے میں کسی بھی حیثیت
میں ممتاز ہوں شامل ہیں۔بات بات پر جھوٹ بولنا،اللہ کی جھوٹی قسمیں
کھانا،غیبت کرنا اور چغلیاں لگا نا بھی باطل گفتگو میں آتا ہے۔ ایک کی بات
ادھر لگانا اور دوسرے کی ادھر لگانا،بات کو مروڑ کر اپنی مرضی کا معنی پہنا
کر بیان کرنا سب باطل ہیں۔
حدیث مبارکہ سنیے اور ذرافکر کیجئے !!
نور کے پیکر،تمام نبیوں کے سرور،دوجہاں کے تاجور صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وآلہ وسلم کا ارشادِ پاک ہے :جس کا کلام زیادہ ہوگا اس کی لغزشیں زیادہ ہو
ں گی اور جس کی لغزشیں زیادہ ہوں گی اس کے گناہ زیادہ ہوں گے اور جس کے
گناہ زیادہ ہوں گے جہنم اس کی زیادہ حقدار ہوگی۔
(مجمع الزوائد ،کتاب الزہد ،باب ماجاء فی الصمت و حفظ اللسان ،الحدیث
۱۸۱۷۲،ج۱۰ ص۵۴۲)
قارئین:آپ ذراٹھہریں اور توجہ سے یہ حدیث مبارکہ پڑھیں!!
حضرتِ سیدنابلال بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ تعالی علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ بندہ زبان سے بھلائی کاایک کلمہ
نکالتاہے حالانکہ وہ اس کی قدروقیمت نہیں جانتاتو اس کے باعث اللہ عزوجل
قیامت تک اپنی رضامندی لکھ دیتا ہے ،اور بےشک ایک بندہ اپنی زبان سے ایک
برا کلمہ نکالتا ہے اوروہ اس کی حقیقت نہیں جانتاتو اللہ عز وجل اس کی بناء
پراس کے لئے قیامت تک کی اپنی ناراضگی لکھ دیتا ہے۔ (ترمذی،کتاب الزھد،باب
فی قلۃ الکلام،ج۴،ص۱۴۳)
اب بتائیں !!زبان کے ایسے استعمال میں کوئی نفع ہے ؟یقیناََ ہر گز نہیں
ہرگز نہیں!!
حضرتِ سیدنا ابووائل رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رحمتِ عالم ا نے
ارشاد فرمایا:ابن آدم کی اکثر خطائیں اس کی زبان سے سرزد ہوتی ہیں‘‘ (الترغیب
والترہیب ، کتاب الادب ، رقم: ۳۳، ج۳، ص۳۴۲)
ایسا نہ کریں !!!ایسا نہ کریں !!
ہم چاہتے ہیں ہمیں اللہ عزوجل کا انعام حاصل ہو ۔ہمیں جنت جیسا مقام نصیب
ہو۔وہ جنت جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا:جنت کی
زمین سفید ہے ،اس کا میدان کافُور کی چٹانوں کا ہے ،اس کے گرد ریت کے ٹیلوں
کی طرح مشک کی دیوار یں ہیں اوراس میں نہریں جاری ہیں۔ (الترغیب والترہیب،
کتاب صفۃ الجنۃ والنار، رقم ۳۴ ،ج۴ ،ص ۲۸۳)
زبان کی آفتیں معاشرے کے سکون کے لیے زہر اور آخرت میں بربادی کا سب سے
بڑاسبب ہیں ۔آپ میں اور ہم میں سے کوئی بھی عقل و شعور رکھنے والا شخص اس
گھاٹے کو قبول کرنے کے لیے کسی طورپر بھی تیارنہیں ۔
پھر ہمارا آپ کو یہی مشورہ ہے ۔کہ زبان اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت
ہے۔اس نعمت کی اصل قدر وہ جانتے ہیں جو قوتِ گویائی سے محروم ہیں۔
اس نعمت کابہتر اور جائز استعمال کریں ۔اس کی آفتوں سے بچیں !!
فضول گفتگو اور فضول صحبت سے بچیں !!مت وقت اور اپنے اعمال برباد کریں
!!ایسا نہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔برائے کرم !!ایسا نہ کریں !!!گوشت کے لوتھڑے کو
آگ کا شعلہ نہ بننے دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ:قارئین :ہمارا عزم آپ کی خدمت اور باشعور معاشرہ ۔۔۔موٹیویشنل ٹریننگز
،ٹیچر ٹریننگز ،اور طبی معاملات اور شرعی معاملات میں شرعی رہنمائی اور
نفسیاتی امراض کے متعلق آپ ہماری خدمات لے سکتے ہیں ۔ |