یہ ہے ہمارا کلچر؟؟

کلچر کسی بھی معاشرے کے عوام کی عکاسی کرتا ہے۔ لوگوں کے رہنے سہنے کا انداز، انکی زبان، سوچنے کا انداز، انکا سلوک، روزمرہ زندگی میں انجام دئے جانے والے رسم و رواج، آرٹ، ٹیکنالوجی، پہننے اوڑھنے کے انداز، کھانے پینے کے انداز، شادی بیاہ اور مذہبی رسومات اور سیاسی اور معاشی نظام کسی بھی معاشرے میں رہنے والوں کے تہذیب و تمدن کے حوالے سے انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ہم تاحال گوری چمڑی والوں کے سحر سے باہر نہیں آسکے۔ جو علاقہ سو سال تک انگریزوں کی غلامی میں رہا ہو اور جہاں کے جاگیردار انگریزوں کے پاؤں چاٹ کر جاگیروں کے لالچ میں ہمارے راز فاش کرکے سینکڑوں ایکڑ اراضی کے مالک بن گئے ہوں وہاں کی تہذیت اور ثقافت کیسی ہوگی؟؟ اگر ہم یہ کہیں کہ ہم تا حال غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اور ہمارا تو اپنا کوئی کلچر ہی نہیں ہے تو بہت سے لوگوں کو یہ بات نا گوار گزرے گی۔ ہم آدھے تیتر اور آدھے بٹیر ہیں۔ ہندوستان کا کلچر ہماری رگ رگ میں سمایا ہوا ہے۔ کہنے کو ہم مسلمان ہیں مگر ہماری تمام عادات و خصائل کہیں سے بھی ہمارے مذہب سے میل نہیں کھاتیں ۔ کبھی ہم گوروں کی سو سالہ روایات کے غلام ہیں اور کہیں ہم ہندو رسم و رواج کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ہم مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے انسانیت شرما جاتی ہے۔ اسلام نافذ کرنے کی باتیں کرتے ہیں مگر زبانی کلامی، اسلامی کلچر جسکی اصل جائے پیدائش عرب کا وہ خطہ ہے جہاں پر ہر سال پوری دنیا سے مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں ۔ ہمارے ملک سے بھی ہر سال لاکھوں فرزندان توحید اس فریضے کی ادائیگی کیلئے جاتے ہیں اور قربانی بھی کرتے ہیں۔ اور صرف ایک بار نہیں بلکہ بار بار جاتے ہیں یہاں تک کہ ہمارے ملک کے بہت سے صاحب ثروت لوگ اور سرمایا دار بیمار اور بھوکے لوگوں کو بلبلاتا ہوا اور موت کی دہلیز پر بیماریوں سے لڑتے ہوئے چھوڑ کر جمعہ کی نماز ہر ہفتے سعودی عرب میں جا کر ادا کرنے کیلئے چلاے جاتے ہیں جبکہ اﷲ تعالیٰ نے انکی دولت میں ان غریبوں کا حصہ رکھا ہے جسکے وہ حقدار ہیں ۔یہ دولت کے زعم میں آٹھ آٹھ اور دس دس حج اور عمرے ادا کرتے ہیں مگر اپنے لین دین ، صلہ رحمی ،نا جائز منافع خوری، ٹیکس چوری، حقوق زنی، سود خوری، زخیرہ اندوزی اورکالی دولت کے ارتکاز میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ دہرے معیار کے حامل یہ اسلامی کلچر کے ٹھیکیدار جنہوں نے اسلام کے نام پر کلچر کی دھجیاں اڑا ئی ہیں یہی ہماری تہذیب کی جنم بھومی کے حسن شناس ہیں جو اسلام کے نام پر ہر روز شرما دینے والے کارناموں کے معمار ہیں۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دیواروں پر متبرک آئیتیں آویزاں ہیں اور انکے سائے میں سودے بازی ہو تی ہے۔ عدالتوں کے ایوانوں میں قرآن پاک کے سائے میں جھوٹی گواہیاں اور بیان ریکارڈ کئے جاتے ہیں اور اس متبرک کتاب کی بے حرمتی کرکے اپنے مقاصد حل کئے جاتے ہیں۔انصاف کے نام پر لوگوں کی لوٹ مارجاری ہے اکثر وکلاء عدالتوں میں دلالوں کا کردار کرتے ہوئے منصفوں کے نام پر موکلوں سے لاکھوں روپے بٹور کر حرام کھانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ کاروبار، تجارتی مراکز اور صنعتوں کے اسلامی اور متبرک نام مثلاً بسم اﷲ ، الحمد، محمدیہ جیسے متبرک ناموں پر ہر قسم کی لوٹ مار جاری ہے۔ ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، منافع خوری، ناپ تول میں کمی اور ہر قسم کی بے ایمانی انتہائی ڈھٹائی سے جاری ہے، صحت کے نام پر اپنے آپکو مسیحا کہلوانے والے بھیڑیے انسانوں کی کھال میں ملبوث مریضوں کی صحت اورانکے قتل عام میں مصروف ہیں۔ ادویات بنانے والی کمپنیوں سے ساز باز کرکے مریضوں کی خرید و فروخت جاری ہے ہر روز صحت کے نام پر لاکھوں مریضوں کی جیبوں پر ہاتھ صاف کئے جاتے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کے دلال جا بجا کتوں کی طرح مریضوں کو سونگھتے پھرتے ہیں اور ڈاکٹروں سے انکی سودے بازی میں مصروف رہتے ہیں اور اسی تگ و دو میں ہسپتالوں کے قصاب خانوں میں مریضوں کو عمر بھر کیلئے معزور کررہے ہیں اور ان مریضو ں کا قتل عام جاری ہے مگر ہمار ی ثقافت میں موجود ادارے انہیں مستوجب سزا قرار دینے سے قاصر ہیں۔ پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کے نام پر مریضوں کو خوفزدہ کرکے انکے پیروں تلے زمین نکال دی جاتی ہے ۔ اپنی پسند کی لیبارٹریز میں مہنگے داموں ٹیسٹ کروا کر ان سے کمیشن کھائے جانیوالے نام نہاد اسلامی کلچر میں اسلام کے نام پر ہر روز زندگی اور موت کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔

دہشت گردجنہیں ہم اپنے کلچر کا حصہ کہتے ہیں وہ اسلام کی بساط پر گھناؤنا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں اور پاکستان کے 22 کروڑ عوام پر اپنی شریعت نافذ کرکے انہیں اپنی مرضی سے چلانا چاہتے ہیں ۔ ہماری سیاسی جماعتیں بھی ہمارے اسلامی تشخص کی علمبردار ہیں جنکے لوگ پارلیمان کے مقدس ایوانوں کی راہ داریوں میں شراب و کباب اور شباب سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں اور کہنے والے بڑی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ یہ تو انکا ذاتی فعل ہے اور کسی کی برائیوں کو اچھالنا نہیں چاہئے ان کی پردہ پوشی کرنی چاہئے۔ کیا ہمار کلچر جس پر ہم اسلام کی ملمع کاری کرکے عوام کو بے وقوف بناتے ہیں کسی کو غیر انسانی اور غیر اسلامی حرکت کرنے کی اجازت دیتا ہے؟اسی طرح جو ہمارے معاشرے میں قتل و غارت گری کرنے والے دہشت گردوں کے ساتھی ہیں اور دہشت گردی میں ملوث رہے وہ بڑے طمطراق سے ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھ کر عوام کو بے وقوف بنانے میں مصروف ہیں۔ دہشت گردوں کے گماشتے مختلف روپ دھار کر اپنی مرضی کے اسلام کے نام پر ہر روز قتل و غارت گری جاری ہے اور بے گناہ لوگوں کو مارنے والوں کو شہادت کے درجات پر فائز کرکے ہماری عسکری قوت اور ہمارے ہزاروں بے گناہ شہداء کی تذلیل میں مصروف ہیں مگر ہماری حکومت اور ہمارا دہری پالیسی پر گامزن میڈیا انکو عوام میں مقبولیت دلوانے اور ایک خاص ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے ایک نیا کھیل کھیلنے میں مصروف ہے جہاں ہمارے سیاسی گماشتے کرپشن میں مصروف ہیں وہیں ہمارا خوفزدہ اور لالچی میڈیا بھی انتہائی شرمناک کردار ادا کرتے ہوئے کروڑوں روپے کمانے میں مصروف ہے اور اسے ملک اور قوم کے مفادات کا ذرہ برابر بھی خیال نہ ہے کہ دولت ہی اسکی اولین ترجیح ہے۔ہم کونسے کلچر کی بات کرتے ہیں ، ہم کونسے تشخص کی بات کرتے ہیں اور ہم کس اسلام کی بات کرتے ہیں؟؟ نہ ہی ہمارا دین اور نہ ہی ہماری روایات ہمیں گھناؤنے کھیل کھیلنے کی اجازت دیتی ہیں ۔ ہمارے یہاں ہرروز ایسے ایسے شرمناک واقعات دہرائے جاتے ہیں جس سے انسانیت بھی شرما جاتی ہے۔ آئے روز پنچائیتی اور جرگے جن میں لوگوں کی معصوم بچیوں اور خواتین کو ونی ، کاری کارو اور بھائی کی پسند کی شادی پر اسکی بہن کے ساتھ کمرے میں لے جا کر زبر دستی اسکے ساتھ پنچائیتی اور جرگے کے ایماء پر زنا جیسا مکروہ کھیل کھیلا جاتا ہے۔ کیا ہم اس کلچر کی بات کرتے ہیں جس میں ہر روز معصوم اور نا بالغ بچیوں کی عصمت دری کرکے انکے خاندان کے خاندان برباد کر دیئے جاتے ہیں اور ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے انتہائی بے شرمی اور بے حسی کا شکار ہیں اور وہ ملزمان کو پکڑنے اور انصاف کے کٹہرے میں لانے میں بری طرح ناکام ہو جاتے ہیں۔ ہمارے صاحب اقتدار انتہائی دھٹائی سے متاثرین کی دلجوئی کے اعلانات کرتے ہیں ۔ انکے لئے افسوس کیا جاتا ہے اور ملزمان کیلئے سختی سے نمٹنے کی باتیں کی جاتی ہیں اور پھر کچھ عرصے کے بعد دوسرا واقعہ ہو جاتا ہے۔ اسطرح کے گھناونے واقعات دوبارہ دہرائے ہی کیوں جائیں اگر ہم ایسے مجرموں کو انہیں پوری پوری سزا دیکر انکے انجام تک پہنچا دیں۔ اگر وہ کسی طرح انصاف کے کٹہرے میں آ بھی جائیں تو انہیں ہماری آزاد عدالتیں عدم دستیابی گواہان یا پھر پولیس کی تفتیش میں جھول ہونے کے باعث چھوڑ دیتی ہیں۔ ہمارے کلچر میں انسان کتے اور بلوں کی طرح زندگی گزاررہے ہیں جبکہ ہمارے سابقہ وزیر اعظم کے چڑیا گھر میں پلے ہوئے موروں پر دسیوں سرکاری سپاہی مامور تھے اور اگر کوئی بلا باہر سے آ کر کسی مور کو کھا جائے تو اس بلے کو اس کلچر میں رہتے ہوئے پولیس مقابلے میں ماردیا جاتا ہے کیونکہ وہ مور وزیر آعظم کا مور تھا ۔ یہ ہے ہمارا کلچر جس میں انسان ہر روز گاجر مولی اور جانوروں کیطرح کاٹ کر پھینک دیئے جاتے ہیں ۔ ہم جس بدبو دار کلچر میں رہتے ہیں وہاں ہر روز حکومتی گماشتے مختلف صورتوں میں ہمارے ملک کی عصمت دری کرتے ہوئیے دکھائی دیتے ہیں مگر ان پر کوئی قانون نافذ نہیں ہوتا۔ یہ ہے ہمارا کلچر جس میں ہم رہتے ہیں اب آپ اس کلچر کو کوئی بھی نام دے سکتے ہیں۔

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 138815 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.