از قلم: حافظ عمیر حنفی
اﷲ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک آزادی کی نعمت بھی ہے۔ جس کی
قدروقیمت کسی غلام سے ہی معلوم کی جاسکتی ہے۔ دنیا کی ہر نعمت اپنے پیچھے
ایک قربانی رکھتی ہے۔ جس قدر بڑی نعمت ہو اس کے لیے اْسی قدر بڑی قربانی کا
ہونا بھی ناگزیر ہے۔
جدید دنیا کے نقشے پر پاکستان واحد ملک ہے جو اﷲ تعالیٰ نے لاکھوں افراد کی
جانی، مالی قربانیوں کے صدقے عطا فرمایا۔ جس میں اکابر اہل علم اور مشائخ
عظام نے بھرپور کردار ادا کیا۔
جس کی واضح دلیل ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد کراچی میں سب سے پہلی پرچم
کشائی شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اﷲ سے کروائی گئی تو مشرقی
پاکستان ڈھاکہ میں پرچم کشائی کی رسم شیخ المحدثین حضرت علامہ ظفر احمد
عثمانی تھانوی رحمہ اﷲ کے ہاتھوں ادا کرائی گئی تو پاکستان کی بنیاد میں
اکابر اور اہل علم کا کردار کسی بھی شخص سے مخفی نہیں۔ ان اکابر میں حکیم
الامت حضرت تھانوی رحمہ اﷲ اور آپ کے خلفاءِ کرام کی قربانیاں ایک مستقل
باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔
پاکستان کا قیام کسی آرام دہ کمرے میں مشاورت کے نتیجہ میں نہیں ہوا، بلکہ
اس کے قیام کی ایک مکمل تاریخ ہے۔1857ء کی جنگ آزادی سے جو حریت کا ولولہ
اْجاگر ہوا، وہ وقت کے ساتھ ساتھ کروٹیں لیتا ہوا آگے بڑھتا رہا، بالآخر
تحریک پاکستان کا رْوپ دھارا۔
پھر مسلمانانِ ہند نے قیامِ پاکستان کے لیے ’’بنیان مرصوص‘‘ بن کر جو
کاوشیں کیں، اﷲ تعالیٰ نے اس کے نتیجہ میں ۷۴۹۱ء میں دنیا کے نقشہ پر پہلا
اسلامی ملک عطا فرمایا۔
یہ واحد اسلامی ملک ہے جس کی بنیاد ’’لاالٰہ الا اﷲ‘‘ ہے اور کی پیشانی پر
بھی ’’لا الٰہ الا اﷲ‘‘ لکھا ہوا ہے۔ اپنی قیادت کے شانہ بشانہ لاکھوں
افراد نے جانی قربانی پیش کرکے بنایا۔ جن کی پْرخلوص نیت یہی تھی کہ آزاد
ریاست میں مسلمان قرآن و حدیث کے مطابق آزادانہ حیثیت سے زندگی بسر کرسکیں-
بانیانِ پاکستان نے پورے خلوص کے ساتھ قربانیاں دیں اور ہمیں ایک آزاد
ریاست عطا فرمائی گئی۔ برصغیر میں ساڑھے تین چار لاکھ مربع میل آبادی اور
اپنی کل آبادی کے قریباً نصف پر مشتمل ایک علیحدہ ملک حاصل کرنے کے لیے
مسلمانوں نے جان، مال اور آبرو کی جو قربانی پیش کی، آج تک دنیا میں اس کی
کوئی مثال نہیں ملتی۔
1947ء میں لاکھوں افراد کے بیدریغ قتل اور اربوں کی جائیداد و مال کے اتلاف
کی عدیم المثال قربانی، ایک متحدہ پاکستان (جس کے لیے مطالبہ کرنے والوں
میں مسلم بنگالی رہنما پیش پیش تھے) کے لیے اور 1971 میں ایسی ہی قربانی
پاکستان کو دولخت ہونے سے بچانے کے لیے دی گئی۔
اصل سازش ہندوؤں نے تیار کی، جس کو عملی جامہ سکھوں اور حکمران انگریزوں کی
اعانت اور تائید سے پہنایا گیا۔ مکار ہندوؤں کی سازش میں روایتی طور پر
بیدماغ اور تشدد پسند سکھوں اور صلیبی ذہنیت اور منافقانہ ڈپلومیسی کے لیے
مشہور انگریزوں کی شرکت، مسلمانوں پر ظلم و تشدد کے جو پہاڑ توڑ سکتی تھی،
آج ہم اس کا محض تصور ہی کرسکتے ہیں۔
پندرہ لاکھ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا، ایک لاکھ مسلمان
عورتوں اور دوشیزاؤں کو اغواء اور ذلیل و رْسوا کیا،80 لاکھ مسلمانوں کو
اربوں روپے کی جائیداد سے محروم کردیا،پاکستان کے حصہ کی فوج کو دور دراز
حصہ میں بھیج کر اسے بروقت پاکستان پہنچنے سے روک دیا، تاکہ وہ ان کی کوئی
امداد نہ کرسکے۔پاکستان کے حصہ کا ۵۷ کروڑ روپے کا اثاثہ روک لیا۔
تقسیم ملک کے لیے اتنی قلیل مدت مقرر کی گئی کہ اتنی مختصر مدت میں پاکستان
اپنے پاؤں پر کھڑا ہی نہ ہوسکے، بلکہ وہ جونہی بھارت ماتا کے بطن سے سر
نکالے تو اسے وہیں کچل کر رکھ دیا جائے یا وہ ایک پکے ہوئے پھل کی طرح
بھارتیوں کی گود میں آپڑے۔
ہمیں اپنے ملک پاکستان میں حصولِ آزادی کے بعد اب مزید کون سی آزادی درکار
ہے؟ یقیناً یہ ملک اﷲ عزوجل کی نعمت ہے، لیکن کیا ہم اس میں ناچ گانے کی
آزادی چاہتے ہیں؟ کیا ہم جْوا کھیلنے کی آزادی چاہتے ہیں؟ کیا ہمیں عریانی
و فحاشی اور بے حیائی کی آزادی درکار ہے؟ یہ پیارا ملک جس کی پیشانی پر
’’کلمہ طیبہ‘‘ درج ہے، جو اسلام کے نام پر ہی حاصل کیا گیا، آج ہم اور
ہماری غلط پالیسیوں کی وجہ سے کسی دوسری ڈگر پر چل رہا ہے۔
|