بھارت نے انسانی تاریخ کا سب سے بڑا کالا قانون نافذ کرکے
جنوبی ایشیاء کا مستقبل تاریک کرڈالا جس سے خطے کا امن تارتار ہوسکتا ہے
مودی سرکارنے صدارتی حکم نامے کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر
دی اس بھارتی کالے قانون کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر آج سے بھارتی یونین کا
علاقہ تصور ہو گا۔ لداخ کو مقبوضہ کشمیر سے الگ کر دیا گیا۔ یہ قدم
اسرائیلی طرز پر کشمیریوں کو اقلیت میں بدلنے کیلئے اٹھایا گیا ہے۔ بھارتی
اقدام کے خلاف پاکستان ،آزادکشمیر،لندن ،کنیڈا سمیت دنیا بھر میں مودی
سرکار کے خلاف ا حتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالی جارہی ہیں۔ حقائق بتاتے
ہیں جب بھارتی پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ امیت شاہ آرٹیکل 35 اے اور 370
منسوخ کرنے کا شوشہ چھیڑا گیا تھا اس وقت بھی بھارتی پارلیمنٹ میں اپوزیشن
ارکان نے ماننے سے انکار کر دیا تھا جس پر اجلاس کے دوران اپوزیشن نے
مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت کی جانب سے امن و امان کی صورتحال داو پر
لگانے پر شدید احتجاج کیا، اپوزیشن رہنماوں نے سپیکر کے ڈائس کا گھیراو کر
لیا اور حکومت مخالف نعرے لگائے۔ مودی حکومت نے پارلیمنٹ میں ہار دیکھتے
ہوئے صدارتی حکم نامے کے ذریعے نئے کالے قانون پر عملدرآمد کروا دیا۔
آرٹیکل 35 اے، بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کا حصہ تھا جس کے تحت جموں کشمیر
کو خصوصی ریاست کا درجہ دیا گیا تھا۔ آرٹیکل 35 اے کے مطابق کوئی شخص صرف
اسی صورت میں جموں کشمیر کا شہری مانا جاتا اگر وہ یہاں پیدا ہوا ہو۔ کسی
بھی دوسری ریاست کا شہری جموں کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتا تھا اور نہ
ہی یہاں کی مستقل شہریت حاصل کر سکتا تھا اور نہ ہی ملازمتوں کا حقدار
تسلیم کیا جاتا تھا۔ یہی آرٹیکل 35 اے جموں و کشمیر کے لوگوں کو مستقل
شہریت کی ضمانت تھا۔ اسے منسوخ کرنے کا مطلب بھارت کی جانب سے کشمیر کے
خصوصی ریاست کے درجے کو ختم کرنا ہے۔آرٹیکل 370 کی وجہ سے صرف تین ہی
معاملات بھارت کی مرکزی حکومت کے پاس تھے جن میں سیکیورٹی، خارجہ امور اور
کرنسی شامل ہیں۔ باقی تمام اختیارات جموں و کشمیر حکومت کے پاس تھے۔ بھارت
اب کشمیریوں کی جداگانہ پہچان ختم کرکے متنازعہ علاقے میں غیر کشمیریوں کو
لانا چاہتا ہے۔ اس لیے آج تک تمام کشمیری بھارت کے اس نظرئیے کی مذمت کرتے
رہے ہیں۔اس آرٹیکل کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ کی جموں و کشمیر کے حوالے
سے ان قرار دادوں کی رہی سہی اہمیت ختم ہونے کا بھی اندیشہ ہے جن کے مطابق
جموں کشمیر کو متنازعہ قرار دیا گیا تھا اور پاکستان اور بھارت کو کہا گیا
تھا کہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے رائے شماری کا ماحول
کرائی جائے۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے آئین کے آرٹیکل 370 کی ایک شق
کے علاوہ تمام شقیں اور آرٹیکل 35 اے ختم کرنے کا بل بھی پارلیمنٹ میں پیش
کیا۔ بھارتی صدر نے مقبوضہ کشمیر کی خود مختاری کی حیثیت ختم کرنے کے بل پر
دستخط کر دیئے۔ بل کے ذریعے مقبوضہ کشمیر اور لداخ کو تقسیم کر دیا گیا،
جموں و کشمیر کی اپنی قانون ساز اسمبلی ہو گی، لداخ بغیر قانون ساز اسمبلی
کے وفاقی علاقہ ہوگا۔جموں و کشمیر ریزرویشن بل 2019ء کے ذریعے بھارت نے
مقبوضہ کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کو بھی ختم کردیا ہے۔ اس
آرٹیکل کے تحت کشمیریوں کو کچھ حقوق حاصل تھے اور اس کے ختم ہونے سے اب
کشمیری ان چند حقوق سے بھی محروم ہوجائیں گے، جبکہ مقبوضہ کشمیر کی مسلم
اکثریتی حیثیت ختم ہوجائے گی اور وہاں غیر مسلموں اور غیر کشمیریوں کو
بسایا جائے گا۔ مقبوضہ کشمیر اب بھارتی یونین کا حصہ کہلائے گا، جموں و
کشمیر اب ریاست نہیں کہلائے گی۔بھارت کے آئین کی دفعہ 370 کے تحت ریاست
جموں کشمیر کو وفاق میں ایک خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ اس دفعہ کے تحت مقبوضہ
کشمیر کو اپنا آئین بنانے کی اجازت ہے اور متعدد معاملات میں بھارتی وفاقی
آئین کا نفاذ جموں کشمیر میں منع ہے۔ آرٹیکل کے تحت مقبوضہ کشمیر میں
کشمیریوں کے سوا بھارت کا کوئی بھی شہری یا ادارہ جائیداد نہیں خرید سکتا
جبکہ صنعتی کارخانے اور ڈیم کے لیے اراضی بھی حاصل نہیں کی جاسکتی۔دفعہ 370
اور 35 اے کی منسوخی سے مقبوضہ کشمیر کی آبادیاتی، جغرافیائی اور مذہبی
صورتحال یکسر تبدیل ہوجائے گی اس طرح مقبوضہ وادی میں بھارتی حکومت ایک نیا
اسرائیل بسان کی سازش کرے گی وزیر ریلوے شیخ رشید نے آئندہ پندرہ روز میں
سری نگر کے حالات مزید کشیدہ ہونے کی پیش گوئی کر دی۔ میڈیا سے گفتگو کرتے
ہوئے انہوں نے کہا کہ مودی چاہتا ہے سری نگر اور لداخ پر 35 اے اور 37 لاگو
کرکے براہ راست دہلی کے زیر تسلط لے آئے جو پاکستان اور کشمیریوں کیلئے
ناقابل قبول ہے۔ اس سے قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ
پاکستان ہر فورم پر کشمیریوں کی سفارتی، سیاسی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے
گا۔ وزیر خارجہ او آئی سی کے سیکرٹری جنرل کو کشمیر میں امن و امان کی
صورتحال سے آگاہ کریں گے اور نہتے کشمیریوں کو بھارتی بربریت سے بچانے
کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ مقبوضہ کشمیر کی سابق
وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ آج مقبوضہ کشمیر کی لیڈرشپ کا دو قومی
نظریہ کو ٹھکراتے ہوئے بھارت سے الحاق کا فیصلہ غلط ثابت ہوگیا۔سابق
وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ بھارت کا یکطرفہ فیصلہ غیر قانونی وغیر
آئینی ہے، 5اگست بھارتی جمہوریت کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے اور اس فیصلے
سے 1947 میں مقبوضہ کشمیر کی لیڈرشپ کا دو قومی نظریہ کو ٹھکراتے ہوئے
بھارت سے الحاق کا فیصلہ غلط ثابت ہوگیا۔ محبوبہ مفتی کا مزید کہنا تھا کہ
بھارتی حکومت کا آئین سے آرٹیکل 370 کو ختم کرنا یک طرفہ، جانبدرانہ اور
خودساختہ فیصلہ ہی نہیں بلکہ یہ غیر قانونی اور غیر آئینی بھی ہے جو مقبوضہ
کشمیر میں بھارتی فوج کی موجودگی کو ایک ’قابض فورس‘ میں تبدیل کردے گا۔
محبوبہ مفتی نے کہا کہ بھارتی فیصلے سے برصغیر سے تباہ کن نتائج ہوں گے اور
بھارت مقبوضہ کشمیر میں کیے گئے اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہوگیا جب کہ
بھارتی حکومت کے ارادے صاف ظاہر ہیں، وہ چاہتے ہیں مقبوضہ کشمیر کی عوام
خوف و ہراس کا شکار ہو جائیں۔
تازہ ترین بھارتی اقدام سے فلسطینیوں کی طرح کشمیری بھی بے وطن ہوجائیں گے،
کیونکہ کروڑوں کی تعداد میں غیرمسلم آبادکار وادی ٔ کشمیر میں آباد ہوجائیں
گے، جو ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قابض ہوجائیں گے۔ کشمیر کی مسلم
اکثریتی حیثیت ختم ہونے کا خطرہ۔ بھارت کے آئین کی دفعہ 370 کے تحت ریاست
جموں کشمیر کو وفاق میں ایک خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو اپنا
آئین بنانے کی اجازت ہے اور متعدد معاملات میں بھارتی وفاقی آئین کا نفاذ
جموں کشمیر میں منع ہے۔ آرٹیکل کے تحت مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے سوا
بھارت کا کوئی بھی شہری یا ادارہ جائیداد نہیں خرید سکتا جبکہ صنعتی
کارخانے اور ڈیم کے لیے اراضی بھی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ دفعہ 370 اور 35 اے
کی منسوخی سے مقبوضہ کشمیر کی آ دیاتی، جغرافیائی اور مذہبی صورتحال یکسر
تبدیل ہوجائے گی۔ مقبوضہ کشمیر کی مسلم اکثریتی حیثیت ختم ہوجائے گی اور
وہاں غیر مسلموں اور غیر کشمیریوں کو بسایا جائے گا۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے بھارتی آرٹیکل 370 ختم کرنے کی کوشش کی
شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی اقدام ناقابل قبول اور اقوام متحدہ کے
خلاف اعلان بغاوت اور جنگ ہے پاکستان فی الفور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل
کا ہنگامی اجلاس بلائے، چین، روس، ترکی، سعودی عرب اور دیگر دوست ممالک سے
فوری طورپر رابطہ اور مشاورت کی جائے۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کشمیری
تنہا نہیں، کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے، قائد اعظم ؒکے اس فرمان پر ہر
پاکستانی کٹ مرنے کو تیار ہے، جو ہماری شہہ رگ اور قومی عزت وغیرت پر ہاتھ
ڈالنے کی حماقت کرے گا، وہ بھیانک انجام سے دوچار ہوگا، کشمیریوں کو پیغام
دیتے ہیں کہ ان کے جائز قانونی اور انسانی حقوق کے لئے پاکستان ہر حد تک
جائے گا، کشمیر کاز کے لئے پاکستان یک آواز اور متحد ہے مقبوضہ جموں وکشمیر
کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی کوشش بھارتی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے
فیصلوں کی توہین ہے، استصواب رائے کشمیریوں کا جمہوری حق ہے، سیاسی وعسکری
قیادت کے اجتماعی فیصلوں کا وقت آگیا ہے، کشمیر کاز کے لئے پاکستان یک آواز
اور متحد ہے، پارلیمان کا مشترکہ ہنگامی اجلاس بلایا جائے اور صورتحال کا
گہرائی سے جائزہ لے کر جامع حکمت عملی مرتب کی جائے۔دوسری جانب پیپلزپارٹی
کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں پر بھارت
کے مظالم ناقابل برداشت ہیں، انتہا پسند بھارتی حکومت کے عزائم کھل کر
سامنے آچکے ہیں، ۔وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے بھی بھارتی حکومت کی جانب
سے جموں کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم کرنے کے اقدام کی شدید مذمت کرتے
ہوئے کہا کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے سے بی جے پی کے مکروہ
عزائم کھل کر سامنے آگئے ہیں، کشمیر کی خود مختارحیثیت کا خاتمہ کشمیریوں
کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی کی نائب صدر سینیٹر
شیری رحمان نے اس حوالے سے کہا کہ مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے
باقاعدہ اعلان جنگ کردیا ہے، جس شق کو نہرو ختم نہ کرسکا، اسے مودی نے ختم
کرکے بتادیا کہ بھارت اشتعال انگیز ریاست ہے، شرم آرہی ہے کہ ہمارا حکمران
بھی مودی کو مسئلہ کشمیر کا حل قرار دیتا رہا ہے، ریاست پاکستان کو کشمیر
کے مسئلے پر مشترکہ حکمت عملی بنانا ضروری ہے، بھارت سن لے! پاکستان کا بچہ
بچہ کشمیریوں کے ساتھ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ۔ مقبوضہ وادی میں
ظلم کی سیاہ رات ختم ہونے کا وقت آگیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو حق خود
ارادیت ملنا چاہیے کشمیریوں پر۔ کلسٹر بموں کا استعمال کر کے بھارت 1983
کنونشن معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ سیکیورٹی کونسل عالمی امن و سلامتی
کے خطرے کا نوٹس لے بھارت کے تازین ترین اقدام کے خلاف پوری پاکستانی قوم
سراپا احتجاج ہے بھارت کشمیر میں جمہوریت کا قتل کررہا ہے جو عالمی برادری
کا امتحان ہے، یہ پاکستان کے قومی مفاد کا معاملہ ہے، اس پر پورا پاکستان
ایک ہے۔
|