علامہ ڈاکٹر محمد اقبال : شخصیت اور فن

شاعر مشرق علامہ اقبال اردو اور فارسی کے ایسے مایہ ناز وعظیم شاعر ہیں جن کا شمار دنیا کے عظیم ترین شعراء میں ہوتاہے ۔ محققین وماہرین کا کہنا ہے کہ جس طرح میر تقی میرؔ اٹھارویں صدی کے ، اسداللہ خاں غالب ؔانیسویں صدی کے سب سے بڑے شاعر ہیں اسی طرح اقبال ؔبیسویں صدی کے سب سے بڑے شاعر ہیں ۔

محققین کی یہ بات یقینا درست ہے کہ علامہ اقبال اپنے عہد کے سب سے بڑے شاعر اور ادیب ہیں ،ان کی شاعری میں ایک امنگ ،جذبہ ،خلوص ،محبت ،قوم وملت کا درد اور پیغام پنہاں ہے ۔ ان کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ عشق ومحبت اورفحاشی وعریانیت سےدور قوم وملت کے درد میں ڈوبی ہوئی ہے ۔ ان کی شاعری قارئین خصوصا نوجوانوں کے قلوب واذہان کو گرمادینےاور رو ح کو تڑپا دینے والی ہے ۔ ان کی شاعری میں امت خصوصا نوجوانوں کے لیے درس اور پیغام ہے ۔وہ نوجوانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرکے خداپرستی کی طر ف لے جاناچاہتے ہیں،قوم وملت کی اصلاح کی خاطر انہوں نے کافی پریشانیاں جھیلی ہیں،انگریزوں کے خلاف انہوں نے اپنے اشعار کے ذریعہ ایک محاذ جاری کیا اور اپنے اشعار میں تشبیہات واستعارات نیز صنعت تلمیح اورشاہین کا استعارہ نوجوانوں کے لیے خصوصی استعمال کیاہے ۔بقول شاعر :

نہیں تیر ا نشیمن قصر ِسلطانی کے گنبد پر

توشاہیں ہے بصیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

اقبال گرچہ ایک فلسفی شاعر ہیں لیکن ان کی شاعری مخصوص فکری وتہذیبی پس منظر میں سانس لیتی ہے وہ صرف ایک شاعر ہی نہیں بلکہ ایک مفکر ، مبلغ ،مصلح قوم ،اخوت وبھائی چارگی کے خوگر ،محب وطن اور دانائے قوم وملت ہیں ۔چنانچہ انہی اوصاف حمیدہ کی وجہ سے انھیں ’’سر ‘‘ اور ’’علامہ ‘‘جیسے عظیم خطابات سے نوازا گیا۔

علامہ اقبال کا پورا نام ڈاکٹرمحمد اقبال بن شیخ نور محمدتھا ، والد ہ کا نام اما م بی تھا ۔ آپ کے آباء واجداد کشمیری برہمن تھے جن میں کچھ لوگ اٹھارویں صدی کے آخر یاانیسویں صدی کے اوائل میں اسلام قبول کر کے برطانوی حکومت میںغیرمنقسم ہندوستان کے مشہور شہر سیالکوٹ لاہور(موجودہ پاکستان ) کے علاقہ کھیتیاں میں آکر آبادہوگئے ۔ یہیں پر اقبال کی پیدائش ۹؍ نومبر۱۸۷۷؁ء مطابق ۳؍ذیقعدہ ۱۲۹۴؁ھ کو ہوئی ۔

آپ کے والدین گرچہ بہت زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن تقویٰ وطہارت میں ممتاز تھےان کا گھرانہ ایک مذہبی اور دیندار گھرانہ تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ کے والدین کی خواہش تھی کہ وہ دینی تعلیم حاصل کریں اور بڑے ہوکر ایک عالم دین اورداعی ومبلغ نیز مقرر وقلمکار بنیں ۔ اسی مناسبت سے انھوں نے اقبال کوابتدائی تعلیم کے لیے پڑوس کی مسجد میں بھیجا،لیکن بعد میں بعض احباب کے مشورے سے عربی ،فارسی کے علاوہ انگریزی اور جدید علوم کی طرف بھی توجہ فرمائی اور اسکاچ مشن اسکول میں ان کا داخلہ ہوگیا ،جہاں انہوں نے خوب محنت اور لگن کے ساتھ تعلیم حاصل کی ۔

اقبال بچپن ہی سے بہت ذہین وفطین اورشوخ طبیعت کے مالک تھے ،پڑھائی لکھائی کے ساتھ دوستوں کے ساتھ کھیلنا کودنا ان کا بہترین مشغلہ تھا ،ان کی سوچ وفکربہت بلنداور اپنے ہم عصر بچوں سے کہیں زیادہ تھی ،وہ کسی چیز کو رٹنے کے عادی نہ تھے بلکہ سمجھنے کی کوشش کرتے تھے وہ پڑھنے میں بہت تیز تھے جس کی وجہ سے ان کے اساتذہ انہیں بہت عزیز رکھتے تھے ۔چنانچہ انھوں نے سولہ سال کی عمر میں فرسٹ ڈویژن سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور سرکاری تمغانیز وظیفہ کے مستحق قرار پائے۔

شاعری اقبال کے رگ رگ میں رچی بسی تھی یہی وجہ تھی کہ جب وہ اسکاچ مشن اسکول کے انٹر میڈیٹ میں زیر تعلیم تھے اسی وقت سے باقاعدہ شعر وشاعری کرنے لگے تھے ، شروع میں تو وہ دل بہلانے کے لیے اشعار کہتے اور دوستوں کوسناتے ، لیکن اسے محفوظ نہ رکھتے تھے ۔لیکن بعد میں احباب اور دوستوں کے مشورے سے مستقل شاعری کرنے لگے اور اسے محفوظ بھی کرنے لگے۔ چنانچہ نومبر۱۸۹۹؁ء میں ان کے کچھ احباب انہیں ایک مشاعرہ میں لے گئے ،جہاں بڑے بڑے شعراء وادباء موجود تھے ،شروعاتی دور میں اقبال کو اشعار سنانے کا موقع ملا ،پہلے تو وہ ڈرے ،ججھکے لیکن جب غزل کے اس مصرعے پر پہنچے کہ :

موتی سمجھ کے شان ِ کریمی نے چن لیئے

قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے

تو شعراء اور سامعین داد تحسین دینے پر مجبور ہوگئے ،مشاعرے میں موجود شعراءنے کافی حوصلہ افزائی کی ،جس سے اقبال ؔ کو کافی حوصلہ ملا، وہیں سے مستقل شاعری کی طرف مائل ہوگئے اور باقاعدہ شاعری کرنے لگے نیزمشاعروں میں بلائے جانے لگے۔

علامہ اقبالؔ وطن عزیز میں بی اے اور ایم اے کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مزیداعلیٰ تعلیم کے لیے ۲۵؍دسمبر۱۹۰۵؁ء کو انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لیا ۔ یہاں کچھ دنوں قیام کرنے کے بعد مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی تشریف لے گئے اوروہاںکے میونخ یونیورسٹی سے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی ) کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی ۔

۱۹۰۸؁ میں ملک عزیز واپس آکر اقبال نے درس وتدریس اور وکالت کا پیشہ اختیار کیا لیکن وکالت میں کامیاب نہ ہوسکے اور سیاست کےوادی پرخار میں کود پڑے ۔ اقبال کو تدریس اور شعروشاعری سے کافی دلچسپی رہی آخری عمر تک وہی شاعری کرتے رہے ۔ ان کےاردوزبان میں پانچ شعری مجموعے چھپ کر منظر عام پر ان کی حیات ہی میں آگئے تھے ۔جو عوام وخواص میں کافی مقبول رہے ،ان کے اشعار آج بھی ہر خاص وعام کے زبان پر جاری وساری رہتاہے ،علماء،خطباء اپنے درس وتدریس اور خطابت میں برجستہ استعمال کرتے ہیں۔

علامہ اقبالؔ نے اپنی شعرگوئی کا آغاز غزل سے کیا ۔ اور دیگر شعراء سے اپنا ایک الگ مقام بنایا ، عام شعراکی روش سے ہٹ کر عشق ومحبت کی شاعری سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے الفت ومحبت اور بھائی چارگی کا درس دیا،وہ حقیقی محب وطن اور قوم پرست تھے ۔ ان کی غزلوں میں جدید خیالات ونظریات پائے جاتے ہیں ۔ انہوں نے اصلاح سماج اور قوم وملت نیز نوجوانوں کو بیدار کرنے کے لیے شہرہ آفاق نیچرل، قومی اور وطنی نظمیں بھی لکھیں ۔ ’’نالہ یتیم ‘‘ ان کے ابتدائی نظموں میں سے ایک اہم نظم ہے ۔اسی طر ح’’لالہ صحرائی ‘‘، ’’ شعاع‘‘،’’ساقی نامہ ‘‘،’’ ذوق وشوق ‘‘،’’ لینن خدا کے حضور میں ‘‘اور بچوں کے لیے خصوصی ترانہ ’’دعا‘‘ لکھی ۔ بچوں کے لیے لکھا گیا ان کا خصوصی ترانہ ’’دعا ‘‘

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری

زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

آ ج بھی مدارس وجامعات میں خصوصیت سے پڑھا جاتاہے ۔اسی طرح یوم آزدی کی مناسبت سے ان کی لکھی ہوئی شہرہ آفاق نظم ’’قومی ترانہ ‘‘

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

کافی شہرت یافتہ اور مقبول ہیں ۔ آپ کی شاعری میں ایک خاص قسم کا ترنم پایا جاتا ہے۔ان کی دنیا حوصلہ و امید کی دنیا ہے۔بے عملی اور مایوسی سے انہیں زندگی بھر نفرت رہی۔اقبال اردو کے ان شعراء میں سے تھے جنہوں نے مغربی خیالات سے متاثر ہوکر اردو میں کامیابی کے ساتھ نئے مضامین کو جگہ دی اور فلسفیانہ تخیل سے مضمون کو نہایت بلند اور شاندار بنایا۔پروفیسر آرنلڈ جیسے عظیم مفکر ودانشور اور استاذ نے اقبال کی شخصیت کو سنوارنے میں کافی اہم کردار اداکیا ،وہ اقبال کو بہت عزیز رکھتے تھے ،اپنے بچوں کی طرح ان کی دیکھ بھال کرتے اور قدم قدم پر رہنمائی کرتے رہے جس سے اقبال کی زندگی اور شاعری میں مزید نکھارآیا ۔اقبال نے اپنی اعلیٰ ظرفی ،فلسفیانہ خیالات اور بلند سوچ وفکر کے ذریعہ اردو شاعری کو ایک نیا میدان عطا کیا۔ان کے کلام میں میرتقی میرؔ کا سوزوگداز، خواجہ میر دردؔ کی تاثیر،اسداللہ خاں غالب ؔکی جدت،مومن خاں مومن ؔکی نازک خیالی،ذوقؔ کی روانی،شیکسپیرؔ کی فطرت نگاری اورعلامہ شبلی نعمانی کی شیریں کلامی پائی جاتی ہے۔اس میں شک نہیں کہ اقبال نے ابتدا میں مرزا داغ دہلوی سے غائبانہ طور پرخط وکتابت کے ذریعہ اپنےاشعارکی اصلاح لی،جو اپنے وقت کے ایک عظیم شاعر تھے جس پر داغ اور اقبال دونوںکو نازتھا۔ لیکن یہ طریقہ زیادہ دنوں تک نہ چل سکا اور اقبال نے شعروشاعری میں اپنا خود ایک راستہ اختیارکیا، ان کے کلام پر غالبؔ کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔اقبال دنیا کے پہلے شاعر تھے جنہوں نے ادب اور فلسفہ کو اصلاحی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ان کے فلسفہ کا خلاصہ خودشناشی و خود نگری ہے۔ان کے کلام سے علم و یقین کی مکمل توانائی ظاہر ہوتی ہے۔ان کے اعتقاد میں شگفتگی اور شاعری میں مذہبی شگفتگی پائی جاتی ہے۔ان کی شاعری میں فلسفہ اور فلسفے میں شعریت کا عنصر ملتا ہے۔ان کی غزل میں واقعیت اور نظم میں غزل کی نشتریت پائی جاتی ہے۔وہ خالص انسانیت کے سچے ہمدرد تھےاور الطاف حسین حالی کی طرح مصلح قوم وملت تھے ۔

ہم اقبال کی شاعری کو مختلف ادوار میں تقسیم کرسکتے ہیں،پہلا دور ابتداء سے لے کر۱۹۰۵؁ء تک رہا۔اس دور کے کلام میںان کے حب الوطنی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔دوسرا دور۱۹۰۶؁ءسے۱۹۱۱؁ء تک رہا۔اس دور کے کلام میں عشق حقیقی کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔تیسرا دور۱۹۱۱؁ء سے۱۹۳۴؁ءتک رہا۔اس دور کا کلام فلسفہ سے بھرپور ہے۔چوتھا دور۱۹۳۴؁ءسے آخر تک رہا اس دور کے کلام میں زندگی کی بہترین تنقید موجود ہے۔

کلیات اقبال ان کی عظیم شاہکار ہے جس میں چار مجموعے -بانگ درا، بال جبرئیل ،ضرب کلیم اور ارمغان حجاز-شامل ہیں ۔ جو اردو ادب کا ایک عظیم سرمایہ ہے جس پر اہل اردو ادب کو نازہے ۔اسی طرح ان کتابوں کے علاوہ اقبال نے’’ اسرار خودی ‘‘اور ’’پیام مشرق ‘‘وغیرہ بھی فارسی میں لکھی ،نیز دیگر تنقیدی مضامین اور اشعار لکھ کر اردواد ب کو اپنے احساسات وتاثرات اور نظریات سے مالا مال کیا ۔چنانچہ انہی تمام شعری وادبی خدمات کے صلے میںانہیں ۱۹۲۲؁ء میں حکومت کی طر ف سے آپ کو ’’ سر ‘‘ کا خطاب دیا گیا ۔

مذکورہ خدمات وخصوصات کے تناظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ آج بھی علامہ اقبال کا نام نہایت ہی ادب واحترام سے لیاجاتاہے اور جب تک دنیا میں اردو بولی لکھی پڑھی اور سمجھی جائے گی اس وقت تک اقبال کا نام سور ج کی طرح روشن رہے گا ۔

دیگر علماء ،شعراء اور ادباء کی طر ح اردو ادب کا یہ روشن ستارہ بھی ۲۱؍اپریل ۱۹۳۸؁ء کو سیالکوٹ لاہور میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا ۔

’’ اناللہ وانا الیہ راجعون ‘‘۔

Abdul Bari Shafique
About the Author: Abdul Bari Shafique Read More Articles by Abdul Bari Shafique: 114 Articles with 133526 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.