مزید براں اس بند کے پہلے مصرعے میں شاعر نے ”پاک سرزمین“
کے علاوہ ”شاد“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے لغوی معنی ”خوش“ او ر ”مسرور“
کے ہیں۔شاعر ارضِ پاک کی خوشحالی اور شادمانی کے لیے دعا گو ہے اور اس کی
آرزو ہے کہ خوشیاں اس خطہ ارض پر رہنے والوں کا مقدر بن جائیں اورکبھی غم
کا سایہ ان پر نہ پڑے نیزمیرے وطن کے لوگ اپنے وطن کی خوشحالی اور ترقی کے
لیے کوشاں رہیں۔ شاعر وطن (پاکستان) کی خوشحالی کا متمنی ہے۔ اب سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا وطن کس طرح خوشحال ہو سکتا ہے اور افرادِ قوم کس طرح
شادمان رہ سکتے ہیں؟ تو اس کے لیے ملک کے ہر فرد کو اپنا انفرادی کردار ادا
کرنا ہوگا، ہر فرد کو محنت، لگن، شوق اور تندہی سے کام کرنا ہوگا کیونکہ
بقول حکیم لامت علامہ اقبالؒ:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
اور
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک کو شاد وآباد رکھنے اور ایک مثالی قوم بن کر
ابھرنے کے لیے ہم میں سے ہر فرد کو اپنا فرض پہچاننا ہوگا، اپنا ہر کام
ایمانداری اور خوش اسلوبی سے سرانجام دینا ہو گا، عدل کے تقاضوں پر پورا
اترنا ہو گا، ملکی سا لمیت اور دفاع کے لیے تن، من، دھن غرضیکہ ہر طرح کی
قربانی کے لیے تیار رہنا ہو گا، ہمین قانوں کا احترام کر نا ہو گا(وہ قانون
جو اسلام کا عطا کردہ ہے)، ہمیں اپنے معاشرے میں اسلامی تصورات کو اجاگر
کرنا ہو گا، سست روی، کاہلی کو خیر آباد کہہ کر عملی زندگی میں آنا ہو گا،
عمل میں نہ صرف ملکی ترقی اور خوشحالی کا راز مضمر ہے بلکہ بقو ل علامہ
اقبالؒ:
ع عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
پس مندرجہ بالا باتوں کو اپنا کر ہم اپنے وطن کو خوشحال بنا سکتے ہیں۔
بند کے دوسرے مصرعے میں ارضِ پاک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاعر کا کہنا ہے
کہ اے پاک وطن! تو ہمارے ارادوں کی بلندی کی علامت ہے۔تو ایک عالی شان قوم
کے بلند ارادوں کا نشان ہے۔ اس مصرعے میں لفظ”عزم“ سب سے زیادہ اہمیت کا
حامل ہے جس کے معنی ”قصد“، ”ارداہ“یا ”نیت“ کے ہیں۔ قوموں کے عروج و زوال
میں عزم کا بڑا عمل دخل ہے کیونکہ عزم ہی وہ قوت ہے جس کی بدولت قومیں جہدِ
مسلسل پر آمادہ ہوتی ہیں اور منزلِ مقصود کی طرف گامزن ہوتی ہیں تو وہ تمام
راز ان پر منکشف ہوجاتے ہیں جنہیں پانے کی وہ متمنی ہوتی ہیں اور جب کسی
قوم پر پنہاں رازمنکشف ہو جائیں تو وہ قوم دوسری قوموں سے نہ صرف ممتاز
ہوجاتی ہے بلکہ وہ اس مقام پر پہنچ جاتی ہے جس کا وعدہ انسانوں سے اللہ رب
العزت نے خود کر رکھا ہے۔ارشادِ ربانی ہے”بے شک انسان کو وہی ملتا ہے جس کی
کوشش کرتا ہے“۔ اور پیغمبرِ اسلامﷺ کا فرمان ہے، ”اعمال کا دار ومدار نیت
پر ہے“۔
پس جب افرادِ قوم عزمِ صمیم اور مستقل مزاجی سے کسی مقصد کے حصول کے لیے
کوشاں ہوجاتے ہیں تو پھر اللہ کی مدد شاملِ حال ہو جاتی ہے۔تاریخ کے صفحات
پلٹ کر دیکھیں تو ان گنت ایسے واقعات ملیں گے جن سے پتا چلتا ہے کہ جب کسی
قوم نے کچھ کرنے کا پکا ارادہ کرلیا تو دنیا کی کوئی رکاوٹ ان کی راہ میں
حائل نہ ہو سکی۔تاریخِ اسلام سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ میدانِ بدر کی
کامیابی اسی عزم کی بدولت ہوئی، خیبر کی فتح میں اسی عزم نے بنیادی کردار
ادا کیا، اُحد اور خندق میں جہاں جذبہئ جہاد کار فرما تھا، وہاں عزم کو بھی
اتنا ہی دخل حاصل تھا۔یہ عزم ہی تھا کہ صحابہ ؓ اور خود رسولِ خدا ﷺ نے
بھوکے پیٹ خندق کی کھدائی کی؛ لیکن اپنے ارادے میں لغزش نہ آنے دی۔ عزم ہی
کے بل بوتے پر مسلمان صحرائے عرب سے نکلے اور وسطِ ایشیا تک ان کا اقتدار
قائم ہو گیا۔یہ عزم ہی تو تھا جس کی وجہ سے طارق بن زیاد ؒکی قیادت میں
مٹھی بھر مسلمانوں نے ہسپانیہ پر اسلامی پرچم لہرا دیا۔مسلمانوں کے عزم کی
بدولت یورپ کے کلیساؤں میں اذانیں گونجنے لگیں اور پھر قائد اعظم کی
اولوالعزمی اور برِصغیر کے مسلمانوں کے ارادے کی پختگی کی بدولت ہم ایک الگ
خطہ ئ پاک حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے؛ جہاں ہم آزادی سے سانس لے
سکیں۔پاکستان اس لیے حاصل کیا گیاکہ ہم (مسلمان) اپنے انداز میں، اپنے
عقائد، اپنی تہذیب وثقافت کو زندہ رکھ سکیں۔ ہم مسلمان قوم اپنے ماضی کے
مادی، روحانی، عملی اور ادبی پہلوؤں کو روشن کرکے دنیا والوں کو بتا سکیں
کہ اسلام ایک ایسا دین ہے جو ہر زمانے میں انسانوں کو ہر قسم کی مادی اور
روحانی ترقی کی راہ پر چلنے میں مدد دے سکتا ہے۔ بانی ئ پاکستان قائد اعظم
محمد علی جناحؒ عزمِ صمیم کی بدولت دو محازوں (ہندو اور انگریز) پر جنگ
لڑتے رہے اور ان کا یہ بلند عزم ہند و سامراج اور انگریز کے سامنے سیسہ
پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوا۔ قائد ِ اعظم ؒ نے قیامِ پاکستان کے بعد
اکتوبر1947ء کو پاکستانیوں کو ان کی اولوالعزمی اور مستقل مزاجی کی تاریخ
یاد دلاتے ہوئے اپنے ایک نشری بیان میں فرمایا:
اگرچہ افق پر تاریکی کے بادل چھائے ہوئے ہیں، لیکن میں آپ سے اپیل کرتا ہوں
اور قوم کے نام پیغام دیتا ہوں
کہ اپنے دلوں میں جذبہ اور جوش وخروش پیدا کیجیے اور حوصلے، امید کے ساتھ
اپنا کام کرتے جایئے۔ ان شاء اللہ
کامیابی ہماری ہے۔کیا ہم مایوس ہو کر بیٹھ جائیں؟ ہر گز نہیں۔ اسلام کی
تاریخ اولوالعزمی، عالی حوصلگی اور مستقل
مزاجی کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔پس اپنی مشکلوں، رکاوٹوں اور مصیبتوں کے
باوجود آگے بڑھتے جایئے۔
بقول شاعر:
؎ ارادے جن کے پختہ ہوں، نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
|