حج: فلسفۂ فکر اسلامی کی توضیح اور شریعت پر عمل کی ترغیب کا عہد زریں

جدوجہد اور قربانیوں کے بغیر ہم اپنی قومی شناخت واپنے تمدن کا تحفظ نہیں کرسکتے

حج ۹؍ ہجری میں فرض ہوا۔ ’’خزائن العرفان‘‘ میں ہے: حج نام ہے احرام باندھ کر نویں ذی الحجہ کو عرفات میں ٹھہرنے اور مکہ معظمہ کے طواف کا، اس کے لیے خاص وقت مقرر ہے؛ جس میں یہ افعال کیے جائیں۔ قرآن مقدس میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور لوگوں میں حج کی عام ندا کر دے وہ تیرے پاس حاضر ہوں گے پیادہ اور ہر دبلی اونٹنی پر کہ ہر دور کی راہ سے آتی ہیں۔‘‘ [سورۃ الحج: ۲۷]

’’اور حج و عمرہ اﷲ کے لیے پورا کرو پھر اگر تم روکے جاؤ تو قربانی بھیجو جو میسر آئے۔‘‘ [سورۃ البقرۃ:۱۹۵]

’’پھر جب اپنے حج کے کام پورے کر چکو تو اﷲ کا ذکر کرو جیسے اپنے باپ دادا کا ذکر کرتے تھے بلکہ اس سے زیادہ ۔‘‘ [سورۃ البقرۃ: ۲۰۰]

حج! صاحبِ نصاب پر فرض ہے۔ بحمدہٖ تعالیٰ موسمِ حج جاری ہے۔ حج ایسی عبادت ہے جو زندگی میں ایک بار صاحبِ نصاب پر عائد ہوتی ہے۔ ہر سال موسم حج جب آتا ہے تو اپنے ساتھ کئی درس لاتا ہے؛ جس سے انفرادی و اجتماعی فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ ہر ہر پہلو درس لیے ہوئے ہے۔ اس کا فلسفہ مسلمانوں کی فوز و فلاح کا پیغام دیتا ہے۔ فوائد و انعامات کے تئیں ہم دیکھتے ہیں کہ:
اجتماعیت: حج مسلمانوں کی اجتماعیت کا اظہار ہے۔ حج رنگ و نسل سے بالاتر معاشرہ تشکیل دیتا ہے جس میں مساوات و انصاف ہے۔ آج مساوات کا نعرہ دیا جاتا ہے۔ مساوات تو صرف اسلام کے دامن میں ہے۔ دوسروں کے یہاں صرف دعویٰ ہے؛ عمل سے بیگانے ہیں۔ ان کے یہاں رنگ و نسل کے امتیاز نے انسانیت کو شرمندہ کر رکھا ہے۔جب کہ نسلی امتیازات اور معاشرتی تفریق کو حج ختم کرتا ہے۔ ایک لباس،ایک مقام، ایک صدا، ایک رنگ ایک آہنگ میں حاجیوں کا عرفات میں وقوف کس قدر روح پرور ہوتا ہے؛ جس سے شعورِ اجتماعیت ملتا ہے۔مسلمانوں کے رنگ و نسل سے ورا ہو کر یکجائی کا منظر سامنے آتا ہے۔
قربانی: قربانی کا فریضہ بھی درس کے ابواب رکھتا ہے۔قربانی فطرت کا حصہ ہے؛ اسی لیے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دین فطرت میں قربانی کا عظیم نظام عنایت فرمایا۔ حج کا تشکر ہے قربانی۔ اِس زمانے میں جب کہ دین پر ہر سمت، ہر رُخ سے حملہ ہے؛ ہمیں قربانیوں کے لیے تیار ہونا ہوگا؛ فریضۂ قربانی ہمہ جہت اسباق عطا کرتا ہے۔ ہمیں دین کے لیے مال و جان کی قربانی بھی دینی ہو گی۔اور اپنی تمام آسائشوں کو بقائے حق کی خاطر قربان کرنا ہوگا۔ بغیر ایثار کے ہم اپنے تشخص کو برقرار نہیں رکھ سکتے۔
تحفظ شریعت و استقامت: ہندوستان میں ماضی میں بھی مسلمانوں کو مسلسل نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔شعائر اسلامی پر حملہ، کبھی فسادات، کبھی بابری مسجد کی شہادت، کبھی گجرات سانحہ، خونین واقعات۔ لیکن اِس زمانے میں انگریزی دورِ حکومت سے سخت حالات تیار کیے گئے ہیں۔ ملک میں سب سے بڑی اقلیت کو ہزار طریقے سے ستایا جا رہا ہے۔ اسلام کے نظام و آئین کوہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے۔ وہ زباں کس رہے ہیں! جن کے یہاں خود ہزاروں مسائل ہیں۔ جن کے یہاں خود وجودِ نسواں ذلیل و رُسوا ہے۔ جن کے یہاں معاشرتی ناہمواریاں ہیں۔ جن کا قبلہ بھی صحیح نہیں۔ جن کا عقیدہ بھی پتھروں کی نذر ہو چکا ہے۔ جو سنگِ راہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں؛ وہ آسمانی آئین پر پابندی کی بات کرتے ہیں۔ قانون سازی کرتے ہیں۔ جب کہ دین کا قانون ہمیشہ کے لیے ہے؛ وہ زمانی تغیرات سے پاک ہے۔ اور ہر عہد کی تکمیل کرتا ہے۔ حج دین و اسلامی آئین پر بے پناہ استقامت کا پیغام دیتا ہے۔ بلکہ حاجی ارکانِ حج کے ذریعے عملاً قانونِ شرع کی تربیت پاتا ہے کہ اب اس کی اگلی زندگی بھی اﷲ کی اطاعت اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات کی آئینہ دار ہو گی۔

احساس جگائیے: ہم سو رہے ہیں۔ ہمیں بیداری کا پیغام حج و قربانی سے ملتا ہے۔ اسلامی تہواروں کی پشت پر مضبوط فکر پوشیدہ ہے۔ یہی کہ ہم دین فطرت کی طرف لوٹ آئیں۔ بارگاہ خداوندی میں رجوع لائیں۔ نظامِ فطرت کو دل و جاں سے قبول کریں اور جتنے فرسودہ نظام ہیں؛ ان سے اجتناب و دوری اختیار کریں۔ سب نظام چھوڑ دیں۔ سب نظام موت ہیں مسلم کے لیے۔ صرف ایک نظام ’’نظامِ مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم‘‘ ہی نجات و آخرت کی کامیابی کا ضامن ہے۔ یہی حج کا مقصد بھی ہے اور قربانی کا خلاصہ بھی؛ کہ ہم اپنے دین و شریعت کے لیے بیدار ہو جائیں۔

ہماری ذمہ داری: اِس وقت ملک میں جو حالات ہیں وہ دین سے دوری کی بنیاد پر سوہانِ روح ہیں۔ ہاں! امت مسلمہ اگر اپنے تمام شرعی، عائلی، وراثتی، معاشی معاملات میں شریعت کے رول کو حرفِ آخر مان لے تو فرقہ پرست نظام کی موت ہو جائے گی۔ کوئی قانون ہمیں شکست سے دوچار نہیں کرسکتا۔ بشرطے کہ ہم مومن بن جائیں۔ صحیح معنوں میں اسلامی احکام کے عامل بن جائیں۔ یہی تقاضاے عہد ہے اور ہماری ایمانی ذمہ داری بھی۔عموماً یہ ہوتا ہے کہ ہمارے سماج میں انصاف کے تقاضوں کی چشم پوشی کے نتیجے میں دین سے دور طبقہ اپنے نجی معاملات میں کورٹوں کا رخ کرتا ہے؛ جس کا فائدہ اسلام دشمن لابی اٹھاتی ہے اور باقاعدہ اسلام کے خلاف ماحول سازی کی جا سکتی ہے۔ تین طلاق، شاہ بانو کیس وغیرہ معاملات انھیں حالات میں اُبھرے۔تو چاہیے کہ جب معاشرے میں کوئی منفی واقعہ ظہور پذیر ہو تو اسے حکمت و دانش سے شریعت کے دائرے میں منصفانہ طریقے سے حل کر لیا جائے۔ یہی حج کا پیغام ہے اور یہی قربانی کا مقصد کہ شریعت کی بالادستی ہو۔

٭٭٭
 

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 254553 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.