پاکستان میں سانپوں کی اقسام، سامنے آئے تو کیا کریں؟

آپ کو اگر اپنے گھر میں سانپ نظر آئے تو کیا کریں گے؟

اگر یہ سوال عام آدمی سے پوچھا جائے تو یقیناً اس کا جواب یہی ہو گا کہ اسے مارنے کی کوشش کی جائے گی لیکن فہد ملک اور ان کے ساتھی ایسے لوگوں میں شامل نہیں کیونکہ انھوں نے سانپ سمیت دیگر رینگنے والے جانوروں کی مدد کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔
 

image


پاکستان میں سانپ سمیت دیگر رینگنے والے جانوروں کے حوالے سے یہ تصور عام ہے کہ یہ خطرناک ہوتے ہیں اور انھیں مار دینا چاہیے۔ اس لیے عوام کی ایک غالب اکثریت فہد ملک اور ان کے ساتھیوں کو اس وقت حیرانگی اور تعجب سے دیکھتی ہے جب وہ یہ پیغام دیتے دکھائی ہیں کہ سانپ سمیت کسی بھی رینگنے والے جانور کو ماریں نہیں۔

فہد کا کہنا ہے کہ لوگ اگر کسی بھی مقام پر سانپ دیکھیں اور اس سے خطرہ محسوس کریں تو انھیں اطلاع کریں کیونکہ وہ اور ان کے ساتھی اسے پکڑ کر اس کی قدرتی آماجگاہ میں چھوڑ دیں گے۔

صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے رہائشی فہد ملک مشن اویئرینس فاونڈیشن پاکستان کے سربراہ ہیں۔ اس تنظیم میں فہد سمیت دس افراد شامل ہیں جو پاکستان کے مختلف شہروں میں رینگنے والے جانوروں کے حوالے سے مدد فراہم کر رہے ہیں۔

فہد ذاتی طورپر پر گذشتہ تین سال کے دوران 30 سانپ اور سینکڑوں گوہ، کچھوے اور دیگر رینگنے والے جانوروں کو شہروں سے نکال کر ان کے قدرتی ماحول میں پہنچا چکے ہیں۔

فہد ملک کے مطابق ان کا آبائی علاقہ اسلام نگر پندرہ، سولہ سال قبل ایک ایسا علاقہ تھا جہاں زرعی زمینیں اور باغات تھے جہاں کثرت سے سانپ پائے جاتے تھے۔

فہد کے مطابق ’ہمارے لوگ انھیں مار دیا کرتے تھے جس پر میں بہت رنجیدہ ہو جاتا تھا۔ میں کوئی نو، دس سال کا تھا تو اس وقت پہلی مرتبہ میں نے دو سانپ دیکھے تو انھیں پکڑ کر گھر کے ایک خالی کمرے میں چھپا لیا تھا۔

’ایک رات رکھنے کے بعد میں نے دور لے جا کر انھیں چھوڑ دیا۔ وہ جب تیزی سے بھاگے تو مجھے بہت خوشی ملی تھی۔ بس وہ دن اور آج کا دن میں نے اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا کہ جتنے بھی رینگنے والے جانور ہوں گے ان کی مدد کروں گا۔‘

فہد ملک کہنا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سانپوں میں ان کی دلچسپی بڑھتی چلی گئی۔
 

image


ان کا کہنا تھا کہ ’بغیر کسی استاد کے وقت کے ساتھ ساتھ میں خود ہی سانپوں اور رینگنے والے جانوروں کے حوالے سے تعلیم حاصل کرتا چلا گیا اور بہت جلدی یہ سیکھ لیا کہ کون سے سانپ زہریلے ہیں اور کون سے زہریلے نہیں ہیں اور یہ کہ ان سانپوں کو کیسے پکڑا اور کیسے چھوڑا جاتا ہے۔‘

سانپ سے بچاؤ کا بہترین طریقہ
فہد خود تو بےدھڑک سانپ پکڑ لیتے ہیں لیکن عوام کے لیے ان کی سختی سے ہدایت یہی ہے کہ اگر وہ سانپ دیکھیں تو اسے پکڑنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ زہریلا ہو اور نقصان پہنچا دے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سانپ سے بچاؤ کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اسے بالکل بھی نہ چھیڑا جائے۔ اگر راہ چلتے یا کسی بھی مقام پر سانپ دیکھیں تو کسی قسم کے خوف اور ردعمل کا اظہار نہ کرئیں۔ اسے اس کے راستے پر جانے دیں وہ کبھی بھی پلٹ کر حملہ نہیں کرے گا۔‘

فہد نے بتایا کہ ’سانپ اور دیگر رینگنے والے جانور انسانوں سے دور بھاگتے ہیں۔ سانپ کو اگر یہ محسوس ہوگا کہ اسے نقصان پہنچ سکتا ہے تو وہ اپنے دفاع میں حملہ کرتا ہے۔‘
 

image


سانپوں کا قدرتی ماحولیاتی نظام میں اہم کردار
فہد ملک کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ انھیں علم ہوا کہ ماحولیاتی نظام میں سانپوں کا کردار انتہائی اہم ہے۔ ’سانپ کم ہوں گے یا ختم ہو جائیں گے تو ماحولیاتی نظام پر اس کے انتہائی برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

’سانپوں کی مرغوب غذا چوہے ہیں۔ یہ چوہوں کی تعداد کو کنٹرول میں رکھتے ہیں اور زرعی زمین کو چوہوں کی جانب سے پہنچنے والے نقصان سے بچاتے ہیں۔‘

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ کے محکمۂ زراعت کے ڈائریکٹر حسن تاج بھی اس معاملے میں فہد کے ہم خیال ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مشرقِ بعید کے تربیتی دوروں کے دوران انھوں نے دیکھا کہ وہاں سانپوں کی نشوونما کے لیے فارم بنائے گئے تھے جہاں کم زیریلے سانپ پالے جاتے ہیں اور پھر انھیں کھیتوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ چوہے فصلوں اور زمین کو نقصاں نہ پہنچا سکیں۔

فہد ملک کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اپنے زمینداروں کو شعور اور تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ کھتیوں میں موجود سانپوں کو مارنے سے گریز کریں۔‘
 

image


پاکستان میں پائے جانے والے سانپ
شعبۂ حیاتیاتی تنوع کے ڈائریکٹر نعیم اشرف راجہ کے مطابق طویل عرصے سے پاکستان میں سانپوں اور رینگنے والے جانوروں کے حوالے سے کوئی تازہ تحقیق نہیں ہوئی تاہم چند برس پہلے کی دستیاب تحقیق کے مطابق پاکستان میں سانپوں کی 73 مختلف اقسام پائی جاتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق ان میں سے تقریباً آٹھ قسم کے سانپ زہریلے ہیں جن میں سے چار سنگچور، کھیپرا، لنڈی یا جلیبی، کوبرا یا ناگ اور کرا پاکستان بھر میں پائے جاتے ہیں جبکہ باقی کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔

نعیم اشرف راجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ کوئی تازہ تحقیق دستیاب نہ ہونے سے یہ کہنا انتہائی مشکل ہے کہ سانپوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے یا کمی مگر آبادی اور تعمیرات میں اضافے کے سبب سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ دیگر جنگلی حیات کی طرح ان کی آماجگاہیں کم ہوئی ہوں گی۔

فہد ملک کے مطابق چند سال پہلے تک لاہور اور گردونواح کے علاقوں سے انھیں اکثر و بیشتر سانپوں کے حوالے سے اطلاعات ملتی رہتی تھیں لیکن اب یہ سلسلہ بہت کم ہو چکا ہے۔

’گذشتہ سال چند کالز آئی تھیں۔ اس سال چار، پانچ ماہ بعد مون سون شروع ہونے پر ایک کال موصول ہوئی تھی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس کا واضح مطلب ہے کہ سانپوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔


Partner Content: BBC

YOU MAY ALSO LIKE: