انعامات الہیہ اور ہمارا مزاج

یہ کائنات اللہ تعالی کی قدرت کا شاہکار ہے۔اسکی پیدا کردہ ہر شے میں حسن و جمال ہے۔انسان کا مزاج بھی عجیب ہے، ہر شے میں نقص تلاش کرنا اسکا شیوہ ہے۔

تخلیق کائنات کو ہی لیں جس خوبصورتی سے زمین و آسمان، جن وانس،بحر وبر اور شجر وحجر کو بنایا ہے اسے دیکھ کرانسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔چھ دن میں زمین و آسمان بنائے، آسمان کو رنگ برنگے قمقموں سے سجایا، سورج اور چاند کوآسمان کی زینت بنایا، چودھویں کا چاند جب اپنی آب وتاب کے ساتھ چمک رہا ہو کسے اچھا نہیں لگتا۔

سورج جب طلوع ہو رہا ہو یا مغرب سے غروب ہو رہا ہو تو اسکادلکش منظر کس کو نہیں بھاتا۔ ہر روز مقررہ وقت پر طلوع ہوتاہے اور مقررہ وقت پر غروب ہوتا ہے۔دن اور رات اسی کے سبب سے ہیں۔پوری دنیا روشنی اور حرارت حاصل کرنے کے لیے اسی کی محتاج ہے۔

اسکے بے شمار فوائد ہیں اور ہم لمحہ لمحہ اور پل پل اس کے احسان مند ہیں لیکن یہی سورج اگر گرمی برسائے تو ناشکرا انسان اسکے تمام تر فوائد کو بھول کر کوسنا شروع کردیتا ہے۔اگر کچھ دیرکے لیے نمودارنہ ہو تو سردی کی شدت ہو جاتی ہے اور مختلف بیماریاں پھیلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس وقت بھی انسان اسی سورج پر ہی سارا ملبہ گرانا شروع کردیتا ہے۔

کیا وہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے یکدم محسن سے ظالم اور جابر بن جاتا ہے؟کیا وہ اللہ کے حکم کا پابند نہیں؟ اور کیا موسموں کے بدلنے میں، دن رات کے آنے جانے میں اور آسمان و زمیں کی تخلیق میں ہمارے لیے غور و فکر کا سامان موجود نہیں؟پھر یہ ناشکری اور جلد بازی کاہے کی۔

یہی مثال زمین کی ہےجو ہمیں بے شمار فائدے پہنچا رہی ہے۔ ہمارا بچھونا زمین ہے، ہمارا کھانا پینا،رہنا سہنا، اسکے رحم و کرم پہ ہے۔اگر یہی زمین تھوڑی سی حرکت کرے تو آنا فانا بڑے بڑے شہر اور بستیاں تہ و بالا ہو جاتی ہیں۔نا سمجھ انسان زمین کو ہی مورد الزام ٹھہرانا شروع دیتا ہے۔کیا اس کے اتنے فائدے تمھیں بھول گئے اور ایک یہی نقصان نظر آیا ہے؟

یہ کم علم انسان کا مزاج بن چکا ہے کہ کفران نعمت کا ڈر ہے اور نہ ہی نعمتوں کی قدر دانی کا جذبہ۔الا ماشاء اللہ۔

انسان سمندر سے سال بھر فائدہ اٹھاتا ہے۔ملکوں کی ترقی میں سمندری گزرگاہیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ انسان کھانے پینے کا بہت سا سامان سمندر سے حاصل کرتاہے۔سمندری مخلوق سے حاصل ہونے والے فوائد سے سال بھر مستفید ہوتا ہے لیکن جب کبھی کبھار یہی سمندر جولانی دکھاتا ہے اور اسکا پانی ساحل کا رخ کرتا ہےتو اس وقت اسکی سال بھر کی نعمتوں کی فراوانی کو فراموش کر کے اسے ظالم و غضبناک سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کیا یہ اللہ کی ناشکری نہیں ہے؟

اس جہان آب وگل کا نمایاں ترین کردار انسان ہے۔اللہ تعالی نے ہر انسان کو خاص صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ایک شخص علم کی دولت سے مالا مال ہے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونا اسکا شعار ہے۔ اخلاق حسنہ سے آراستہ ہے۔ اپنے عزیز و اقارب اور معاشرے کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔ لیکن کبھی اس سے ذرا لغزش ہوئی تو ادھر ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ایک لمحہ میں اس کی ساری نیک خصلتوں کو نظر انداز کرکے ہیرو سے زیرو بنا دیا جاتا یے۔

اپنی مسجد کے امام کو ہی لیں۔ قرآن کی دولت اپنے سینے میں محفوظ کیے ہوئے ہے۔سب لوگ اسکے پیچھے نماز پڑھتے ہیں۔شادی بیاہ اور دکھ سکھ میں اسی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔کسی کی شادی ہے تو رسم نکاح اسکے بغیر سرانجام نہیں پاتی۔کوئی فوت ہو گیا تو غسل،کفن دفن،نماز جنازہ اور دعا کے لیے سب اسکی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں۔انسان خطا کا پتلا ہے۔عمدا سہوا اس سے خطا سرزد ہوتی رہتی ہے۔لیکن کبھی امام صاحب سے کوئی خطا ہوگئی یا نامناسب کام ہو گیا تو شہر بھر میں ڈھنڈورا پیٹ دیا گیا۔کیا اسکی ساری خوبیاں ایک غلطی کرنے پر حرف غلط کی طرح مٹ جاتی ہیں یا ہم اندھے ہو جاتے ہیں؟

اپنے ملک کے سربراہ کو ہی لیں۔ اچھے طریقے سے ملک کا انتظام چلا رہا ہوتا ہے۔قومی اور بین الاقوامی مسائل حل کرنے میں اپنے تیئں مصروف عمل رہتا ہے۔ترقیاتی منصوبوں کے جال بچھائے جا رہا ہوتاہے۔ دوست ممالک سے تعلقات کو فروغ دے رہا ہوتاہے۔جب تک کوئی غلطی کوتاہی سامنے نہیں آتی ہم اسے عمر ثانی سے تشبیہ دے رہے ہوتے ہیں۔لیکن جونہی اس سے کوئی غلطی ہو گئی یا کوئی غلط پالیسی شروع کر بیٹھااسے بد ترین، بدعنوان، اور ظالم قرار دے کر ہٹلر اور یزید کا خطاب دے دیا جاتا ہے۔ کیا اسکی اتنی صلاحیتیں اور خوبیاں ایک غلط فیصلے تلے دب جاتی ہیں یا ہم اپنے مزاج کے غلام بن جاتے ہیں؟

ایک مصنف قرآن،حدیث،تاریخ اور فقہ وغیرہ کا دن رات مطالعہ کرتاہے اور بڑی عرق ریزی سے مسائل کا استنباط کرکے کتاب تصنیف کرتا ہے۔ کسی جگہ اپنے اجتہاد پر مبنی راٰئے میں خطا وار ہو جاتاہے تو ساری تحقیق کو رد کر دیا جاتاہے۔ یہ من حیث القوم ہمارا مزاج بن چکا ہے۔کیا ایک دو مسائل میں اجتہادانہ خطا واقع ہونے پر اسکی ساری تحقیق اور جدوجہد کو رد کردینا قرین انصاف ہے؟

ایک صوفی توحید اورعشق رسول کا پیامبر، امن کا سفیر، سادگی کا درس دینے والا، مہرومحبت کی خوشبو بکھیرنے والا، اتحاد کا داعی اگر ایک بدعت کا ارتکاب کرتا ہے تو پورے تصوف پر الزام لگایا جاتا ہے۔کیا ایک شخص کی کوتاہی پورے تصوف کو داغدار کردیتی ہے اور نوبت اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ ہم تصوف کا ہی سرے سےانکار کردیں؟

ہر شعبے اور میدان میں مجموعی صورتحال یہی ہے جو حضرت انسان اور ایک مسلمان کے شایان شان نہیں۔ہمیں یہ مزاج بدلنا ہوگا اگر خامیاں ہی تلاش کرنا ہمارا وطیرہ رہا تو ہم کبھی بہتر نہیں ہو سکتے۔کیونکہ جب ہمارا مزاج ہی ایسا ہو گا تو ہر چیز میں ہی نقص نظر آئے گا۔

Mohammad Nadir Waseem
About the Author: Mohammad Nadir Waseem Read More Articles by Mohammad Nadir Waseem: 35 Articles with 128088 views I am student of MS (Hadith and its sciences). Want to become preacher of Islam and defend the allegations against Hadith and Sunnah... View More