تلاش اس کی فضاؤں ميں کر نصيب اپنا از پرندہ ء درویش


تلاش اس کی فضاؤں ميں کر نصيب اپنا
جہان تازہ مری آہ صبح گاہ ميں ہے
مرے کدو کو غنيمت سمجھ کہ بادہ ناب
نہ مدرسے ميں ہے باقی نہ خانقاہ ميں ہے

تلاش اس کی فضاؤں ميں کر نصيب اپنا
جہان تازہ مری آہ صبح گاہ ميں ہے
مرے کدو کو غنيمت سمجھ کہ بادہ ناب
نہ مدرسے ميں ہے باقی نہ خانقاہ ميں ہے

میں نے آج کے اپنے بلاگ کا موضوع حضرت علامہ اقبال رح کے ان اشعار کو لیا ہے۔ اس کی ضرورت کچھ اسطرح سے پیش آیی کہ اس وقت ہمارے نوجوان معاشرہ کو جس موٹیویشن کی ضرورت ہے وہ مرد قلندر اقبال سے بڑھ کر کوئی اور نہیں دے سکتا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اقبال رح جیسے عظیم الہامی شاعر کو چھوڑ کر یوٹیوب پر سیکولر قسم کے اسپیکرز کو اپنا مینٹور اور ہادی بنا لیا ہماری ایک بڑی تعداد غیر مسلم موٹیویشنل اسپیکرز سے متاثر نظر آتی ہے افسوس کا مقام ہے کہ مرد قلندر کو پڑھنےسے ہم کس قدر دور ہیں۔ کاش کہ آپ کی شاعری پر اور فلسفہ پر اتنا کام کیا جاتا کہ اقبال کا حق ادا کیا جا سکتا۔ تاہم کچھ احباب کی محنت انٹرنیشنل اقبال سوساؑٹی، ریختا اور پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسرز کی صورت میں نظر آتی ہے مگر یہ ناکافی ہے۔ دور حاضر کو سامنے رکھتے ہوئے اقبال کے افکار پر کام کرنے کی انتہا کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں جتنا بھی کام کیا جاؑے کم ہے اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے کل مجموعے نو یا دس ہیں جبکہ مختلف زبانوں میں اقبال ؒ پرلکھی جانی والی کتابوں کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اقبال کتنی بڑی ھستی اور نعمت ہیں -

دوستوں ہر انسان کی زندگی میں زوال و عروج ، بلندی و پستی ، خوشی اور غم ساتھ ساتھ چلتے ہیں معاشرہ سے تنگ زدہ افراد جو مسائل کا مقابلہ نہیں کر پاتے اور خود کو بند گلی میں پا کر موت یا خود کشی کا راستہ اختیار کرتے ہیں کہ شاید اب کوئی اور راستہ نہیں بچا۔ آیا وہ صحیح کر رہے ہوتے کیا ؟ یقینا ہم میں سے سب کا ایک جواب کہ نہیں غلط کرتے ایسے جو بھی کرتے ہیں ۔ تو ایک بات کہنا چاہتا ہوں یہاں کہ جن جن افراد نے خودکشی کی ہے کبھی نہ کبھی جب اپنی زندگی میں ان کو کسی خودکشی کا پتہ چلا ہو گا انہوں نے بھی یہی بولا ہو گا کہ ھاں یہ غلط ہے۔ تو پھر ایسا کیا ہوتا کہ ہم جیسا ایک اچھا نارمل انسان اتنا بڑا قدم اٹھا لیتا۔

خود اعتمادی اور حالات سے مقابلہ کرنا ہی اصل جوانمردی ہےیہ میرا ذاتی تجربہ ہے جب بھی آپ کو زندگی مایوسی کے دریا میں ڈوبتی نظر آئے اقبال ؒ کو پڑھنا شروع کر دیں اقبال نے اللہ سے ربط اور خود پر یقین کا جو فلسفہ دیا اسے دینا میں تسلیم کیا جاتا ہے ۔ اقبال نے اپنی قوم کے اندر کے سکوت کو توڑنے کےلیئے ہی کہا کہ کوئی جستجو تو کرے کوئی تلاش کرنے والا تو بنے ھاں اسے نئے جہاں بھی ملیں گے اور ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیں گے۔ اقبال نے فرمایا کہ حالات سے مت گھبراو اے حضرت انسان مخالف ھوائیں تجھے اونچا اڑانے کے لیئے ہیں ۔ دوستوں یقین جانئے آپ اقبالؒ کے فلسفہ خودی کو پڑھنا شروع کریں آپ اپنے اندر کی روحانی طاقت سے آشنا ہونا شروع ہو جائیں گے۔ اقبال نے مال و دنیا کی محبت کو ذلت قرار دیا اور فقرو خودی کو ترجیح دی۔ خودی کے لیئے اطاعت الہی ، ضبط نفس اور نیابت الہی کے مدارج بیان کیے خودی اور خدا کا تعلق بتایا۔ یہ خودی کسی صورت تکبر جیسی نہیں ہے بلکہ یہ خودی اقبال کے فلسفہ حیات کی بنیاد ہے یہ فلسفہ خودی تفسیر ہے من عرف نفسہ کی۔ خود شناسی، نفس شناسی در اصل خدا شناسی کی طرف لے جاتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال کی روحانی و الہامی شاعری نے نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کو متاثر کیا ۔ قومیں اپنے محسنوں کو یاد رکھتی ہیں اجتماعی طور پر ہماری اقبال سے دوری نہ صرف علامہ اقبال کے ساتھ ظلم ہے بلکہ خود اپنے ساتھ بھی۔ ھماری تعلیمی نظام میں اقبال کا ذکر اور افکار کو اس طرح سے اجاگر ہی نہ کیا جا سکا۔آج کے فروسودہ تعلیمی نظام کو دیکھ لیں اقبال کی مدرسہ اور خانقاہ سے بیزاری کی وجہ بھی یہی تھی کہ ان کی اصل روح کہ جس سے قوموں کو فیض مل سکے نہیں رہی۔ افسوس اقبال کو نہ پڑھا گیا اور نہ سمجھا گیاکہ جیسے اقبال کا حق تھا۔ یہ تحریر ان جوانوں کے لیے ہے جو اقبال کو اس کے یوم پیدائش پر صرف چھٹی منانے تک ہی جانتے ہیں مگر اقبال کے حقیقی افکار کو اپنی عملی زندگی میں لے آئیں تو یقینا اُن کی زندگی بدل جائے وہ اقبال کے شاہیں کا عکس دکھائی دینے لگیں اور نظر پاک ہو جائے جس دل سوز کی اقبال کو آرزو تھی وہ پیدا ہو جائے والسلام۔
 

Faisal H. Nathoka
About the Author: Faisal H. Nathoka Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.