بیوی کو حق کون دے گا؟

آج بہت عرصے کے بعد میری ایک دوست سےمیری ملاقات ہوئی۔ اس کی شادی ہوچکی تھی۔تعلیمی دور میں اس کے لئے ایک مناسب رشتہ آیایہ سمجھ کر اس کی تعلیم کو رکوا کر اس کی شادی کر دی گئی تھی۔شادی کے بعد کچھ عرصہ خوشحالی رہنے کے بعد آہستہ آہستہ لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے اور لڑائی کی وجہ یہ تھی کہ تم میرے ماں باپ کا ٹھیک سے دھیان نہیں رکھتی ہواور تم کو سہی سے کھانا پکانا نہیں آتا اس کے سسرالیوں کے بقول کبھی نمک زیادہ ڈال دیتی ہوکھانے میں تو کبھی مرچیں زیادہ ڈال دیتی ہو وغیرہ وغیرہ۔۔میں اس کی زندگی کا حال و احوال و تمام گفتگو سننے کے بعد بس اتنا ہی کہنا چاہتی ہوں کہ یہ بات کہنا بہت آسان ہے کہ اگر تم میرے ماں باپ بہن بھائیوں کی خدمت نہیں کرسکتی تو اپنے گھر چلے جاؤ۔لیکن اگر یہی بات کل کو کوئی آپ کی بہن یا بیٹی کو کہے تو یہ برداشت کرنا بہت زیادہ مشکل ہوتا ہے بس ہم سوچتے نہیں ہیں کسی کو تکلیف دیتے ہوئے کہ وہ تکلیف اگر ہم پر آئے تو ہم اس کو برداشت کر بھی سکتے ہیں یا نہیں۔۔سُسرالیوں کی خدمتیں کرنے پر تو انسانیت یاد آ جاتی ہے لیکن جو سلوک یہ ساس نندیں کسی کی بیٹی سے کرتی ہیں تب انسانیت کہاں ہوتی ہے ... خدمت کرنا واجب نہیں بلکہ نیکی ہے لیکن یہ سُسرال والے تو سب سے پہلا اور افضل حق اپنی خدمت کو کہتے ہیں یہ کیسی انسانیت ہے کہ بیٹے کا بیاہ ہی بیٹے کے لئیے نہیں اپنے فائدے کے لئیے کرنا بیٹے بھائی پر بھی صرف اپنا حق سمجھنا اور جس لڑکی سے بیٹے کا نکاح ہوا اس پر بھی اپنا ہی حق جتانا ... خدمت بھی شریعت میں فرض نہیں لیکن پھر بھی یہ لوگ رعب سے کام لیتے ہیں اور باتیں بھی سُنا دینی اور بے شرمی کا تو یہ حال کہ اگر آگے بیٹے/بھائی کی منکوحہ تنگ آکر جواب دے تو بدتمیز , گلہ کرے تو صبر برداشت کی نصیحتیں ... شادی کے بعد کی زندگی اتنی مشکل ہوتی نہیں جتنی یہ ساس نندوں اور سُسرالیوں کی دخل اندازیوں اور مکاریوں کی وجہ سے لڑکی کو بوجھ لگنے لگتی ہے .. ساتھ رہ کر شوہر کے گھر والوں کا احساس کرتے ہوئے خدمت کرو تو اس نیکی کا صلہ میاں بیوی دونوں کو مہنگا پڑتا ہے لڑکی اپنی زندگی سے اکتا جاتی ہے شوہر کے ساتھ اچھی زندگی گزارنے کے خواب لے کر آنے والی خود اپنی شادی شدہ زندگی سے ہی بیزار ہو جاتی ہے , اور اگر تنگ آ کر الگ ہونے کامطالبہ کرے تو یہ بھی سُسرالیوں کو برداشت نہیں حلانکہ یہ حق ہمارے مذہب نے اور شریعت نے عورت کو دیا ہے .. اور آخر میں سُسرال والوں اور شوہر حضرات کے لئیے پیغام , بیٹے پر صرف ماں باپ بہن بھائی کے حقوق نہیں جب بیٹے کی شادی ہوتی ہے تو بیوی کے بھی حقوق ہوتے ہیں اور یہ حقوق صرف کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے یا رہائش دینے جیسی ضروریات پورا کرنے سے ادا نہیں ہو جاتے یہ سب لڑکی کو اپنے والدین کے گھر زیادہ عزت اور لاڈ پیار سے میسر ہوتا ہے ... اور نہ بچے پیدا کر کےنسل بڑھانے کا نام شادی ہے یہ تو جانور بھی کرتے ہیں .. اسلام نے جو حقوق عورت کو ئیے براہ مہربانی شادی سے پہلے ان کا علم لے لیجئیے اور یہ علم سُسرال والے بھی لے لیں تو زیادہ بہتر ہے ایسی کوئی حدیث نہیں جس میں بیٹے یا بھائی کی منکوحہ پر سُسرالیوں کے حقوق ہوں یا خدمتیں واجب ہوں اس لئیے بیٹا بیاہیں نا کہ شادی کی آڑ میں ایک تیر سے دو شکار کرنے کے چکر میں پڑیں کہ بیٹے کی شادی بھی ہو جائے گی اور ہمیں ایک عدد مفت کی نوکرانی بھی مل جائے گی ... لڑکی انسانیت کے ناطے خدمت کرتی ہے تو خود بھی انسان بن کر دکھائیں اور اگر یہ نہیں کر سکتے تو اپنے بھائی بیٹے کی شادی بھی نہ کریں ایسا مرد چُپ کر کے اپنا کمائے ساری کمائی گھر والوں کے ہاتھوں پر رکھے.اور کسی کی لڑکی کی زندگی برباد کرنے سے اچھا ہے ایسے ہی زندگی گزارے۔
 

Ayesha Gulzar Malik
About the Author: Ayesha Gulzar Malik Read More Articles by Ayesha Gulzar Malik: 12 Articles with 31836 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.