جشنِ اپاہج آزادی مبارک ہو!

جشنِ اپاہج آزادی مبارک ہو!

کسی چیز کی حقیقت اور قدر وقیمت کو خالق سے زیادہ بہتر کون جان سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آزادی اور غلامی کو خوبصورت مثالوں سے سمجھایا ہے کہ ایک غلام اور آزاد، باوجود اس کے کہ دونوں انسان ہیں، دونوں الله کی مخلوق ہیں اور بھی بہت سی چیزیں دونوں کے درمیان مشترک ہیں، لیکن رتبہ و شرف اور فضل میں تم دونوں کو برابر نہیں سمجھتے تو پھر اللہ تعالیٰ اور پتھر کی ایک مورتی (بت) کیسے برابر ہوسکتے ہیں؟
بات کو مزید واضح کرتے ہوئے دوسری مثال میں ارشاد فرمایا:
"اور اللہ ایک اور مثال دیتا ہے کہ دو آدمی ہیں ان میں سے ایک گونگا ہے جو کوئی کام نہیں کرسکتا، اور اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے، وہ اسے جہاں کہیں بھیجتا ہے، وہ کوئی ڈھنگ کا کام کر کے نہیں لاتا، کیا ایسا شخص اس دوسرے آدمی کے برابر ہوسکتا ہے جو دوسروں کو بھی اعتدال کا حکم دیتا ہے اور خود بھی صراطِ مستقیم پر قائم ہے؟"
سورہ النحل آیت نمبر 75/76
14 اگست1947 کو ملک پاکستان لاکھوں گوناگوں قربانیوں کی بدولت اس دھرتی پر وجود میں آیا اور جغرافیائی اعتبار سے تقریبا آزاد بھی ہوا، اس میں شک نہیں کہ یہ بجائے خود ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ آج ہم ہندوستان کے مسلمانوں کی نسبت بہت آزاد ہیں۔ ہم اب اقلیت نہیں بلکہ اکثریت بن چکے ہیں۔ ہماری اپنی ایک شناخت اور اپنا ایک ملک ہے جسے دنیا پاکستان جیسے پیارے نام سے جانتی ہے۔ بلاشبہ اس نعمت پر الله تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ زندہ قومیں کبھی بھی اپنی آزادی کو نہیں بھول سکتیں یہی وجہ ہے کہ ہم ہر سال بطورِ شکر کے چودہ اگست کے دن کو یومِ آزادی کے طور پر مناتے ہیں تاکہ ہمارا شمار مردہ دل قوموں میں نہ ہو۔ لیکن شکر کی اس صورت کو کافی قرار نہیں دیا جا سکتا تا وقتیکہ ہمارے بزرگوں نے جس پاکستان کے لئے قربانی دی تھی اس پاکستان کو بنانے میں ہم میں سے ہر ایک اپنا کردار ادا نہ کرے۔
اور یہ ذمہ داری ہر اس پاکستانی کی ہے جو خود کو محبِ وطن کہتا ہے۔
ہمارے بزرگوں کا مقصد فقط ایک خطہ کا حصول نہیں تھا بلکہ ان کا مقصد زمین کا ایک ایسا ٹکڑا حاصل کرنا تھا جہاں وہ لوگ خود اور اُن کی آنے والی نسلیں کِسی بھی اندرونی دباؤ کے بغیر ، کسی خلفشار اور منافقت کے بغیر، اور بیرونی دباؤ کو بھی خوب اچھی طرح سے رد کرتے ہوئے ، کلمہ طیبہ کے مُطابق اپنی زندگیاں بسر کر سکیں۔ اور توحید کے اس پاکیزہ کلمہ کے تمام تر تقاضوں پر بھرپور طریقے سے عمل کر سکیں۔
ان کی تمنا اور ان کا ھدف ایک اِسلامی ریاست تھی،
نہ کہ فقط مُسلم ریاست!
اللہ تعالیٰ نے ہمارے اسلاف کی قربانیوں کی بدولت اور ان کی امنگوں کے عینِ مطابق ہمیں جغرافیائی اعتبار سے آزاد کر کے ایسا ماحول عطاء فرمایا کہ جس میں ہم آزادی کی نعمت سے فائدہ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی شریعت کو نافذ کرسکتے تھے لیکن افسوس کہ ہماری نالائقی کی وجہ سے مکمل ساز گار ماحول میں بھی یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ ہم نے بحیثیت قوم اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اس خطہ ارض کی کما حقہ قدر ہی نہیں کی، ہم آج تک خود کو آزادی نہیں دلاسکے سود اور حرام سے، ظلم، قتل اور غارتگری سے۔ ڈھاکے اور فراڈ سے۔ جھوٹ اور دھوکہ سے۔ کرپشن اور چوری سے۔ خیانت اور بد دیانتی سے۔ سیاسی افراتفری اور اضطراب سے۔ ظلم اور لاقانونیت سے۔ ہندوانہ رسومات اور انڈین فلموں سے۔ باہمی اعتماد کے فقدان سے۔ ایک دوسرے کی ہتکِ عزت اور بے توقیری سے۔ بےحیائی اور عریانی سے۔ گالم گلوچ اور لعن طعن سے۔ باہمی تصادم اور محاذ آرائی سے۔ غربت اور معاشی عدمِ استحکام سے۔ مےنوشوں اور مےخانوں سے۔ طوائفوں اور قحبہ خانوں سے۔ جہالت کے اندھیروں اور کرسی اورسیاست کی جنگ سے۔ 72 سال سے پاکستان کی حاکمیت کی کرسی ایک تجربہ گاہ کا کردار ادا کرتے آئی ہے لیکن اقتدار کی ایکسپیرینس کسی ڈکٹیر کی ہوئی نہ منتخب حاکم کی، سوائے چوری، خیانت اور منافقت میں۔ ایک دو کو چھوڑ کر جو بھی آیا تجوریاں بھر کر لوٹتا چلا گیا۔ لوگوں کی آبرو اور عزتیں محفوظ نہیں۔ غریب کو انصاف نہیں ملتا۔ سودی نظام رائج ہے اور کفار کے وفادار ملک پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔
آج اگر پاکستان آزاد ہے توصرف اور صرف امن وامان سے۔ رحم اور کرم سے۔ عفو، ودرگزر سے۔ شفافیت اور قانون کی بالادستی سے۔ ہمدردی اور غم خواری سے۔ دکھیوں کی فریادرسی سے۔ غریب کو انصاف دینے سے۔ اور سب سے بڑھ کر جس کے لئے یہ وجود میں آیا تھا یعنی قرآن وسنت کے نفاذ سے۔ ہمارے اربابِ اختیار کو داخلہ اور خارجہ پالیسی بنانے سے پہلے دوسروں سے پوچھنا پڑتا ہے۔ مقتدرہ کسی مجرم کو سزا تک دینے میں خود مختار نہیں۔ ہمارے بزرگ پاکستان بننے کے بعد اسے اوج ثریا پر پہنچانے کا سوچ رہے تھے اور آج ہم اسے قعرِ مذلت سے نکالنے کا سوچ رہے ہیں۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ ریاست مدینہ یا جناح کا پاکستان تو دور کی بات، چند سال پہلے والا پرانا پاکستان بھی ہاتھوں سے نکلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
پاکستان کو آزاد ہوئے بہتر سال ہو چکے لیکن اہلِ پاکستان ابھی تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ عوام اربابِ اقتدار کی غلامی میں قید ہیں اور اربابِ اقتدار نظر نہ آنے والی مخلوق کے اسیر ہیں۔ جس دن اہلِ پاکستان غلامی کی جملہ بیڑیوں سے نکلنے کے ساتھ ساتھ اخلاقی پستی سے نکل کر رذائل سے آزاد اور فضائل سے آراستہ ہوجائیں گے وہ دن حقیقت میں ذہنی اور فکری غلامی کی زنجیروں سے آزادی کا دن ہو گا... نہ صبح نمناک ہوگی نہ شام سوگوار ہوگی۔
فی الحال یہ اپاہج آزادی مبارک ہو!
 

Mufti Abdul Wahab
About the Author: Mufti Abdul Wahab Read More Articles by Mufti Abdul Wahab: 42 Articles with 40683 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.