للن سنگھ اور کلن خاں جس عمارت کی چوکیداری کرتے تھے اسی
میں جمن شیخ بھی رہتے تھے ۔ ان کے دونوں سے بڑے اچھے مراسم تھے ۔جمن کا
معمول تھا کہ قربانی کے بعد جب تک آخری بوٹی گھر نہ بھجواتے قدم نہ ہٹاتے
۔ بکرے کٹ چکے تھے کھال کھینچی جارہی تھی ۔
جمن کے پوتے چھٹن نے دیکھا کہ دادا جان کمزوری محسوس کررہے ہیں تو پوچھا
کرسی لاوں ۔
انہوں نے ہاں کہا تو دوسرا مشورہ دے دیا یہاں لانے کے بجائے داداجان آپ
چوکیدار کے کیبن میں بیٹھیں آج دھوپ بہت ہے ۔
جمن بادلِ ناخواستہ کیبن میں پہنچے تو دونوں ندارد تھے۔ کرسی پر بیٹھے تو
دیکھا اس ایک طرف کا ہینڈل ٹوٹا ہوا تھا ۔ جمن کو بڑا افسوس ہوا کہ آج تک
انہیں اس کسمپرسی کا احساس کیوں نہیں ہوا؟ شاید اس لیے کہ ہمیشہ للن یا کلن
کے پیچھے چھپی رہتی تھی ۔ انہوں نے سوچا نہ جانے کب سے یہ اس حالت میں ہے؟
ہینڈل کے ٹوٹنے کی وجہ معلوم کرنےکے لیے کمرے کا جائزہ لیا تو پتہ چلا فرش
کی سطح اسی جانب ڈھلان میں ہے جس طرف کا ہتھا ٹوٹا ہوا ہے۔ وہ فکر مند
ہوگئے اور سوچنے لگے کہ یہ کرسی پھسل کر گرگئی ہوگی جس سے ہینڈل ٹوٹ
گیا۔جمن میاں سوچ رہے تھے کہیں للن یا کلن کا ہاتھ تو نہیں ٹوٹ گیا بلکہ
ہوسکتا ہے سر بھی پھٹ گیا ہو۔ اب انہیں دونوں کے غائب ہونے کی وجہ سمجھ میں
آگئی اور یقین ہوگیا کہ انہیں میں سے کوئی اپنے زخمی ساتھی کو اسپتال لے
کر گیا ہوگا۔ ویسے بھی بلڈنگ میں رہنے والوں کوان غریبوں سے کب ہمدردی ہے؟
اس دوران چھٹن اپنے دوستوں کے ساتھ گوشت لے آیا اور اپنےدل پر ایک احساس
جرم لیے جمن میاں اپنے گھر میں آئے۔ گیلری میں پڑی ایک پرانی بے مصرف کرسی
چھٹن کے ہاتھ نیچے واچ مین کے کمرے میں بھجوادی۔ تھوڑی ہی دیر میں گھر کی
گھنٹی بجی تو انہیں تعجب ہوا کہ بدمعاش چھٹن اتنی جلدی کیسے لوٹ آیا؟ وہ
تو نیچے کھیلنے جانے کا بہانہ تلاش کرتا رہتا تھا اور جب تک ڈ انٹ کر بلایا
نہ جائے واپس نہ آتا۔
دروازہ کھولا تو سامنے للن کھڑا تھا ۔ جمن نے فوراً سوال کیا تم اسپتال سے
آرہے ہو؟
للن بولا نہیں میں تو آپ لوگوں کے لیےادرک دھنیا لانے گیا تھا ۔ جلدی
لیجیے نیچے کیبن میں کوئی نہیں ہے۔ لوگ ناراض ہوتے ہیں ۔
اس کی التجا کو نظر انداز کرتے ہوئے جمن نے کہا اچھا یہ بتاو کلن کا کیا
حال ہے؟
وہ کمرے میں پڑا مست سورہا ہے۔ رات ڈیوٹی پر بھی سوتا ہے اور دن میں بھی
آرام کرتا ہے۔
جمن نے پوچھا اور جب تمہاری رات کی ڈیوٹی ہوتی ہے تو تم کیا کرتے ہو؟
میں بھی دن میں سوتا ہوں لیکن کھانا بھی بناتا ہوں ۔
اچھا ! کیا وہ کھانا نہیں بناتا ؟
للن بولا کھانا نہیں بنائے گا تو کھائے گا کیا؟ یہ پکڑئیے آپ کی ادرک مجھے
دیر ہورہی ہے۔ یہ کہہ کر للن رفو چکر ہوگیا ۔
جمن اپنے صوفے پر بیٹھ کر سوچنے لگے یہ کیا ؟ کرسی گری ہینڈل ٹوٹا مگر ان
دونوں کو کچھ بھی نہیں ہوا ؟ اس کے بعد جمن کا معمول ہوگیا تھا کہ وہ آتے
جاتے کرسی اور اس کے ہینڈل کو دیکھ کر یک گونہ سکون پاتےلیکن یہ سلسلہ دراز
نہیں ہوسکا ۔ دودن بعد دیکھا تو کرسی کا ہتھا اسی جانب سے دوبارہ ٹوٹا ہوا
تھا ۔ ان کا خودکار دماغ اپنے آپ چل پڑا۔ انہوں نے سوچا یہ ضرور بچوں کی
شرارت ہے جو للن اور کلن کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا کر کرسی توڑ دیتے
ہیں۔ وہ سمجھ گئے ان کا پوتا چھٹن اس فتنہ پروری میں ضرور شامل ہوگا ۔
جمن میاں نےچھٹن کو بلا کر پوچھا کیوں ! تم لوگوں نے پھر سے کرسی توڑ دی؟
چھٹن بولا کرسی!کس کرسی کی بات کررہے ہیں آپ؟
جمن میاں نے کہا بہت بھولے نہ بنو۔ پہلے بھی تم لوگ یہ کرچکے ہو ۔ میں سب
جانتا ہوں ۔ سچ بتاو کس کی یہ حرکت ہے؟ اور تمہارا کیا کردا ر ہے؟
ننھے چھٹن کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا اس نے پھر سوال کیا آپ کس
کرسی۰۰۰۰۰۰۰
جمن میاں بیچ میں بول پڑے وہی چوکیدار کی کرسی اور کون سی ؟
چھٹن نے دماغ پر زور دےکر کہا میں تو آپ کہنے پراپنے گھر کی کرسی ان کے
کمرے میں رکھ آیا تھا۔ اس کے بعد کیا ہوا مجھے نہیں معلوم؟
کیسے نہیں معلوم ؟ سچ سچ بتاو اس کا ہینڈل کس نے توڑا؟
ہم لوگ تو پیچھے میدان میں کھیلتے ہیں۔ واچ مین کے قریب بھی نہیں پھٹکتے ۔
چھٹن کی روہانسی معصومیت سے جمن میاں کا دل پسیج گیا ۔
وہ بولے جاو کھیلو۔ بس پھر کیا تھا چھٹن تو جیسے جیل سے رہا ہوگیا۔
جمن میاں کے سامنے اب نیا سوال تھا ۔ وہ پھر سے کرسی پر غور کرنے لگے تھے ۔
طرح طرح کے اٹکلیں لگائی جارہی تھیں ۔ بالآخر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ
کوئی بدروح کرسی کاہتھا توڑ دیتی ہے۔ اب انہیں ایک نیا اندیشہ لاحق ہوگیا
کہ اگر وہ بھوت ان سے لپٹ جائے تو کیا ہوگا ؟
دو چاردن اسی خوف کے عالم میں گزر گئے پھر ایک شام میں لوٹتے ہوئے بے ساختہ
وہ کیبن کے پاس چلے گئے ۔ وہاں کلن براجمان تھا ۔
جمن نے سوال کیا کیوں بھائی کلن ڈیوٹی بدل گئی؟ اب تم رات میں اور للن دن
میں ؟
جی ہاں سر ، کلن بولا یہ پریورتن تو ہر ہفتہ ہوجاتا ہے۔
بہت خوب ۔ یہ معاملہ تو بدل جاتا ہے لیکن تمہاری ٹوٹی کرسی کبھی نہیں
بدلتی۔
کلن نے دانت نکال دیئے اور بولا کیا کریں سرکار غریب آدمی ہیں ۔
جمن نے بات کاٹ کر کہا غریب نہیں سست؟
کلن چونک پڑا ۔ وہ بولا صاحب ہم نے کون سی کاہلی دکھائی ۔ آپ کے اشارے پر
بجلی کی طرح دوڑ جاتے ہیں پھر بھی آپ ۰۰۰۰۰
جی ہاں وہ تو میں جانتا ہوں لیکن تم اپنا فرش ٹھیک نہیں کراتے۔ اس کو اگر
مسطح کردو نہ کرسی گرے اور نہ ٹوٹے ۔ اس سے تم زخمی بھی تو ہوسکتے ہو؟
کلن نے نیچے دیکھ کر کہا صاحب تھوڑی سے ڈھلان تو ہے مگر اس سے نہ کرسی
گرسکتی ہے اور نہ ہم پھسل سکتے ہیں۔
اچھا اگر تم لوگ ان بچوں کو بھی کرسی توڑنے سے روک نہیں سکتے تو چوکیداری
کیا کروگے؟
کلن بولا ارے صاحب بچوں کی کیا مجال کہ ہمارے کیبن کے قریب پھٹکیں۔
کیوں تم لوگ انہیں ڈانٹتے ڈپٹتے ہو کیا؟
جی نہیں صاحب ان لوگوں کو یہاں آنے میں نہ دلچسپی ہے نہ فرصت ۔ وہ سامنے
میدان میں کھیلتے رہتے ہیں۔
اچھا تو پھر تمہاری کرسی کا ہتھا کیسے ٹوٹ جاتا ہے؟ اس سوال پر کلن کھسیانہ
ہوگیا۔ وہ بولا میں کمرے جاکر للن کو بھیجتا ہوں وہ آپ کو بتائے گا۔
دومنٹ میں للن آگیا تو جمن میاں نے پھر سے اپنا سوال دوہرادیا۔ کرسی کا
ہنڈل کیسے ٹوٹا؟
للن بولا سر ایسا ہے کہ رات میں ہتھے کے سبب ہم لوگ دیوار کے ساتھ سر ٹیک
کر سو نہیں سکتےاس لیے کلن اسے توڑ دیتا ہے۔
اچھا تو تم لوگ رات میں ڈیوٹی پر سوجاتے ہو؟
للن بولا کیا کریں سرکار ۔ رات گیارہ بجے تک موبائل پر فلم دیکھتے ہیں۔ اس
کے بعد کوئی کام نہیں ہوتا تو سوجاتے ہیں ؟یہاں کون چور ڈکیت آتے ہیں؟
جمن میاں نے کہا اتنی سی بات ہے اور میں تو نہ جانے کیوں کیا کیا سوچ رہا
تھا ؟
للن بولا سر برا نہ مانیں تو ایک چھوٹا منہ بڑی بات کہوں ؟
بولو بولو کیا کہنے چاہتے ہو؟
مجھے پتہ ہے کہ آپ بہت کچھ کیوں سوچ لیتے ہیں؟
اچھا تمہیں پتہ ہے جمن نے حیرت سے کہا۔ تو بتاو ۔
للن بولا سر وہ جو آپ ہر چیز کا سرا یہودیوں اور اسرائیل سے جوڑ دیتے ۔
بات بات میں یاجوج ماجوج کو لے آتے ہیں ۔ ہر جگہ آپ کو آر ایس ایس کی
سازش دکھائی دیتی ہے ۔
تم کیا کہہ رہے سمجھ میں نہیں آیا؟
یہی کہ پچھلے سال دیونار میں بکرے زیادہ ہوگئے اور واپس لے جانے پڑے تو آپ
نے اسے سنگھ کی سازش قرار دے دیا تھا ۔
ارے تمہاری یادداشت تو بہت اچھی ہے لیکن بعد میں میری سمجھ میں آگیا کہ وہ
رسد و کھپت کا توازن بگڑنے کا نتیجہ تھا
اور اس سال بھی آپ نے پہلے چرم قربانی کی قیمتوں میں کمی کو بی جے پی
سرکار سے جوڑ دیا ۔
ہاں لیکن جب مجھے پتہ چلا کہ یہ برآمداتی بازار میں مندی کے سبب ہورہا ہے
تو میں نے رائے بدل دی ۔
جی ہاں اور آپ نےعالمی بازار پر یہودیوں کے قبضے کو اس مندی کے لیے ذمہ
دار ٹھہرادیا۔
ہاں ہاں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
اس سے ہماری سمجھ میں آتا ہے کہ آپ بھی اونچی سوچ اور اونچی پسند والے
اونچے انسان ہیں۔این آر سی کی طرح عید میں بھی آپ کو سازش نظر آجاتی ہے۔
جمن میاں نے سر کھجا کر اعتراف کیا یہ چھوٹا منہ بڑی بات نہیں ۔ بڑا دماغ
اور اونچی بات ہے۔
|