اتوار 4اگست کو بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی پوری
آبادی کو نظر بند کر دیا۔ سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبد اﷲ اور محبوبہ مفتی کو
ان کے گھروں میں نظر بند کیا گیا۔ انٹر نیٹ ، موبائل، ٹیلیفون، کیبل سمیت
ہر قسم کے مواصلاتی رابطے منقطع کر دیئے گئے۔ پیر سبح 4بجے کے بعد میرے
مقبوضہ کشمیر میں عزیز و اقارب سے کوئی رابطہ نہیں۔ چند صحافی جو سرینگر سے
دہلی پہنچے میں کامیابی ہو سکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر اپنی پانچ ہزار
سالہ تاریخ کے ایک تاریک دور سے گزر رہا ہے۔ ہر گھر کے سامنے بھارتی فوجی
پہرہ دے رہا ہے۔ سخت کرفیو نافذ ہے جسے حکام کرفیو کے بجائے دفعہ 144کا نام
دے رہے ہیں۔ 4اگست سے آج 10اگست تک کرفیو نافذہے۔ تما کاروبار زندگی تو
معطل ہے ہی، بچوں کو دودھ تک میسر نہیں۔ کئی علاقوں میں نوجوانوں نے کرفیو
توڑ کر قابض فورسز پر پتھراؤ کیا۔ جن پر اندھا دھند گولیاں چلائی گئیں۔
سیکڑوں کشمیری ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ پیلٹ فائرنگ سے سیکڑوں کشمیریوں
کی آنکھیں اور سر ، چہرے متاثر ہیں۔ مگر ہسپتالوں میں ادویات موجود نہیں۔
سخت پابندیوں کے وجہ سے ایمرجنسی سروسز کو بھی کام کرنے سے روکا جا رہا ہے۔
کرفیوں پاس جاری کئے گئے ہیں لیکن فوجی ان کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے
ہیں۔ بھارتی اخباروں کے ساتھ منسلک کشمیری صحافیوں نے 4اگست کو اپنی آخری
رپورٹ ارسال کی تھی۔ اس کے بعدان میں سے چند نے دہلی پہنچ کر 9 آنکھوں
دیکھا حال بیانکیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت نے منصوبہ بندی سے پہلے
آزادی پسند قائدین کو گرگرفتار کیا۔ اس کے بعد بھارت نواز حراست میں لئے
گئے۔ سیکڑوں افراد کو جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ جب بھارتی
پارلیمنٹ میں آرٹیکل 370ختم کرنے کے بل پر بحث ہو رہی تھی، ڈاکٹر فاروق عبد
اﷲ کو دہلی میں نظر بند رکھا گیا۔ آج ہر کشمیری ایک بے بسی کی تصویر بنا
ہوا ہے۔ اسی بے بسی نے گزشتہ چار روز سے شدید بخار میں مبتلا کر رکھا ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کی اپنی شناخت تھی۔ نام نہاد الحاق بھی مشروط تھا۔
بھارت نے فوج داخل کر کے ریاست پر قبضہ جمایا۔ شیخ عبد اﷲ سے بندوق کی نوک
پر اور کرسی کی لالچ دے کر الحاق کو منوایا گیا۔ بارگیننگ یہ ہوئی کہ ریاست
پر بھارت کا آئین نافذنہیں ہو گا۔ مواصلات، خارجہ اموراور دفاع بھارت کی
ذمہ داری ہوگی۔ ریاست نیم خود مختار ملک بنے گی۔ چند برس تک بھارت نے اس
فارمولے پر عمل کیا۔ مقبوضہ کشمیر کا اپنا پرچم، صدر اور وزیراعظم تھا۔ مگر
جب بھارت کو شیخ عبداﷲ کے متبادل مزید زر خرید مل گئے تو صدر اور وزیراعظم
کی جگہ گورنر اور وزیراعلیٰ نے لے لی۔ فاروق عبد اﷲ کی نیشنل کانفرنس آج تک
کشمیری عوام کو بہکاتی رہی کہ وہ اٹانومی کے جنگ لڑ رہی ہے۔ جب کہ محبوبہ
مفتی کی پی ڈی پی نے عوام کو دھوکا دیا کہ وہ سیلف رول کی جدوجہد کر رہی ہے۔
ان بہکاووں اور دھوکوں سے عبداﷲ اور مفتی خاندان مقبوضہ ریاست پر تسلط قائم
کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ مل کر انتخابات میں بدترین
دھاندلیاں کیں۔ بھارت کے مہرے بنے رہے۔ اپنے اقتدار اور مفادات پر کشمیری
عوام کے مفادات کو قربان کر دیا۔ بھارت نے کشمیری کا قتل عام کیا۔ نسل کشی
کی۔ ہزاروں کو جیلوں میں ڈال دیا۔ مظالم کئے۔ خواتین کی عزتیں پامال کیں۔
سیکروں گھر اور بازار جلا دیئے۔ کھیت جلا دیئے۔ میوہ دار درخت کاٹ دیئے۔
نوجوانوں کے فورسز نے ہاتھ پاؤں کاٹے۔ اس سب میں عبد اﷲ اور مفتی فیملی
بھارت کے ساتھ شریک ہی نہیں بلکہ سرپرست رہی۔ آج جب زندگی میں پہلی بار عمر
عبد اﷲ اور محبوبہ مفتی گھر میں علامتی طور پر نظر بند ہوئے تو اب ان کا
کہنا ہے کہ پاکستان پر بھارت کو ترجیح دے کر بڑی بھول کی۔ کشمیریوں نے کبھی
بھی پاکستان پر بھارت کو ترجیح نہیں دی۔ ورنہ نہتے کشمیری یوں گزشتہ 30سال
سے سینے تان کر گولیاں نہ کھا رہے ہوتے۔
کشمیریوں کی جدوجہد آزادی اور اتنی قربانیوں نے بعد اگر ان کی موجودہ حیثیت
بھی ختم کر دی جائے۔ بجائے آزادی اور مزید حقوق کے ان سے شہریت کا حق بھی
چھین لیا جائے تو ان کا ردعمل کیا ہو گا۔ کب تک بھارت کشمیریوں کو کرفیو
اور دہشتگرد فوج سے خوفزدہ کر سکے گا۔ بعض میڈیا نمائیندگان کا کہنا ہے کہ
بھارتی فوج میں آر ایس ایس کے دہشتگردوں کو بھرتی کر کے کشمیر میں داخل کر
دیا گیا ہے تا کہ وہ سرکاری سرپرستی میں آزادی سے قتل عام اور مظالم ڈھا
سکیں۔ بھارت کے مظالم کے آگے جیسے پوری دنیا بے بس ہے۔ کریک ڈاوئن اور
پابندیوں کی وجہ سے غذائی اجناس، بچوں کے دودھ ، ادویات کی قلت پیدا ہو گئی
ہے لیکن انٹرنیشنل ریڈ کراس، ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز جیسے رضاکار اس جاب
متوجہ نہیں۔ بھارت مسلسل کشمیر کی جنگ بندی لائن پر گولہ باری کر رہا ہے ،
آزادی کشمیر کی شہری آبادی کو نشانہ بنا رہا ہے، اقوام متحدہ کے فوجی
مبصرین سیکریٹری جنرل کو آگاہ کر رہے ہیں، مگر ابھی تک سلامتی کونسل کا
اجلاس طلب نہیں کیا جاسکا۔ اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل نہ کراسکا۔
جیسے پوری دنیا بھارت سے خوفزدہ ہے۔ اپنے مفادات کے لئے مظلوم عوام کا قتل
عام ہوتے دیکھ رہی ہے۔ نریندر مودی نے ریاست کو تقسیم کر دیا۔ لداخ کو وہ
جموں و کشمیر سے بالکل کاٹ دینا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد جموں کو مقبوضہ کشمیر
سے کاٹنے کا پروگرام ہو گا۔ پھر وادی کشمیر، وادی چناب اور پیر پنچال کو
غزہ کی پٹی بنا دیا جائے گا۔ اس منصوبہ بندی کا بھارتی حکمران خود اعلان کر
چکے ہیں۔ ان کالموں میں بھی گزشتہ کئی برسوں سے خبردار کیا گیا۔ مگر یہاں
اتفاق رائے اور متفقہ پالیسی تشکیل دینے کے بجائے آپسی کشیدگی پیدا کی جا
رہی ہے ۔ قوم کو پارٹیوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کا بھارت
نے جغرافیہ بدل دیا۔ جس طرح گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے، اسی طرح لداخ
بھی کشمیر کا حصہ ہے۔ کیا یہ سب امریکی ثالثی کے لئے ماحول سازگار بنایا جا
رہاہے۔اس کے بعد جنگ بندی لکیر کو انٹرنیشنل بارڈ قرار دے کر مسلہ کشمیر کا
مستقل حل مسلط کر دیا جائے۔ ہمارے تعلیم یافتہ دوستپہلے ہی جنگ بندی لائن
کو لائن آف کنٹرول قرار دے چکے ہیں۔
|