فنا اور بقا

ارشاد باری تعالیٰ ہے (ترجمہ) ”جو کوئی ہے زمین پر فنا ہونے والا ہے اور باقی رہے گا تیرا رب بزرگی والا اور عظمت والا“(الرحمٰن پ:۷۲) ان آیات میں اس حقیقت پر مطلع کیا گیا ہے کہ سوائے ذات باری تعالی ٰ کے ہر چیز نے بلاخر معدوم ہو جانا ہے، فنا ہو جانا ہے اور باقی رہنے والی ذات صرف اسی کی ہے وہ ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا۔ پیش نظر مضمون میں فنا کا اس حیثیت سے جائزہ لیا گیا ہے کہ کوئی چیز چاہے وہ جان دا ر ہے یا بے جان جب تک مقام ”فنا “ سے نہ گزرے اپنے مقصد حیات کو نہیں پا سکتی،دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ ہر چیز فنا ہوکر ہی امر بنتی ہے اور اپنے وجود کو دائمی حیات سے ہمکنار کرتی ہے ۔ اسکی مثالیں ہم روزمرہ زندگی میں دیکھتے ہیں مثلاً گندم کی فصل جب پک کر تیار ہوجاتی ہے تو اسے کاٹا جاتا ہے یہ اسکی فنا کا پہلا مقام ہے کہ فصل کا وجود ختم ہوا اب اس سے دانے نکالے جائیں گے، پھر انہیں چکی میں پیسا جائے گا پھر اس آٹے سے روٹی تیار ہوگی اور انسان اس کو کھائے گا جب روٹی پیٹ میں جائے گی اور گندم کا وجود ختم ہوجائے گا تو بھوک مٹے گی، اسی طرح پانی کی مثال ہے کہ جب تک پانی گلاس میں ہے اور اسکا وجود برقرار ہے تو صرف اسے دیکھتے رہنے سے ہی پیاس نہیں بجھتی ، جب پانی پیٹ میں جائے گا اور اسکی ہستی ختم ہو گی تو پیاس مٹے گی علیٰ ہٰذاالقیاس کھانے پینے کی تما م اشیاء کی یہی مثال ہے۔

اسی طرح درخت جب تک زمین میں لہلہا رہا ہے اسکا وجود بے فائدہ ہے جب تک اسے آرے سے کاٹا نہ جائے پھر اسکے مختلف ٹکڑے بنا کر اسے جلانے کے کام لایا جائے یا اسکا فرنیچر تیار کیا جائے۔ جب وہ جلے گا تو حرارت پہنچے گی اور جب اسکا فرنیچر تیار کیا جائے گا تو و ہ درخت نہیں رہے گا بلکہ اسے فرنیچر کہا جائے گا۔ اسی طرح کپڑا جب تک تھان کی شکل میں لپٹا دکاندار کی الماری میں سجا ہے بے کار ہے جب تک درزی اسے قینچی سے کاٹ کر اور سلائی کے مراحل سے گزار کر اس کا لباس تیار نہ کر لے وہ لباس جب پہننے والے کے بدن کی زینت بنے گا تو فائدہ مند ہو گا۔اسی طرح شمع کی مثال ہے شمع جب جلے گی تو روشنی ہوگی اگر شمع جلنے سے انکار کر دے تو روشنی ہو نہیں سکتی ،روشنی دینے کیلئے شمع کو جلنا ہی پڑتا ہے۔

فنا کا فلسفہ یہی ہے کہ اس کے بغیر بقا حاصل ہو نہیں سکتی یعنی یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی چیز”مقام فنا“ سے نہ گزرے او ر امر ہو جائے اور اپنے مقصد حیات کو پا لے۔ اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے اور باعث تخلیق کائنات! اسے بھی ایک خاص مقصد یعنی عبادت خداوندی کیلئے پیدا کیا گیا ہے جو قرآن پاک کی آیات اور اسوئہ رسول اکرمﷺ کی روشنی میں واضح ہے اور اس مقصد کو اس وقت تک حاصل نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ خود کو اس کا م میں فنا نہ کیا جائے اور مراد اس سے اپنی تمام صلاحیتوں اور اپنی مرضی کو مولائے کائنات کی مرضی میں ختم کر دینا ہے، جسکی عملی صورت شرعی احکامات کی بجاآوری میں اپنی جان کو کھپانا اور نفس امارہ کے خلاف جہاد کرنا ہے۔

اس کی بہترین مثال شارع علیہ الصلوة والسلام کا اسوئہ حسنہ اور آپکا مبارک طرز عمل ہے۔آپ ﷺ نے اللہ تبار ک و تعالیٰ کے احکامات کی بجاآوری اور دین کی نشر و اشاعت میں جن مشکلات و مصائب کا سامنا کیا اور جس محنت و مشقت ،پامردی اور استقلال کے ساتھ شرعی احکامات پر عمل کیا اس کی نظیر ملنا نا ممکن ہے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی زندگیاں اور انکا جہاد اکبر پر قائم رہنا اسکی زندہ مثال ہے کہ کس طرح انھوں نے اپنی مرضی و راحت و آرام کو شرعی احکامات کی بجاآوری میں ختم کردیا اور فنا فی اللہ کی عملی مثال پیش کی۔

حکیم الامت حضرت مولانا شاہ محمد اشرف علی تھانویؒ اپنی کتاب”شریعت و طریقت“ میں پانچویں فصل کے تحت ”فنا اور بقا“ کے تحت رقمطراز ہیں:۔ فنا دو قسم کی ہے فنا ئے واقعی اور فنائے علمی۔ فنائے واقعی یہ کہ افعال ضمیمہ ملکات ردیہ ضائع ہو جائیں مثلاً ظاہری معاصی چھوٹ جائیں قلب سے حب غیراللہ، حرص طول امل و کبر و عجب و ریا وغیرہ سب نکل جائیں۔ اس کو فنائے واقعی اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں جو چیز زائل ہوتی ہے یعنی افعال و ملکات ردیہ واقع میں بھی فنا ہو گئے بخلاف دوسری قسم کے جیسا عنقریب آتا ہے اسکو بعضے اصطلاحاً حسی اور بعضے فنائے جسمی بھی کہتے ہیں، اور فنائے علمی یہ کہ غیر اللہ اسکے قلب سے مرتبہ علم میں نکل گیا یعنی اسکو غیراللہ کے ساتھ تعلق علمی نہیں رہا“۔

پیش نظر مضمون میں بھی ”فنا “ سے یہی مراد ہے کہ انسان اپنی تمام بری خصلتوں اور بری عادات کو ترک کر کے صرف ایک خدائے وحدہ لاشریک کی محبت میں گم ہو جائیں۔

لہٰذا کامیابی کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے احکامات اور سنت نبویﷺ کی پیروی میں خود کو”مقام فنا“ سے گزارا جائے اور اس مقصد کیلئے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے کہ ایک مومن قانت کیلئے اپنے مالک حقیقی کی نظروں میں سرخرو ہونے کا یہی ایک راستہ ہے ورنہ بلآخر اس پر وہ وقت آ ہی جائے گا جب موت اسے آن واحد میں فنا کر کے پیوند خاک بنا دے گی۔
Muhammad Rafique Etesame
About the Author: Muhammad Rafique Etesame Read More Articles by Muhammad Rafique Etesame: 196 Articles with 321121 views
بندہ دینی اور اصلاحی موضوعات پر لکھتا ہے مقصد یہ ہے کہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے فریضہ کی ادایئگی کیلئے ایسے اسلامی مضامین کو عام کیا جائے جو
.. View More