نظام“ فارسی زبان کا لفظ ہے جو نہ صرف لغوی اعتبار سے
بلکہ اصطلاحی نقطہ نظر سے بھی بڑے وسیع و بلیغ معانی میں استعمال ہوتا
ہے۔مثلاً، کائنات کی ہر چیز میں کوئی نہ کوئی نظام کارِ فرما ہے۔ پوری
کائنات حکمِ خداوندی سے (آفتاب سے لے کر ذرے تک) ایک نظام کے تحت چل رہی ہے
یعنی ایک طریقے، انتظام اور ترتیب کے مطابق کائنات کا نظام قائم ہے۔اسی طرح
جسم ہی کو لیجیے اس میں بے شمار نظام کار فرما ہیں۔اگر کسی ایک میں بھی
کوئی خلل واقع ہو جائے تو پورا انسانی ڈھانچہ اس کے اثر کی زد میں آجاتا
ہے۔بالکل ایسے ہی کسی ملک کی بقا، سالمیت اور بحالی کسی نہ کسی نظام کے
تابع ہے۔ اس مصرعے میں ”نظام“ سے مراد ایک ایسا مربوط نظم ہے جس کے اجزاء (اقتصادی،
سیاسی، لسانی، عسکری، تعلیمی۔۔۔وغیرہ) اپنے کل سے مل کر ملک کو خوشحال
بنانے کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
مملکت ِ خدادا پاکستان کا قومی ترانہ لکھتے ہوئے شاعر کے ذہن میں بھی ایسا
ہی نظام ہے جو منضبط اور مربوط ہو اور ایسی فضا کو جنم دے سکے جس میں عوام
کی خواہشات کا احترام، عدل وانصاف کا دور دورہ اور بھائی چارے کی فضا قائم
ہو سکے۔ ایسا نظام قائم ہو کہ غرباء کا استحصال نہ ہو، دولت چند ہاتھوں میں
جمع ہو کر نہ رہ جائے نیز امراء اپنی دولت کے نشے میں مست ہو کر یتیموں،
مسکینوں، بیواؤں، لاچاروں، بے بس اور بے کس لوگوں کے حقوق غصب نہ کر
سکیں۔ہر شہری کو انصاف مہیا ہواوروہ تمام مقاصد جن کو مدِ نظر رکھتے ہوئے
یہ خطہء ارض حاصل کیا گیا، پورے ہوں۔ ملکِ خدادا پاکستان میں ایسا نظام
نافذ ہو نا چاہیے جو پاکستانی قوم کی شناخت ہو اور اس قوم کو بین الاقوامی
سطح پر متعارف کر اسکے]جہاں تک قوم کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرانے کی
بات ہے تو تاریخ شاہد ہے کہ جب 1965ء میں دشمن کے ساتھ پاکستان کامعرکہ ہوا
تو پوری قوم یک جان ہو کر اس کے مقابل کھڑی ہوئی اوراسے ایساسبق سکھایاکہ
اگلے کئی سالوں تک وہ اسے فراموش نہ کر سکا؛لیکن 1971ء میں جب قوم اندرونی
طور پر انتشار کا شکار تھی تو دشمن کو اسے مزید زک پہنچانے کا سامان میسر
ہو گیا چنانچہ نتیجہً پاکستان دو لخت ہو گیا۔کاش اس وقت کے حکمرانوں نے ہوش
کے ناخن لیے ہوتے اور اس مملکتِ خدادا کی حفاظت اسی نظام کے تحت کی ہوتی جس
کے خواہاں قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری تھے تو آج بھی بنگلہ دیش مشرقی
پاکستان ہی ہوتا۔وقت تیزی سے گزر جاتا ہے اور زخم بھر آتے ہیں لیکن وقت
اپنی یادیں پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ اہلیانِ پاکستان نے بھی اگرچہ اس واقعہ کو
کبھی فراموش نہیں کیا اور ہر سال /16دسمبر جب آتا ہے تو پوری قوم ایک بار
پھر سوچتی ہے کہ کاش ایسا نہ ہوا ہوتا۔ لیکن اس ہونے کے پیچھے عالمی
سامراجی قوتیں کار فرما تھیں جو نہیں چاہتی تھیں کہ پاکستان ایک ناقابلِ
تسخیر ملک بن کر دنیا کے نقشے پر نمو دار ہو۔پھر وقت آیا اور حالات تبدیل
ہوئے اور1998ء میں محمد نواز شریف کے دورِ حکومت میں جب دشمن نے ایک بار
پھر پاکستان کوآنکھیں دکھانا چاہیں اور ایٹمی دھماکے کرکے دنیا کی چھٹی
جوہری طاقت بن گیا تو اس وقت کے وزیراعظم نے تمام بیرونی دباؤ نظر انداز
کرتے ہوئے چاغی کے پہاڑوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گواہ بنا لیا کہ پاکستان
بھی ایک ایٹمی قوت ہے اور اس کی طرف کسی کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات
نہیں ہونی چاہیے۔ [اور یوں پاکستان دنیا کے ان ممالک کی صف میں شامل ہو گیا
جو ایٹمی صلاحیت کے حامل ہیں یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین، روس علاوہ
ازیں اب جنوبی کوریا بھی اس صف میں شامل ہو چکا ہے] اور عالمی سطح پر باور
کر اسکے کہ یہ قوم ایک نظریہ، ایک لائحہ عمل رکھتی ہے۔ ایک ایسا نظریہ جس
کی بنیادیں اسلام کے آفاقی نظام پر قائم ہیں؛ جب کہ اسلام دینِ فطرت ہے اور
اس دین متین کا عطا کردہ نظام ہی انسان کی زندگی کے لے زیادہ منفعت بخش ہو
سکتا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دینِ اسلام کا عطا کردہ نظام کیسا ہو
سکتا ہے؟
دینِ اسلام کا نظام تو وہ نظام ہے جس میں آقا اور غلام ایک ہی صف میں کھڑے
ہوتے ہیں تو بندہ اور بند نواز کا فرق مٹ جاتا ہے۔حکیم لامت علامہ اقبالؒ
نے دو مصرعوں میں دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔ فرماتے ہیں:
؎ ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز
نہ کوئی بند رہا اور نہ کوئی بند نواز
دینِ اسلام کا نظام تو وہ نظام ہے جس عدل کی بات ہو تو اللہ کے نبی ﷺکہہ
اٹھتے ہیں:
حدود اللہ کی زد میں تو بیٹی فاطمہ بھی آجاتی تو اسے بھی معاف نہ
کرتا۔قانون محض غرباء کے لیے نہیں امرا کے لیے بھی ہے۔
عفو در گزر کا مرحلہ آئے تو نبیﷺ سب سے پہلے اپنے چچا حضرت امیر حمزہ ؓ کے
قاتلوں کو معاف کرتے ہیں۔ایسا نظام جسے خلفائے راشدین اور بعد میں آنے والے
حکمرانوں نے جب اختیار کیا تو کامیاب و کامران ہوئے اور اسلامی معاشرہ اتنا
خوشحال ہو گیا (دورِ فاروقیؓ) کہ کوئی زکوۃ لینے والا نہ ملتا تھا۔اسلامی
نظام کے تحت چلنے والے ایسے حکمران بھی گزرے جو شاہی خزانے سے کچھ بھی اپنے
تصرف میں نہ لاتے اسے عوام کی امانت سمجھتے اور خود ٹوپیاں سی کر اور قرآن
پاک کی کتابت کرکے گزارہ کرتے تھے اور تو اور خزانے سے چلنے والے لیمپ کی
روشنی تک کو اپنے ذاتی تصرف میں نہ لاتے۔ اسلامی نظام کی یہ چند مثالیں ہیں
اگر ان کا عشرِ عشیر بھی ہم اپنے ملکی نظام میں لاگو کرلیں تو کوئی وجہ
نہیں کہ ہمارا ملک خوشحال نہ ہو اور امن و سکون کا گہوارہ نہ ہو۔
قومی ترانے کے دوسرے بند کے مصرعہ ثانی میں شاعر اپنے ملک کے لیے جس نظام
کا خواہاں ہے، اس کی بنیاد دو چیزوں پر ہے۔ایک اتحاد کی طاقت اور دوسرا
بھائی چارہ۔جس نظام کی جڑیں اتحاد کی طاقت کا سرچشمہ ہوں اور جو باہمی اخوت
کے بل بوتے پر قائم ہو۔ ایسا نظام مضبوط ترین ہو گا کیونکہ طاقت یو قوت کا
کم ہونا کمزوری کی علامت ہے، سستی کی علامت ہے، بے عملی کی علامت ہے اور
کمزور کی سزا بقول حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ:
؎ ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
یہاں کمزوری سے مراد ہیے سست الوجود ہونا، ہمت ہار کر بیٹھ جانا اور عمل کا
فقدان ہونا جس سے انسانی قوت کمزور پڑٹجاتی ہے اور جب پورے معاشرے کی
اتحادی قوت کمزور پڑ جائے تو معاشرہ زوال پذیر ہو جاتا ہے۔ جب افرادِ قوم
سست الوجود ہوں گے تو وہ قوم طاقت ور نہیں رہے گی، وہ اپنی شکست تسلیم کرنے
کے لیے تیار ہو جائے گی؛لیکن زندہ قومیں اپنی طاقت کو (باہمی اتحاد و
اتفاق) ختم نہیں ہونے دیتیں کیونکہ رزمِ حق و باطل میں وہ فولاد بن جاتی
ہیں تب ہی تو قیصر وکسریٰ جیسی حکومتوں کے استبداد کو مٹا سکتی ہیں۔پس ثابت
ہو ا کہ زندہ قوموں کے نظام کی اساس باہمی محبت، اخوت اور طاقت پر ہے۔ ایسی
قوت کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان خود کو خدائی احکام اور قانین
کا مکمل طور پر تابع بنا لے اور قرآن سے رہنمائی لے کر اور سنتِ نبوی ﷺ کی
پیروی کرے۔جب قرآن کی رہنمائی میں اس کی تخلیقی قوتیں پورے طور پر بروئے
کار آئیں گی تو دنیا کو انقلاب اور تعمیر کا راستہ دکھایا جاسکے گا۔
|