گزشتہ سے پیوستہ...اگلے صفحے پر مصنف کا سوانحی و کاوشی
تذکرہ شامل کیا گیا ہے جو قاری کو صاحبِ کتاب کے بارے چنداں معلومات فراہم
کرتا ہے۔سیّد محمد ناصر علی صاحب نے اس کتاب کا انتساب اپنی اہلیہ محترمہ
سیّدہ راشدہ کے نام کیا ہے جن کی رفاقت پر مصنف کو ناز ہے۔فہرس میں سب سے
پہلے بقائی میڈیکل یونیورسٹی کی چانسلر پروفیسر ڈاکٹر زاہدہ بقائی کا پیغام
ہے۔ اس کے بعد جناب ذہین عالم سروہا کی ذہانت و فطانت کا منہ بولتا تبصرہ
بعنوان”دیکھئے زورِ قلم کچھ اور اب“ شامل ہے۔علاوہ ازیں معروف ادیب اورکالم
نگار محترم پروفیسرڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی تحریر ”یارِ من ناصر علی’بہ
زبانِ قلم“ ہے اور پھر مصنف نے کچھ اپنے احوال رقم کیے ہیں۔
اپنے پیغام میں پروفیسر ڈاکٹر زاہدہ بقائی صاحبہ لکھتی ہیں:”میری دعا ہے کہ
ان کا قلم اسی طرح چلتا رہے تا کہ دوسرے پڑھے لکھوں کو بھی ان کی صف میں
شامل ہونے اور قدم سے قدم ملانے کا حوصلہ ملے۔“ ذہین عالم سروہا صاحب کی
شخصیت سے ادبی حلقے بخوبی واقف ہیں۔ وہ ”بہ زبانِ قلم“ پر اظہارِ خیال کرتے
ہوئے لکھتے ہیں، ’اس کتاب میں ان کے چند تراجم بھی شامل ہیں۔اگر انہوں نے
خود ہی انہیں تراجم نہ لکھ کر نشاندہی کر دی ہوتی تو تحریرکی روانی انہیں
طبع زاد ہی ظاہر کرتی -سچ پوچھیے تو یہی ناصر علی کے ترجمے کا حسن اور جوہر
ہے۔ ترجمہ کے لئے جس زبان سے ترجمہ کیا جائے اور جس زبان میں ترجمہ ہو
دونوں ہی پر عبور ہونا ضروری ہے۔ دوہری زبان دانی میں ہر دوزبان کے محاورہ
اور روزمرہ کا علم ہونا بھی لازمی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتو بات لفظی ترجمہ میں
پھنس جاتی ہے۔ خوشی ہے کہ سید محمد ناصر علی نے اچھے ترجمہ کار کی طرح نہیں
اچھے ترجمان کی طرح اپنے قلم کا استعمال کیاہے۔“
اس کے بعددورِ حاضر کے معروف ادیب اورکالم نگارپروفیسرڈاکٹر رئیس احمد
صمدانی کی تحریر ”یارِ من ناصر علی’بہ زبانِ قلم“میں مصنف کی ادبی شخصیت کو
موضوع بناتے ہوئے ان کے مضامین پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ ادبی حلقے اس
بات سے بخوبی آگا ہ ہیں کہ ان کے قلم سے الفاظ معنی لے کر اترتے ہیں اور
پھر قاری کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ ان کے تبصرے سے چند سطریں نذر ِ
قارئین ہیں۔ ”سیّد ناصر علی میرے اسکول کے ساتھیوں میں سے ہیں۔یہ راز کوئی
چھے عشروں بعد کھلا کہ ہم دونوں کا بچپن بہار کالونی مسان روڈ میں گزرااور
ہم نے’غازی محمد بن قاسم اسکول‘ سے پرائمری تعلیم حاصل کی۔۔۔سیّد محمد ناصر
علی خاکہ نگار بھی ہیں اور کہانی کار بھی،مؤلف بھی ہیں اور مترجم بھی۔
گویاادب کی مختلف اصناف کے اظہار کا گلدستہ ہیں۔“
مصنف کے نزدیک ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنے کی بہت اہمیت ہے
کیونکہ اس سے دوسری اقوام کے رسم ورواج اور ثقافت و معاشرت سے آگاہی ہوتی
ہے۔ چنانچہ مصنف نے ”کچھ اپنے قلم سے“ کے عنوان میں لکھا ہے۔”دنیا میں
ترجمہ یا ترجمانی مختلف زبانیں بولنے والوں کے درمیان ابلاغ کا ذریعہ ہے۔
ترجمے کا آغاز کب، کیسے اور کہاں ہوا اس کی کھوج مشکل بھی ہے اور آسان
بھی۔۔۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ترجمے کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔دنیا
بھر میں 1991ء سے 30ستمبر کا دن ’یومِ ترجمہ‘ کے طور پر منایا جارہا ہے۔“
”بہ زبانِ قلم“میں بشمول تراجم کل بائیس مضامین ہیں جو مختلف موضوعات
پرلکھے گئے ہیں۔مثلاً، ”ادب اور صحافت“ کے عنوان سے انہوں نے لکھا ہے،
”ادیب کا یہ امتیاز ہے کہ وہ اپنی سطح کو عوامی نہیں بناتا بلکہ عوامی سطح
کو اپنی سطح پرلانے کی تگ ودو کرتا ہے۔ یہ عمل صحافت کے مقصد سے بالکل
مختلف ہے۔عوام سے تخاطب کا عنصر نظیر اکبر آبادی کے کلام میں تو ملتا ہے
لیکن غالب کے یہاں نہیں۔ ایک نے عوامکے لئے لکھا ہے اور ان کے ذوق کی تسکین
کی ہے اور دوسرے نے ادب کے اعلیٰ ذوق کی آب یاری کو اپنا مقصد بنایا
ہے۔صحافت کا ابلاغ، ابلاغ عامہ ہے اور ادب کا ابلاغ، ابلاغ خصوصی ہے۔ ابلاغ
اور مقاصد کا یہ فرق دونوں کی زبانوں میں خود بخود خطِ فاصل کھینچ دیتا
ہے۔“
اگر ان الفاظ پر غور کیا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ کس خوب صورتی سے مصنف
نے ادب اور صحافت کو ممیز کر دیا ہے۔ان کا خیال ہے کہ صحافت نہ صرف ایک
منصب بلکہ ایک ذمہ داری ہے لیکن وہ زرد صحافت کو ایک مہلک مرض سمجھتے ہیں
کیونکہ یہ معاشرے میں ہیجانی پھیلانے کا ذریعہ بنتی ہے۔ وہ اپنے مضمون”زرد
صحافت“ میں لکھتے ہیں،”زرد صحافت یا زرد پریس صحافت میں سنسنی خیز
خبریں،مضامین،اخبارات میں شائع کرکے قاری کی بھرپور توجہ حاصل کی جاتی ہے
اس ذریعے سے اخبار کی سرکولیشن میں اضافہ ہوتا ہے۔“ وہ بیسویں صدی کی صحافت
پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں کہ”اخبار کی انتظامیہ کی کوششیں اس
لئے زیادہ کامیاب ہوئیں کہ اس زمانے کے سیاسی معاشرتی اور اقتصادی حالات
میں پڑھنے والوں کے ذہنوں نے بھی اسے قبول کیا۔ یہ ایک طرح سے ایسا عمل تھا
جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرکے سمجھے کہ وہ محفوظ ہوگیا۔ اسے
آپ یرقان زدہ ذہنیت کا اثر بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کیفیت میں قاری سنسنی خیزی
کے ساتھ مبالغہ آرائی اور اپنی ناپسندیدہ شخصیت کی تضحیک اور تمسخر سے لطف
اندوز ہوتاہے“۔
|