اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے!

12اگست 2019کو مکہ مکرمہ میں حج کی غرض سے موجود تھا تو اطلاع ملی کہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی ؒ کے اکلوتے صاحبزادے مولانا محمد طلحہ کاندھلوی ؒ دنیا سے رخصت ہوگئے،اناللہ وانا الیہ راجعون۔اتفاق سے ظہر کی نماز کا وقت تھا، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کے اجل خلیفہ مولانا عبدالحفیظ مکی ؒ کی خانقاہ میں علماء کرام اور دیگر مہمانان رحمن جمع تھے۔مولانا عبدالحفیظ مکیؒ اور ان کے خاندان کا حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ اور آپ کے خاندان کے ساتھ خصوصی تعلق ہے،اللہ تعالیٰ نے مولانا عبدالحفیظ مکی ؒ اور آپ کے خاندان کو عمرہ اور حج پر آئے ہوئے اللہ کے مہمانوں کی ضیافت اور خدمت کی سعادت بخشی ہے،درجنوں حجاج کرام اور زائرین آپ کے ہاں ٹھہرتے ہیں جن کا خوب اکرام کیا جاتاہے،مولانا عبدالحفیظ مکیؒ کے والد مرحوم کے حوالے سے یہ بات معلوم ہوئی کہ آپ حجاج کرام کا خاص خیال رکھتے اور انہیں حرم مکی سے اپنے گھر لاتے اور آپ کی اہلیہ اللہ کے مہمانوں کے لیے کھانا تیار کرتیں،بعدازاں یہ سلسلہ مولانا عبدالحفیظ مکی ؒ ، آپ کے خاندان کے دیگر افراد خصوصا مولانا عبدالوحید مکیؒ اور مولانا عبدالحفیظ مکیؒ کے صاحبزادوں مولانا عبدالرؤف مکی،مولانا عبدالصمد ودیگر نےبھی جاری رکھا ہواہے اللہ تعالیٰ اپنی شایان شان سب کوجزائے خیر نصیب کرے۔اسلام کی آمد سے قبل بھی حجاج کرام کی خدمت کو اہل مکہ سعادت سمجھتے تھے اور باقاعدہ قبائل میں مختلف ذمہ داریاں تقسیم تھیں جو تاریخ میں حجابہ،سدانہ،سقایہ اور رفادہ کے نام سے معروف ہیں ،جن کے ذریعے قریش مکہ بیت اللہ شریف حجاج کرام کی دیکھ بھال،خانہ کعبہ کی چابی برداری،حجاج کرام کو پانی پلانے اور کھانا کھلانے ایسی ذمہ داریاں سرانجام دیتے تھے۔

حضرت مولانا پیر عزیزالرحمن ہزاروی نے نمازِ ظہر کے بعد حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاکاندھلوی ؒکے خاندان اور مولانا محمد طلحہ کاندھلویؒ کی مبارک زندگی حاضرین ِمجلس کے سامنے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آج دنیا سے اللہ تعالیٰ کے ایک اور محبوب بندے رخصت ہوگئے۔مولانا عزیزالرحمن ہزاروی نے مولانا محمد طلحہ کاندھلوی ؒکے ساتھ اپنے خصوصی تعلق کے حوالے سے بتایا کہ آپ اُن سے خصوصی شفقت کا معاملہ فرمایا کرتے تھے،زہد تقوی اور للہیت میں آپ بے مثال تھے،قرآن وسنت پر عمل کا خوب اہتمام فرماتے،قرآن کریم سے خاص شغف تھا،فرمانے لگے کہ مولانا محمد طلحہ کاندھلویؒ کے ساتھ فیصل آباد میں ایک بار اعتکاف میں بیٹھنے کا اعزاز ملا ،آپ کا معمول تھا کہ آپ روزانہ ایک قرآن کریم کا ختم فرماتے،ذکر اذکار اور باقی اعمال بھی معمول کے مطابق جاری رہتے۔اسی دوران ہندوستان پاکستان سے مختلف لوگوں کے تعزیتی فون آنا شروع ہوگئے،مولانا عزیزالرحمن ہزاروی نے فون پر تعزیت کرنے والوں اور حاضرین مجلس کو مولانا طلحہ کاندھلوی ؒ کے لیے ایصال ثواب کرنے کی ترغیب دلاتے ہوئے کہا کہ جتنا زیادہ ہوسکے مولانا طلحہ کاندھلویؒ کو کلمہ طیبہ ،قرآن کریم،طواف ،عمرہ،مالی بدنی غرض جو بھی شکل ایصال ثواب کی ہو آپ کو ایصال ثواب پہنچایا جائے کیوں کہ یہی جانے والوں کے لیے بہترین زاد راہ ہے اور اس میں ایصال ثواب کرنے والوں کو بھی برابر اجر ملتاہے۔چنانچہ حاضرین مجلس نے 70ہزار بار کلمہ طیبہ پڑھ کر ایصال ثواب کیا،اور کئی لوگوں نے طواف اور عمرہ کرنے کا عزم کیا۔بعدازں خانقاہ ِمکی میں رات گئے تک تعزیت کرنے والوں کا سلسلہ جاری رہا اور اس دوران مولانا طلحہ کاندھلویؒ اور پوری امت کے مرحوم مسلمانوں کے لیے ایصال ثواب کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

غالباً20112012,میں راقم کو ملتان میں مولانا طلحہ کاندھلوی ؒ کی زیارت کا موقع ملا،نہایت متواضع،عاجز ،خشیت اور للہیت کا پیکر پایا،اپنےخصوصی بیان میں آپ نے فکرِ امت کی دعوت کے ساتھ مسلمانوں کی اصلاح پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین کو دوسروں تک پہنچائے۔دینی مدارس ،مکاتب قرآنیہ کے حوالے سے بھی آپ کافی فکرمند اور فعال کردار ادا کرتے رہے۔مولانا محمد طلحہ کاندھلویؒ 28مئی1941کو پیدا ہوئے،ابتدائی تعلیم ہندوستان کے مشہوری دینی مدرسے مظاہر علوم سہارن پور سے حاصل کی،پھر دہلی میں کاشف العلوم مرکز نظام الدین دہلی سے فراغت حاصل کی۔نہایت سادہ عابدوزاہد انسان تھے ،لوگوں پر خرچ کرنے میں مشہور تھے،اپنے والد کے قائم کردہ کتب خانہ یحیوی کو خوب ترقی دی۔1983میں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ کی وفات کے بعد مظاہرعلوم مدرسہ کے سرپرست مقرر ہوئے۔ مولانا محمد طلحہ کاندھلویؒ واقعی اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے تھے جن کے جانے پر دنیا بھر میں آنکھیں اشکبار ہوئیں،حرمین شریفین ،پاکستان ہندوستان سمیت دنیا بھر میں موجود ہزاروں مدارس ،خانقاہوں اور مکاتب میں آپ کے لیے ڈھیروں دعائیں کی گئیں،عمرہ طواف اور نہ جانے کس کس انداز میں آپ کو ایصال ثواب پہنچایا گیا اور پہنچایا جارہاہے اور جاتارہے گا۔ یقیناً آپ کی وفات کے بعد ایک خلاء پیدا ہوگیا ہے کہ دنیا بھر میں موجود آپ کے متعلقین اور احباب یتیم ہوگئے ہیں،لیکن آپ کے لگائے ہوئے باغوں کی ہریالی اور پھولوں سے دنیا میں خوشبو پھیلتی رہے گی ان شاءاللہ۔

ایک انسان کی کامیاب زندگی وہی ہے جو اسے مرنے کے بعد بھی زندہ رکھے۔مسلم شریف کی روایت کے مطابق انسان جب فوت ہو جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے ،البتہ تین طرح کا عمل باقی رہتا ہے(1)صدقہ جاریہ (2) وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہو اور (3) وہ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔"دین سے تعلق رکھنے والے ان تینوں طرح کے اعمال سے مستفید ہوتے ہیں۔اس لیے ہم میں سے ہرشخص کو اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کو قیمتی سمجھنا چاہیے اور زندگی کے ہر لمحے کو ضائع ہونے سے بچانا چاہیے،موت کی تیاری کی فکر ہر وقت دامن گیر ہونی چاہیے کیوں کہ یہی فکر انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب رکھتی ہے،اسی سے دنیاکی فنائیت کا یقین دل میں پختہ ہوتاہے۔اللہ تعالیٰ ہرمسلمان کا خاتمہ ایمان پرکریں اور ہر ایک کو اپنا محبوب بندہ بنائیں۔آمین۔

Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 43 Articles with 36367 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.