تحریر: محمد مبین
گالیاں کچھ لوگوں کا تکیہ کلام ہوتی ہیں، وہ بات بے بات گالیوں کی بوچھاڑ
کرتے جاتے ہیں۔ غصہ آئے تو بھی گالیاں نکالتے ہیں، نہ آئے تو بھی ان کے منہ
سے گالیاں ہی جھڑتی رہتی ہیں۔ ان کرداروں کو چھوڑ کر دیکھا جائے تو عام طور
پرغصہ ہی گالیاں اور مغلظات بکنے کا باعث بنتا ہے۔ جب غصے میں بھوت بنا ہوا
شخص اپنے مدمقابل کی ماں، بہنوں پر گندے اور فحش الزام لگا لیتا ہے اور
اپنے تئیں اس کے حسب و نسب کو اچھی طرح مشکوک ثابت کر دیتا ہے تو اس کا
کلیجا ٹھنڈا ہوتا ہے۔ صرف پنجابی زبان کا معاملہ نہیں، دنیا کی ہر زبان میں
فصیح اور کٹیلی گالیاں تخلیق کی گئی ہیں۔ ان کا نمایاں وصف معتوب انسان کو
بد اصل ثابت کرنا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اس بے چارے کی ماں کو بدکردار بنائے
بغیر ایسا نہیں کیا جا سکتا لہذا عام طور پر ماں ہی گالیوں کا محور بنی
رہتی ہے۔ ماں بہنوں کی برائی کرنے کے علاوہ خود معتوب کو کتا، سور اور
دوسرے برے القاب سے نوازا جاتا ہے۔
ایک مسلمان کے شایاں نہیں کہ وہ گالی گلوچ کرے۔ جو زبان اﷲ کے شکر سے تر
رہنی چاہیے، گالی اس پر نہیں جچتی۔ پھر غصے سے بے قابو ہو جانا جانوروں کا
وصف ہے، عقل و شعور رکھنے والا آدمی کسی لمحہ عقل کا دامن ہاتھ سے نہیں
جانے دیتا۔ تیسری بات کہ کسی پاک دامن عورت پر گالی کی صورت میں تہمت لگانا
سخت گناہ ہے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم ایک بار انصار مدینہ کی ایک
مجلس میں تشریف لے گئے۔ وہاں ایک شخص بیٹھا ہوا تھا جس کے بارے میں مشہور
تھا، وہ گندی اور فحش باتیں کرتا ہے اور جلد ہی گالیوں پراتر آتا ہے۔ آپﷺ
نے فرمایا، ’’مومن کو گالی دینا گناہ ہے اور اس سے جنگ کرنا کفر ہے‘‘۔ اس
شخص نے وعدہ کیا، بخدا! آئندہ میں گالی نہ نکالوں گا۔ گالیوں میں دل کی
بھڑاس نکالنے کے لیے جو تہمتیں دھری جاتی ہیں اورگندے الزامات لگائے جاتے
ہیں ان کا برا ہونا حضرت محمدﷺ کے اس ارشاد سے واضح ہوتا ہے، ’’کوئی شخص
کسی دوسرے پر گناہ گار ہونے کا جھوٹا الزام یا کفرکی تہمت نہیں لگاتا مگر
دوسرے میں برائی موجود نہ ہونے کی صورت میں وہ الزام اسی پر چسپاں ہو جاتا
ہے‘‘۔
آپﷺ نے فرمایا، ’’مسلمان کو لعنت ملامت کرنا اسے قتل کرنے کی مانند ہے‘‘۔
ایک تابعی ابو عبد اﷲ بجلی نے ام المومنین سیدہ عائشہؓ سے رسول پاک صلی اﷲ
علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا، ’’رسو ل
اﷲﷺ گفتگو میں حد سے نہ بڑھتے، وہ کبھی فحش بات نہ کرتے، بازار میں
شوروغوغا نہ کرتے، برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیتے۔ وہ تو معاف اور درگزر
کرنے والے تھے‘‘۔ یہ ایسی برائیاں ہیں کہ اﷲ کے پاک نبیﷺ میں ان کے پائے
جانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن چوں کہ عام لوگوں کی اکثریت ان میں
مبتلا ہے اس لیے ام المومنینؓ نے ان کی نفی وضاحت کے ساتھ کی۔ بد زبانی اور
گالم گلوچ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ غصے پر قابو پانا سیکھا جائے۔ غصہ
ایسی شے ہے جو انسان کے جسم اور دماغ پر حاوی ہو جاتا ہے، اس سے ہر انسانی
عضو کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ دماغ کا سوچنے سمجھنے والے حصہ اپنا کام
شروع بھی نہیں کرتا کہ غصے کا اظہار کرنے والا حصہ عمل میں آ جاتا ہے۔
غصہ کھانے والے شخص کے پٹھے کھچ جاتے ہیں، اس کی سانس تیز تیز چلنے لگتی ہے،
دل کی دھڑکن اوربلڈ پریشر تیز ہو جاتے ہیں، کبھی وہ کانپنے بھی لگتا ہے۔ ان
لمحات میں وہ توانائی سے پر ہوتا ہے اور کوئی قدم اٹھا سکتا ہے، وہ ایسا
عمل بھی کر سکتا ہے جس پر اسے بعد میں خودنادم ہونا پڑے۔ اس موقع پر اگراس
کی سوچ سمجھ غالب آ جائے تو وہ غصے پر قابو پا سکتا ہے ورنہ غصہ اپنا کام
کر دکھاتا ہے۔ جس شخص سے بے انصافی ہوئی ہو یا اس کی حق تلفی کی گئی ہو،
اسے جلد غصہ آتا ہے۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں، ’’غصہ کسی پیش آنے والے خطرے
کا رد عمل ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ خطرہ انسان کی اپنی ذات کودرپیش ہو یا
کسی ایسے شخص کو جس سے وہ محبت کرتا ہو۔ یہ خطرہ حقیقی ہو سکتا ہے اور
خیالی بھی۔ بھوک، تکلیف اور بیماریاں بھی غصہ پیدا کرتی ہیں‘‘۔ انیسویں صدی
میں فرائڈ نے کہا، ’’جب انسان کو محبت نہیں ملتی تو وہ غصے کا شکار ہو جاتا
ہے۔ اگرچے عام طور پر غصے کا اظہار گالی گلوچ، مارپیٹ اور قتل و غارت کی
صورت میں ہوتا ہے لیکن کبھی غصہ کھانے والا خاموشی کا سہارابھی لیتا ہے۔ اس
صورت میں اس کا رویہ تناؤ اور نفرت ظاہر کرتا ہے‘‘۔
غصے کے اثرات سے بچنے کے لیے غصے کا باعث بننے والی وجوہات کو دور کرنا
ضروری ہوتا ہے چوں کہ عام طور پر یہ انسان کے بس میں نہیں ہوتا اس لیے غصے
کو کنٹرول کرنا ہی اہم ترین ذریعہ رہ جاتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا،
’’دوسرے کو پچھاڑنے والا بہادر نہیں ہوتا، بہادر تو وہ ہے جو غصے کے وقت
اپنے اوپر قابو رکھے‘‘۔ ایک صحابیؓ نے آپﷺ سے نصیحت کرنے کی درخواست کی تو
آپﷺ نے فرمایا، ’’غصہ نہ کیا کرو!‘‘۔ آپﷺ نے یہ ارشاد کئی بار دہرایا۔ غصے
پر بر وقت قابو پانا اور فحش کلامی سے بچنا مسلمانوں کی صفات میں سے ہے۔
غصہ جب جاتا ہے تو اپنے پیچھے فقط پشیمانی چھوڑ جاتا ہے لہذا کوشش کریں کہ
صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں اور اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کریں۔
|