عوام کہاں جائے داد نہ فریاد

بلاشبہ پاکستان کے قانون نافذکرنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسزنے قیام ِ عمل کیلئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں یہ قربانیاں تاریخ کا ناقابل ِ فراموش باب ہے ان قربانیوں کو کوئی جھٹلانابھی چاہے تو نہیں جھٹلاسکتا۔ عوام جب اپنے گھروں کے نرم گرم بستروں پر آرام کررہے ہوتے ہیں تو ہمارے فوجی جوان سرحدوں کی حفاظت کیلئے سینہ سپرہوکر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ڈٹ کرحالات کا مقابلہ کرتے ہیں اسی طرح پولیس کے جوان بھی عوام کی جان ومال کے تحفظ کیلئے اپنے فرائض انجام دینے کا فریضہ انجام دیتے ہیں یقینا یہ بڑا مقدس کام ہے عام آدمی کے لئے قانون نافذکرنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسزکی خدمات قابل ِ تحسین ہیں۔عوام کی جان ومال کے تحفظ کیلئے حکومت نے پولیس میں کئی محکمے بنارکھے ہیں جن میں زیادہ تراہلکاروں کی کاکردگی مثالی ہے یہی وجہ ہے کہ اب تلک بہت سے پولیس افسراور سپاہی اپنے فرض کی ادائیگی کرتے ہوئے اپنے وطن اور اہلیان ِ وطن پر قربان ہوگئے یقینا یہ قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں۔یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتاہے ان بیش قیمت قربانیوں کے باوجود وطن عزیزمیں ابھی تک جرائم کا قلع قمع نہیں کیاجا سکا یا جس طرح یورپین اور خلیجی ممالک میں امن و امان کی صورت ِ حال کومثالی کہاجاتاہے ایسا پاکستان میں نہیں ہے اس کاایک مطلب صاف صاف یہ ہے کہ جب تک ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی مثالی امن و امان کاخواب پورانہیں ہو سکتا اور جب تک’’ قانون سب کیلئے‘‘نافذنہیں ہوتا حکومت جتنے بھی پولیس میں نئے محکمے یا فورسز تشکیل دے دے بات نہیں بنے گی اس لئے حکومت کو ٹھوس اقدامات کرناہوں گے پولیس کے تمام اداروں اور محکموں میں اختیارات سے تجاوزکرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیناہوگاکیونکہ اختیارات سے تجاوزکرنے کے اثرات انتہائی بھیانک مرتب ہوتے ہیں اسے کرپشن کی سب سے خوفناک صورت بھی کہاجا سکتاہے کئی مرتبہ ناکے لگا کرپولیس والے گاڑیوں کے کاغذات چیک کرتے ہیں کوئی انہیں پوچھنے کی جرأت نہیں کرسکتا حضور آپ ایسا کیونکرکررہے ہیں؟۔اس ملک میں ٹریفک اہلکار ون وے کی خلاف ورزی کرے یا ہیلمٹ پہنے نہ پہنے اس کی مرضی پر منحصر ہے ۔ محافظ پولیس بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے ان سے بھی عام آدمی کو بہت سی شکایات ہیں اب تو یہ بھی اطلاعات جیل روڈ، مغل پورہ،ہربنس پورہ،کوئینز روڈ، لبرٹی،لاری اڈہ اور شہرکے مضافاتی علاقوں میں ڈولفن اہلکار نیم تاریکی میں ناکے لگا کرشہریوں کو روکتے ہیں پھر ان کے شناختی کارڈ،چہروں اور گاڑیوں کی موبائل فون سے فوٹولے رہے ہیں ڈیٹابھی فیڈکیاجارہاہے نوجوان ان کا خاص ہدف ہیں اگر یہ سب کچھ لاہور جیسے شہر میں ہورہاہے تو خصوصاً ملک کے پسماندہ شہروں میں کیا کچھ ہو سکتاہے اس کا تصور بھی محال ہے اب کیاکہا سکتاہے ان کو حکومت کی طرف سے کوئی خاص ٹاسک دیا گیاہے یا وہ اختیارات سے تجاوز کرکے اپنے طورپر ایسا کررہے ہیں دونوں صورتوں میں انسانی وشہری حقوق کے خلاف ورزی ہے اس طرح عام شہریوں کو ہراساں کیاجارہاہے چیف جسٹس آف پاکستان، وزیر ِ اعلیٰ پنجاب، آئی جی پنجاب ،ایس ایس پی لاہور اور متعلقہ تھانوں کو اس کا نوٹس لیناچاہیے۔ جب بھی کوئی نئی فورس قائم ہوتی ہے اس سے لوگوں کا متاثرہونا یقینی ہے عام آدمی تو پہلے ہی حالات کی چکی میں پس رہاہے ،پڑھے لکھے نوجوان روزگارنہ ہونے سے مایوسی کاشکارہیں،مہنگائی،غربت نے عوام کی مت ماررکھی ہے اوپر سے ناکے لگاکر شہریوں کو ہراساں کرناکہاں کانصاف ہے؟۔لاہور جیسے شہر میں شہریوں سے ڈولفن اہلکار وں کے بڑھتے ہوئے بدسلوکی کے واقعات حکومت کے لئے لمحہ ٔ فکریہ ہیں صرف صوبائی دارالحکومت پر ہی اکتفا نہیں صوبے کے دور دراز کے پسماندہ علاقوں میں ڈولفن اہلکار بے تاج بادشاہ بنے ہوئے ہیں وہ روایتی پولیس سے بھی کئی ہاتھ آگے نکل گئے ہیں تلاشی کے بہانے شہریوں سے ہتک آمیز سلوک اور بہانوں بہانوں سے تذلیل معمول بن گیاہے اس کو کون روکے گا؟۔ ہمیشہ کہاجاتاہے کہ پولیس اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں اس کا بڑا سبب پولیس کا رویہ خیال کیاجاتاہے شایدوہ خودکو لوگوں سے برتر سمجھتے ہیں اسی لئے پبلک سرونٹ کا تصور پاکستان میں بڑاخوفناک بن گیاہے یعنی اختیارات رکھنے والا جو چاہے کر سکتاہے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں آج ملک کے حالات کے پیش ِ نظرضروری ہے کہ عوام اورقانون نافذکرنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسزکے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے تمام اداروں کوپابندکیا جائے کہ وہ شہریوں کی سیلف ریسپکٹ کو ہرحال میں مقدم رکھیں گے پاکستان کے شہری اپنے وطن سے شدیدمحبت کرتے ہیں اور خاص طور پرجن اداروں تعلق پبلک ڈیلنگ سے ان کی تربیت اس اندازسے کی جانی ناگزیرہے کہ وہ انسان کو انسان سمجھیں جب تک بلا امتیاز سب کااحتساب یقینی نہیں بنایا جاتا بہتری کی امید بھی عبث ہے پاکستان کے تمام شہریوں،اداروں اور سرکاری و غیرسرکاری افسران و اہلکاروں کو آئین اور قانون کا پابندکیاجائے اپنے اختیارات سے تجاوزکرنے والوں سے بازپرس اور خوداحتسابی کا طریقہ ٔ کار وضح کیاجائے جب سب کو احتساب کا خوف ہوگا تو وہ کبھی اپنے اختیارات سے تجاوزنہیں کرسکتا ۔موجودہ حکومت نے اس ضمن میں عوام سے وعدے بھی کررکھے ہیں ان کی تکمیل بھی ضروری ہے کوئی حکومت اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تلک وہ عوام کیلئے آسانیاں پیدانہیں کرتی۔پولیس سے متعلق عوامی شکایات اور ان کے ازالہ کیلئے بھی حکومتی ترجیحات کا تعین کیا جائے ،پولیس کو عوام پر اپنا اعتمادبحال کرناہوگا مجرموں اور عام آدمی کے درمیان فرق پولیس کا طرہ امتیازہونا چاہیے۔ہر حکومت نے پولیس کلچرکی تبدیلی کے بے شمار وعدے کئے ۔تحریک ِ انصاف کے منشور اور وزیر ِ اعظم عمران خان نے تو متعددبار پولیس کو سیاسی دباؤ سے آزاد کرکے عوامی امنگوں کے مطابق ڈھالنے کااعلان کیاہے خیبر کے پی کے میں تو اس کا کامیاب تجربہ بھی کیاجاچکاہے ۔ پاکستان ہمیں کسی نے تحفے میں نہیں دیااس کیلئے دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کی گئی تھی اس وطن کی مانگ میں ہزاروں ماؤں بہنوں کی عصمتوں کا لہو شامل ہے قائد اعظمؒ نے پاکستان اس لیے نہیں بنایا کہ یہاں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہو ،کرپشن ہو، پبلک سرونٹ جب اور جہاں چاہیں عوام کوذلیل کردیں راؤ انوار جیسے پولیس افسروں کا بلا امتیاز احتساب ہوتا تو دیگر کو عبرت ہوتی ہمارے ملک کے قانون نافذ کرنے والے ہرادارے سے عام آدمی خوفزدہ رہتاہے یقین جانئے لوگ ان سے محبت نہیں کرتے یہ رویہ جب تک تبدیل نہیں ہوتا ہر طرح کی اصلاحات اور تجربات فضول ہیں دل چاہتاہے ہر پاکستانی ملک کے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اپنے محافظوں سے محبت کریں حالات متقاضی ہیں جرائم کے خاتمہ اور عام آدمی کی جان ومال کے تحفظ کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں یہ بات طے ہے کہ جب تک پولیس اور عوام کے درمیان فاصلے کم نہیں ہوں گے مسائل حل نہیں ہو سکیں گے۔
 

Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 462 Articles with 383772 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.