یہ تاثرکیوں گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت
ایک ناکام اور نا اہل ہے ۔2013ء سے 2018 تک پانچ سالوں میں عمران خان نے
گھنٹوں عوام کا سر کھایا اور حکمرانوں پر تنقید برائے تنقید کی۔اپنے آپ کو
اس حیثیت سے پیش کیا کہ وہ برسر اقتدار میں آتے ہی 90دنوں میں ملک میں
تبدیلی لے آئیں گے ،مگر 18اگست کو اپنی حکومت کے ایک سال کی کارکردگی کی
چارشیٹ 84 صفحات پرعوام کے سامنے رکھی ۔جس میں ایک ہزار کے قریب کامیابیاں
بیان کی گئی ہیں ،وزارت خارجہ کی ڈھائی سو کامیابیاں شاہ محمود قریشی اپنے
کھاتے میں رکھ رہے ہیں ۔عمران خان نے قوم سے خطاب کرنا تھا ،مگر با وجہ
کشمیر ایشو نہیں کیا ۔ویسے انہیں تقریر کرنے کا شوق بہت زیادہ ہے ۔وہی
پرانی کنٹینر والی تقریر اور سابق حکومت کی کرپشن کا رونا دھونا ۔اس کے
علاوہ ان کے پاس ابھی تک کہنے کو کچھ نہیں ہے ۔اگر ان کے وزراء سے پوچھا
جائے تو سبھی ناکامیوں اور اپنے کئے گئے وعدوں کے بارے میں بات نہیں کریں
گے ۔کامیابیوں کی بڑی تفصیل بیان کرنا شروع کردیں گے ۔جو کہ ان کی اپنی سوچ
کے مطابق کامیابیاں ہیں ،مثلاً کرتار پور راہداری کا کھولنا،آرمی چیف نے
سدھو سے جھپیاں لگائیں ،فاٹا کا انضمام،سادگی اور کفایت شعاری مہم،کرپشن پر
کریک ڈاؤن،صحت انصاف کارڈ ،غربت خاتمے کے پروگرام ،شجر کاری مہم وغیرہ۔اب
عوام اس طرح بیوقوف نہیں بنائے جا سکتے۔عوام مہنگائی ،بے روزگاری ،ادویات
کی عدم دستیابی،بھوک،افلاس،بے گھر،زندگی گزار رہے ہیں ۔یہ زندگی موت سے بھی
بدتر ہوتی جا رہی ہے ،مگر حکومت عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے کامیابیوں کی
لسٹ دے کر ان کے زخموں پر نمک چھڑک رہی ہے۔
عمران خان اور ان کے ہواریوں کو خدا کا خوف ختم ہو کر رہ گیا ہے ۔پی ٹی آئی
کے سب سے زیادہ ووٹر متوسط طبقے سے تھے ۔جن کی تنخواہیں ماہانہ 20ہزار سے
ایک لاکھ روپے تک ہیں ۔جو سڑکوں پر ان کے ساتھ رہے ۔ڈانس اور ڈسکو دھمال
میں بھی ساتھ دیا۔لیکن ان کے لئے حکومت نے کچھ آسانی پیدا نہیں کی ۔سرکاری
اداروں میں اصلاحات نہیں کر سکی۔ایسی پارٹی جو اقتدار میں آنے کے لئے بے
تاب ہو،اسے پانچ سال تیاری کے لئے ملے ہوں ۔انہیں امپائر کی انگلی نے
کامیابی کی یقینی نوید بھی سنا رکھی تھی ۔پھر ان کی کیبنیٹ کے ممبران کون
ہوں گے،سب کو معلوم تھا۔جیسے اسد عمر کو معلوم تھا کہ انہوں نے وزیر خزانہ
بننا ہے ۔لیکن ان کے پاس کوئی تیاری موجود نہیں تھی ۔اسی طرح باقی وزراء کا
بھی یہی حال رہا ہے ۔نعیم الحق اب کہتے ہیں کہ ہمیں اقتدار میں آ کر پتہ
چلا کہ سارے ادارے ہی تباہ ہو چکے ہیں ،سبحان اﷲ۔جب پی ٹی آئی حکومت اقتدار
میں آئی تو آج سے کہیں بہتر ملک چل رہا تھا ۔لیکن آپ کو سلیکٹ اس لئے کیا
گیا کہ بہتری لائی جا سکے ۔بیوروکریسی میں اصلاحات کی جائیں ،تعلیم و تحقیق
کے شعبے میں سرمایہ کاری کی جائے ،کاروبار کرنے والوں کے لئے سود مند ماحول
فراہم کرنا یہ ترجیحات تھیں جس پر حکومت نے عمل کرنا تھا ،مگر عمران خان نے
اقتدار میں آتے ہی ان مسائل پر کوئی غور نہیں کیا۔بلکہ انہوں نے مسلم لیگ
(ن) اور پیپلز پارٹی کو ختم کرنا اپنی ترجیحات بنا لیں ۔جس سے نہ صرف ملک و
عوام بلکہ جمہوریت کو شدید نقصان پہنچا ہے ۔عمران خان کو اندازہ ہی نہیں ہے
کہ ان کی حکومت چند ووٹوں کی اکثریت سے بنائی گئی حکومت ہے اور اگر مختلف
قوتیں ان کے پیچھے سے ہلکا سا ہاتھ بھی نرم کر لیں تو ان کا حشر کیا ہو
گا․․؟معلوم نہیں انہیں کیوں سمجھ نہیں آتا کہ حکومتی امور ،بالخصوص سلامتی
، خارجہ ،داخلہ اور ٹیکس پالیسی جیسے معاملات کے لئے حزب اختلاف کو ساتھ لے
کر چلنا ضروری ہوتا ہے ۔تبھی جمہوری نظام چل سکتا ہے ۔اس کے علاوہ اظہار
رائے کو سلب کرنا اس سے ملک میں گھٹن کا ماحول زیادہ ہو چکا ہے ۔لیکن ہمارے
حکمرانوں نے جو پسپائی اور ذلت کی راہ اختیار کی ہے ،جس سے مظلوم عوام کے
پاس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ حقارت اور رسوائی کی زندگی اپنا لیں یا شر
اور فساد سے زمین کو دوزخ بنائیں ۔
چنانچہ اقتدارمیں بیٹھے لوگ سلیکٹڈ ہوں تو صورت حال ایسی ہی ہو گی ۔پاکستان
کی سیاست میں ہمیشہ حقیقی مسائل کو دبانے کے لئے ’’ہاٹ ایشو‘‘ کی تشہیر کی
جاتی ہے ۔حکومت کے سال بھر میں ناکامیوں کی لمبی فہرست ہے ۔جسے کشمیر ایشو
کے پیچھے دبانے کی کوشش کی جا رہی تھی ۔پہلے کشمیر کو دبانے کے لئے مریم
نواز کو پابند سلاسل کیا گیا ،مگر عوام کی روش کو دیکھتے ہوئے نیاٹوپی
ڈرامہ کیا جا رہا ہے ۔موجودہ قیادت نے کشمیر کا سودا کر دیا ہے۔ایسا پہلی
بار بھی نہیں ہو رہا ۔کیا جنرل ایوب خان نے ستلج ،بیاس اور راوی بھارت کے
حوالے نہیں کئے تھے․․جنرل یحیٰی خان نے نصف پاکستان بھارت کو نہیں
دیا․․جنرل ضیاء الحق نے سیاچن بھارت کو نہیں دیا․․․بھارت کی خواہش کے مطابق
جنرل پرویز مشرف نے 500کلومیٹر طویل کنڑول لائن پر آہنی باڑھ لگانے کی
اجازت نہیں دی․․․جنرل کیانی نے سیکڑوں فوجیوں کے اجتماع میں نہیں کہا کہ
’’کشمیر کی تحریک آزادی سے دستبرداری ہمارے مفاد میں ہے ‘‘۔جنر ل راحیل
شریف جہادی تنظیموں پر کریک ڈاؤن کرتے رہے ․․․عمران خان نے نہیں کہا کہ آئی
ایس آئی نے امریکا کو اسامہ بن لادن کا پتہ دیا․․جنرل باجوہ سدھو جیسے غیر
اہم سیاسی لیڈر سے جپھیاں نہیں ڈالتے رہے ،جو ایک ایٹمی طاقت رکھنے والے
ملک کے چیف آف آرمی سٹاف کو کسی صورت زیب نہیں دیتا ․․کرتار پور بارڈر کا
افتتاح کرنے خود گئے․․ان کا بار بار بھارت کو مصالحت کا کہنا ،عمران خان کا
نیندر مودی کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے مسیحا کہنا ․․یہ سب کیا ہے ؟
کشمیر اور کشمیریوں کا اتنا احساس ہوتا تو دو ہفتوں سے زیادہ مقبوضہ
کشمیرمکمل بند ہے ۔کوئی رابطہ ممکن نہیں ہے ۔خواتین ،بچے ،بوڑھے ،بیمار اور
زخمی کس حال میں ہیں کسی کو کوئی خبر نہیں ہے ۔کسی کو اندازہ نہیں کیونکہ
خوراک اور ادویات موجود نہیں اور ان کی سپلائی ممکن نہیں ۔ظاہر ہے کہ وہاں
شدید بحرانی کیفیت ہو گی ۔کنٹرول لائن پر بھارت ہمارے فوجی شہید کر دیتا ہے
۔بھارت کی دیدہ دلیری اور اس کی نظر میں پاکستان کی اہمیت کا اندازہ اس بات
سے باخوبی لگایا جا سکتا ہے گزشتہ دو برسوں میں بھارت نے 1970مرتبہ کنٹرول
لائن کی خلاف ورزی کی۔لیکن ہم نے کیا کیا ؟ ردِ عمل،جوابی فائرنگ اور بیان
بازی بس۔حکومت اور وزیر خارجہ 50برس بعد مسئلہ کشمیر پر سلامتی کونسل کا
ہنگامی اجلاس بلانے پر نہال ہیں ۔اپنی سفارتی کامیابی پر ڈھول بجایا جا رہا
ہے ،مگر ماضی میں ایسی کامیابیوں سے بھارت کا کیا بگڑا ہے ۔صرف ایک ملک
ویٹو کر کے بھارت کی پسپائی کو بچا لے گا۔
مودی کا پورا پروگرام ہے کہ وہ آزاد کشمیر پر حملہ کر دے ۔جنگی محاذ گرم
کرے۔پاک بھارت افواج کے درمیان جھڑپیں ہوں،چند فضائی حملے ہوں ۔ظاہر ہے
عالمی برادری حرکت میں آئے گی ،جنگ بندی کروائے گی ،اسی کشمکش میں مقبوضہ
کشمیر کا قصہ بھول جائے گا۔ہماری قیادت بھی ایسا ہی چاہتی ہے ،کیونکہ آزاد
کشمیر کا دفاع کر کے وہ مقبوضہ کشمیر کے سودے بازی کو چھپانا چاہتی ہے
۔مقبوضہ کشمیر کے حصول کے لئے سو اور فوجی قیادت کسی قسم کی خواہش نہیں
رکھتی۔
عمران خان اور فوجی قیادت ایک ہی بات پر متفق ہیں کہ جنگ مسائل کا حل نہیں
ہے ۔لیکن مودی نے طاقت کے زور پر مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کیا ہے۔اس لئے اس سے
واپسی بھی طاقت کے زور پر ہی ہو سکتی ہے ۔ہمارا بیانیہ ’’مدینہ کی ریاست کا
ہے‘‘ ،مگر حرکات ڈرپوک اور غداروں والی ہیں ۔بات اس امّت کی کرنی جس کے پاس
تین سو مجاہدین تھے اور پورے عرب کا مقابلہ کرنے میدان میں آ گئے تھے۔نہ ان
کے پاس جدید اسلحہ تھا اور نہ تربیت یافتہ فوج ۔اس سے اچھے تو آزادی کے وقت
تھے ،جب ہمارے پاس نہ ایٹم بم تھا نہ ڈھنگ کی فوج ،نہ جدید اسلحہ تھا ،لیکن
ایک برس جہاد کے نتیجے میں 38فیصد کشمیر آزاد کروا لیا تھا۔آج فوج کے پاس
ایٹم بم سے لے کر جدیدترین اسلحہ ،تجربہ ،بہترین لڑاکا فوج موجود ہونے کے
باوجود پاکستان گنواتے جا رہے ہیں ۔ہم نے عالمی برادری پر یقین،اقوام متحدہ
کی قراردادوں پر امیداور سلامتی کونسل کے اجلاسوں پر اعتبار کیا ہے ۔ہم نے
اپنے دریاگنوا دیئے ،سیاچن اورآدھا ملک کاٹ کے دے دیا،اب کشمیر بھی ہاتھ سے
کھو دیا۔جہاد ہمارے ایمان کا حصہ ہے ،جس پر ہمیں اعتماد نہیں ۔حکمرانوں کا
یہ کہنا کہ اگر ہم جنگ ہار گئے تو کیا ہوگا؟جہاد فتح یا شکست کے لئے نہیں
بلکہ حکم اﷲ تعالیٰ کی اطاعت ہے ۔لیکن ہمیں تو ان کی اطاعت کرنی ہے، جنہوں
نے انسانیت کو ہلاک اور برباد کر کے رکھ دیا ہے ۔جن کا جنگی اسلحہ بیچنے کا
کاروبار ہے ۔ان لوگوں کو ترجیح دی جا رہی ہے جو مسلمانوں کی بربادی کے
صدیوں سے خواہاں ہیں ۔ان کا اوّلین مقصد امّت مسلمہ کی بربادی ہے ۔
|