”قوت“ کے ساتھ ساتھ اس مصرعے میں شاعر نے ”اخوت“ کو بھی
بہت اہمیت دی ہے۔”اخوت“ کے لغوی معنی تو برادری، بھائی بندی کے ہیں؛ لیکن
اس سے شاعر کی مراد ایسے جذبات کو دلوں میں اجاگر کرنا ہیں جو باہمی نفرتوں
کو مٹا دیں اور محبتوں کے دیپ جلا دیں۔ شاعر کی تمنا ہے کہ اس کے ملک کا
نظام ایسا ہو جس میں اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی ہو۔جذبہ اخوت و
محبت اگر کسی قوم کے دل میں پیدا ہو سکتا ہے تو وہ مسلمان ہیں اور مذہب
اسلام ہی ایسا مذہب ہے جس کے ذریعے یہ جذبہ پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ اسلام
محض انسان کے اخلاق اور اصلاح کا داعی نہیں بلکہ عالم ِ بشریت کی اجتماعی
زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے جو انسان کے قومی اور
نسلی نقطہء نگاہ کو یکسر بدل کر اس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے۔
اسلام ہی ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ ”اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو
اورتفرقے میں نہ پڑو“۔
حفیظ ؔ کے نزدیک اخوت کا مفہوم کم وبیش انہی معانی میں استعمال ہوا ہے جن
معانی میں یہ لفظ علامہ اقبالؒ نے استعمال کیا ہے۔ علامہ ؒ کے نقطہءنظر سے
ملک و قوم کی شیرازہ بندی اخوت کے بغیر ممکن نہیں اور وہ مردِ مسلمان کو
اخوت کا پیغام ان الفاظ میں دیتے ہیں۔
؎ ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا
اسلام نے اخوت کی بہترین مثالیں پیش کرکے یہ ثابت کر دیا کہ یہی نظام
انسانوں کے مابین بھائی چارے کے فروغ کے لیے بہترین نظام ہے۔ مگر بد قسمتی
سے مسلمانوں نے وحدت کو کھو دیا اور یہ مختلف فرقوں، گروہوں اور جماعتوں
میں بٹ گئے اور یوں ان کی قوت بھی مستحکم نہ رہی اور اخوت کا بھی فقدان
پیدا ہو گیا چنانچہ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ دوسری قومیں ان پر غالب آنے
لگیں اور یہ جا بجا محکومی و غلامی کے شکنجوں میں جھکڑے جانے لگے۔یہی وجہ
ہے کہ حفیظ ؔ نے انتہائی سوچ وبچار کے بعد ان الفاظ کا چناؤ کیا اور وہ ان
کے ذریعے یہ سبق دینے کے خواہاں ہیں کہ ہمیں اپنے وطنِ عزیز کو قائم رکھنے
کے لیے اخوت کی ڈور سے ہر فرد کی شیرازہ بندی کر نا ہو گی تاکہ ہر فردِ ملت
کے مقدر کا ستارا ثابت ہو سکے۔اگر ہمارے ملک کے لوگ لسانی گروہ بندیوں،
مذہبی فرقہ بندیوں، جغرافیائی حد بندیوں میں منقسم ہو گئے تو ہمارا اتحاد
پارہ پارہ ہو جائے گا، اخوت ختم ہو جائے گی اور ہم ایک عظیم قوم کی حیثیت
سے اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکیں گے۔
اس بند کے تیسرے مصرعے میں شاعر قوم، ملک (پاکستان) اور حکومت کے لیے دعا
گو ہے۔ قوم کے لغوی معنی فرقہ، خاندان، نسل، ذات وغیرہ کے ہیں؛لیکن علمِ
شہریت میں اس کی مختلف تعریفیں ہیں، مثلاً: مغربی مفکر لارڈ برائس قوم کی
تعریف ان الفاظ میں کرتا ہے۔
A nation is a nationality which has organised itself into a political
body either independent or desiring to be independet.
قوم ایسی قومیت کا نام ہے جس نے اپنے آپ کو ایک سیاسی گروہ میں منظم کر لیا
ہواور جو آزاد ہو یا آزاد ہونے کی تمنا رکھتی ہو۔
گویا قوم مخصوص جغرافیائی حدود کے اندر رہنے والی اس آبادی کو کہتے ہیں جو
آزادی حاصل کر چکی ہو یا اسے حاصل کرنے کی جدوجہد کررہی ہواور جو مشترکہ
نسل، مشترکہ ثقافت و روایات، مشترکہ رسم و رواج یا مذہب و زبان وغیرہ کی
بنا پر وجود میں آئی ہو۔یہاں یہ بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ اسلام میں
”قومیت“ کے مترادف اصطلاح ”ملت“یا ”امت“ ہے۔نیز اسلا م کا تصورِ ملت مغربی
تصورِ قومیت سے مختلف ہے۔اسلامی تصورِ ملت کی بنیاد رنگ، نسل، زبان اور
علاقائی حدود کے بجائے نظریے اور عقیدے پر قائم ہے۔ہر وہ فرد ملتِ اسلامیہ
کا رکن ہے جو کلمہء توحید پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے۔قرآنِ
حکیم میں مسلمانوں کے لیے لفظِ امت آیا ہے۔
ان ھذہٖ امتکم امۃ واحدہ بے شک یہ امت ایک ہی امت ہے۔
گویا اسلام میں قومیت یا ملت یا امت کی بنیاد قرآنی تعلیمات پرہے، خواہ اسے
تہذیبی مفہوم میں لیا جائے یا سیاسی۔ چنانچہ یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ اسلام
کے بنیادی اصولوں میں سے یہ ایک واضح اصول ہے کہ قرآن کے علاوہ اپنایا گیا
کوئی ضابطہء حیات قطعاً قبول نہیں کیا جا سکتا۔شاعرِ مشرق حضرت علامہ محمد
اقبال قوم اور ملت کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
"میں نے لفظ”ملت“ قوم کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ
عربی میں یہ لفظ بالخصوص قرآن مجیدمیں شرع اور دین کے معنوں میں استعمال
ہوا ہے۔لیکن حال کی عربی، فارسی اور ترکی زبان میں بکثرت سندات موجودہیں جن
سے معلوم ہوتا ہے کہ ”ملت“قوم کے معنوں میں بھی مستعمل ہے۔"
علامہ اقبالؒ قومیت کو اسلام کے دائرہ میں اس لیے رکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک
صحیح انسانی معاشرہ صرف اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہونے سے وجود میں آسکتا
ہے۔اس لیے ان کے تصورات کی بنیاد اسلامی اعتقادات پر ہے، جس کا ذکر انہوں
نے اپنے اکثر شعری خیالات میں کیا ہے، وہ کہتے ہیں:
؎ قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں
؎ دامن ِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
لہٰذا یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان قوم کی جمعیت مذہب کی قوت سے استحکام پاتی
ہے۔باہمی اتحاد و اتفاق سے مضبوط و مربوط ہوتی ہے۔
|