کلام ِ اقبال میں مطالعہ نباتات
دَربَرگِ لَا لہ و گُل (جلد دوم) مصنف افضل رضوی
افضل رضوی کا میدان عمل ریاضیات ہے لیکن وہ نباتات پر گہری نظر رکھتے ہیں ،
وہ ماہر تعلیم اور استاد ہونے کے ساتھ ساتھ بقائی میڈیکل یونیورسٹی سے شاءع
ہونے والی کتاب ’’دربرگِ لالہ و گل، جلد اوّل کے ذریعے اقبال شناس ہونے کا
عملی ثبوت فراہم کرچکے ہیں ۔ کلامِ اقبا ل میں مظاہرِ فطرت اور مطالعہ
نباتات میں تحقیق وجستجو مصنف کا خاصہ رہی ہے ۔ افضل رضوی کے شوقِ فراواں
کا ثبوت اقبال پر ان کی کتاب کی یہ دوسری جلد بلاشبہ اپنے موضوع کے لحاظ سے
منفرد تصنیف ہے ۔ انہوں نے جمادات ، موسیقی ،صورت گری اور علم نباتات کے
حسن کے اظہار میں اقبال کے اشعار کو موضوعاتی ترتیب میں یکجا کر کے بڑی
خدمت کی ہے ۔ اقبال نے زندگی کے ہر شعبے کو اپنا موضوع بنایا ۔ اقبال نے از
خود کہا کہ انہوں نے اپنے آپ کو شاعرنہیں سمجھا البتہ اپنے نقطہ نظر کے
اظہار کے لیے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ۔ یہاں اقبال کی انکساری اور
عاجزی ہے ۔ جس طرح غالب اپنی شاعری میں یکتا ہے تو اقبا ل کی شاعری میں بھی
نُدرَت ہے ، کمال ہے ،سوز ہے ، عمدگی ہے، انوکھا پن ہے ۔ اقبال نے اپنی
شاعری کے توسط سے اپنے خیالات و افکار کا اظہار جس خوش منظری اور اچھوتے پن
سے کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی ۔ بلا شبہ غالب اور اقبا ل اپنے عہد کے
عظیم شاعر ہیں ۔ انہیں جو عزت و عظمت علم و ادب میں حاصل ہوئی وہ مثالی ہے
۔ دونوں شاعروں پر بہت کچھ لکھا گیا ، لکھا جارہا ہے ۔ ان پر تحقیق کا
سلسلہ جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا ۔ کلام اقبال کی کئی جہتیں ، کئی تہیں
، کئی رنگ، کئی سا ز اور کئی ;200;وازیں ہیں ۔ یہ قدرت کی کرشمہ سازی ہے ،
نعمت خدا وندی ، جو اقبا ل کو اقبال کر گئی ۔
پیشِ نظر کتاب کے موَلف افضل رضوی سائنسداں ، فدائے اقبال،اقبال
شناس،اقبالیات پر تحقیق کے شہسوار ہیں ۔ لاہور شہر کے باسی ہیں ، سڈنی چلے
گئے اور میکائری یونیورسٹی اور پھر ایڈیلیڈ یونیورسٹی آسٹریلیا سے تاریخ ،
ریاضی اورایجوکیشن میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ۔ سائنس میں ریاضی اور فزکس کے
ساتھ ساتھ نباتات ان کا موضوع ہے لیکن اقبال کی سوچ و فکر اور فلسفہ ان کا
خاص میدانِ تحقیق ہے ۔ انہوں نے اپنی موجودہ تالیف میں کلام اقبال میں شامل
تذکرہ نباتات کو موضوع تحریر بنایا ہے ۔ بلا شبہ یہ ایک منفرد تحقیق ہے،
کتاب کی پہلی جلد 2016 ء میں بقائی میڈیکل یونیورسٹی کے شعبہ مطبوعات نے
شاءع کی تھی لیکن میں نے اس کتاب کی باز گشت 2018 ء میں سنی، اُسی سال کتاب
کی تعارفی تقریب بھی منعقد ہوئی جس میں راقم کو شرکت اور کتاب اورخالقِ
کتاب کو دیکھنے ا ور سننے کا موقع ملا ۔ پھر یہ کتاب میرے دوست محمود عزیز
صاحب کے توسط سے بقائی میڈیکل یونیورسٹی کے شعبہ تعلقات عامہ ومطبوعات کے
ڈائریکٹر سید ناصر علی نے تبصرہ کی غرض سے مجھے عنایت کی تو اس کا باریک
بینی سے مطالعہ کیا، اس لیے کہ اقبال کے حوالے سے میرے لیے یہ نرالا اور
اچھوتا موضوع تھا ۔ ہم اقبال شناس اور اقبالیات کے عاشق تو ہیں اسے قومی
ہیرو ، قومی شاعر اور شاعر مشرق کہنے پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں لیکن یہ
موضوع ہمارے لیے بھی نیا تھا ۔ اقبال پر ہمارامطالعہ بہت گہرائی لیے ہوئے
نہیں بس عاشقوں میں شمار کرتے ہیں اپنے آپ کو ۔ اِسی عشق نے افضل رضوی
صاحب کی کتاب جلد اول پر کچھ لکھ دیا تھا جو متعدد جگہ شاءع ہوا ۔ انجمن
ترقی اردو کے ادبی جریدے ’’قومی زبان‘‘ کے صاحب اختیارمدیران نے بھی ہمارے
اس مضمون کو قومی زبان کے شمارہ دسمبر2018 ء کی اشاعت میں شامل کرنے کی
نوید سنائی اور وہ شاءع بھی ہوا ۔ ابھی یہ خوشی چل ہی رہی تھی کہ بقائی
یونیورسٹی کے شعبہ تعلقات عامہ ومطبوعات کے سربراہ سید ناصر علی کتاب کی
جلد دوم کا مسودہ عنایت فرمانے گھر تشریف لائے ۔ پہلی بار ملاقات نہ ہوسکی
دوسری بار عزت بخشی، فرمایا’ یہ افضل رضوی صاحب کی کتاب کی جلد دوم ہے شاءع
ہونے سے قبل آپ کو اس پرکچھ لکھنا ہے‘ ۔ دونوں دوستوں ناصر علی اور محمود
عزیز کی خواہش کا حترام مجھ پر لازم تھا ۔ انکار کی گنجائش تھی ہی نہیں ۔
ناصر صاحب سے مسکنِ قدیم کا تعلق بھی نکل آیا یعنی ان کا بچپن بھی بہار
کالونی میں گزرا اور ہما را بھی ۔ یہی نہیں بلکہ ہم دونوں نے پرائمری تعلیم
یعنی اول تا پنجم کچھ فرق کے ساتھ غازی محمد بن قاسم اسکول ، مسان روڈ سے
حاصل کی ۔ ایسی صورت میں ان کی بات کو کیسے ٹالا جاسکتا تھا ۔ بچپن یا
اسکول کے ساتھی ایسی آکسیجن ہوتے ہیں کہ اگر مل جائیں تو یادوں کے چراغ
پوری آب و تاب کے ساتھ روشن ہوجاتے ہیں ۔
جلد دوم در اصل جلد اول کا تسلسل ہے ۔ جلد اول میں ذکر نباتات اور ان کے
ماخذ کے ساتھ افادیت اور استعمال پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ بقائی یونیورسٹی
کے روح رواں اور چانسلر پروفیسر ڈاکٹر فریدالدین بقائی مرحوم کی رائے میں ’
اقبال کے حوالے سے جو کام کیا اور کتاب ترتیب دی ہے وہ ہر پہلو سے منفرد ہے
۔ اس کا سرنامہ’’ دَر برگِ لالہ و گل‘‘ ہی چونکا دینے والا ہے ۔ ہم سب
اقبال کو شاعر ہی نہیں بہت بلند پایہ شاعر تسلیم کرتے ہیں مگر محترم رضوی
صاحب نے جس طرح نباتات جیسے سائنسی موضوع کے حوالے سے اقبال کو تلاش کیا ہے
اس پر غالب کا یہ مصرعہ ثبت ہوتا ہے ’ آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں
‘ ۔ کلام اقبال میں نباتات کا انتخاب ایک منفرد تحقیق ہے جو نہ صرف مصنف کے
ایک سائنس سے واقفیت ظاہر کرتی ہے بلکہ ادب دانی،ادب شناسی کامظر بھی ہے ۔
خوبصورت و حسین چیزیں جیسے پھول، کلیاں ، پتے، لہلہاتے کھیت، سبزہ زار،
چاند کی چاندنی، سورچ کی کرنیں ، یا اس کے طلوع ہونے یا غروب کا حسین منظر،
بادلوں کا مٹکنا ہویا چٹکنا، بارش کا سماں ہو یاژالہ باری،آبِ بستہ کے
گالے فضا کو حسین بنارہے ہوں ، ستاروں کی جھلملاہٹ ہو یا چاند کی درخشانی ،
قدرت کے حسین مناظراور حسین نظاروں کا لطف اٹھانے، اس کا اظہار کرنے کی
خواہش اقبال کے د ل میں ہمیشہ رہی ۔ وہ کشمیر کے حسن کے بھی عاشق تھے اس
مقصد کو ممکن بنانے کے لئے وہ کشمیر گئے ۔ ا س بات کا ذکر اقبال کے خطوط
میں ملتا ہے کہ وہ کس طرح کشمیر کے حسین نظاروں کا لطف اٹھانے کے لئے بے
چین و مضطرب تھے ۔ ان کا یہ خواب پورا ہوا ، انہوں نے کشمیر کا بھی سفر کیا
اور اس کا ذکر ان کی نظموں میں ملتا ہے ۔ اقبال نے کشمیر کو اس کی خوبصورتی
اور حسن کو زمین پربہشت قرار دیا ہے ۔ کون سی ایسی شے ہے جس کا ذکر اقبال
کے کلام میں نہ ملتا ہو، اقبال کے کلام میں ساٹھ سے زیادہ جانوروں کا ذکر
ملتا ہے ۔ نباتات و جمادات کے حوالے سے اقبال کا کلام بے شمار مجموعوں میں
بکھرا ہواتھا، لوگ پڑھتے بھی تھے، مثالیں بھی دیتے لیکن پودے کے بیجوں ،
ٹہنیوں ، پتیوں ، کلیوں ، پھولوں ، جڑی بوٹیوں ، اشجار اور اجناس غرض
نباتات کے حسن کو اشعار میں ڈھالنے کے فن کو اپنی تحقیق کا موضوع بنانا
مہارت اور عرق ریزی کا کام تھا جسے مصنف نے جانفشانی سے ممکن بنایا ۔ مصنف
نے کلام اقبال میں ذکر نباتات اور ان کے ماَخذ بھی تلاش کیے ہیں جو اس
تحقیقی کام کی ایک اضافی خصو صیت ہے ۔
پیش ِ نظرکتاب کے متن کی تشریح اور وضاحت اگر کی جائے تو یہ بات سامنے آتی
ہے کہ مصنف نے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی شاعری، خطبات اور مکتوبات جن
میں نباتات کے حوالے سے جو کچھ کہا گیا تھا ا س کا تفصیلی مطالعہ کیا، وہ
تمام اشعار جن میں اقبال نے کسی بھی نبات کا ذکر کیا تھا انہیں یکجا کیا ۔
پھر تمام اشعار کو نباتات کے متعلقہ عنوانات کے تحت تقسیم کیا ۔ کسی بھی
اہل علم شاعر یا فلسفی یا حکمران یا کسی مقام کے ذکر کی تاریخی تفصیل کو
حاشیہ میں درج کیا گیا ۔ علامہ کے مکاتیب جو سید مظفر حسین برنی نے مرتب
کیے ان میں نباتات کے ذکر کو بھی کتاب کا حصہ بنایا گیا ۔ علاوہ ازیں ہر
عنوان کے تحت آنے والے اشعار کی وضاحت کے ساتھ ساتھ تشریح بھی کی گئی ہے ۔
اقبال کی شاعری میں نباتات کے علاوہ جمادات جیسے پانی، ہوا ، آگ ، موتی،
گوہر، الماس ، زمرد، یاقوت، لعل اور دیگر قیمتی پتھروں کا ذکر بھی ملتا ہے،
مصنف نے ان کی تفصیل بھی بیان کی ، جمادات کے علاوہ حیوانات کا تذکرہ بھی
اقبال کی شاعری میں ملتا ہے ۔ اس حوالے سے مصنف نے 60 جانوروں کی فہرست
مرتب کی جن کا ذکر اقبال کے اشعار میں ملتا ہے ۔ جلد اول میں مصنف نے لکھا
کہ اقبال سو (100)سے زائد مختلف النواع پھولوں ، پھلوں ، جڑی بوٹیوں ،
اشجار اور اجناس کو اپنے اشعار کی زینت بنایا ہے ۔ ان کی فہرست بھی دی گئی
۔ ان میں سے مصنف نے جلد اول میں جن نباتات و جمادات کوموضوع بنایا ان میں
ارغوان، انگور، افیون، انار، انجیر، ببول،باغ، لالہ، گل، بید، برگ، بوستان،
چمن، چنار، دانہ، گندم ، گھاس، گلِ رعنا شامل ہیں ۔ پیش نظر جلد دوم میں
مصنف نے ’ پھول، تاک، تخم;241;بیج، جھاڑی، چوب، حنظل، حشیش، حنا;223;مہندی،
خش وخاشاک، خیابان، شاخ;223;ڈالی;223;ٹہنی، ریاض، غنچہ، فصل، کلی،
کانٹا;223;خار، گلاب، گلستان گلشن، گلزار، مرغزار، نیستان اور نخل کو موضوع
بنایا ۔ نبات کے اعداد وشمارکی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ ابھی کئی
نباتات ایسی ہیں جن پر تحقیق ہونا باقی ہے ۔ ان میں ’’ پیپل، بوٹا، پودا،
پھل;223;ثمر، تنکا، تخم، رطب، ،چنبیلی، چھلکا;223;فشر، خربوزہ، خرما، خرمن،
خوشہ، درخت;223;شجر، رائی، زعفران، سبزہ، سپند، بیری;223; سدرہ، سرو،
سمن;223;یاسمین، سنبل، سندل، سوسن، شاخ، شعیر;223; صنوبر، طبرخوں
;241;عناب، عود، نارنج، کھجور، کنول، کھیت، کوکنار، پان، پتی، لیموں ،
میووہ، نبات، بوٹا، پلاس، سپاری;223;چھالیا، گردگاں ، نسرین، نرگس، نسترن،
یاسمین شامل ہے ۔ امید ہے مصنف تیسری جلد میں ان کا ذکر اور ان پر تحقیق
کرکے کلام ِ اقبال میں نبات کی تکمیل کریں گے ۔
جلد دوم میں جن نباتات کا ذکر اقبال کے اشعار میں ملتا ہے ان نبات کی خاصیت
اور تفصیل حاشیہ میں بھی الگ الگ بیان کی گئی ہے ۔ ابتدا حسین نبات ’پھول‘
سے ہوئی ہے ۔ مصنف کا کہنا ہے کہ علامہ کی شاعری میں پھول کو حسنِ فطرت کے
بیان میں مرکزی حیثیت حاصل ہے، اردو کلام میں پھول جابجا اپنے حسن کی
رعنائی بکھیرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ فارسی کلام میں انہوں نے پھول کے
مترادف ’گل ‘کثرت سے استعمال کیا ہے ۔ یہاں مصنف نے صرف پھول کا تذکرہ کیا
ہے ، جب کہ گل کی تفصیل جلد اول میں بیان کی ہے ۔ جیسے علامہ کی ایک معروف
دعا بچوں کے لئے ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ ‘ میں ایک مصرعہ
’’جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت‘ ‘حسین ترکیب ہے اور پھول کا منفرد
بیان ہے ۔
ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
حاشیہ میں پھول کی خصوصیت بیان کرتے ہوئے مصنف نے لکھا لہ ’بیج والے پودوں
کا وہ حصہ جس میں تولیدی اعضا ہوتے ہیں ۔ سب سے باہر عموماً سبز پوشے اور
ان کے اندر پنکھڑیاں ہوتی ہیں ، جن کارنگ اکثر بھڑکیلا ہوتا ہے ۔ سب سے
اندر تولیدی اعضا ہوتے ہیں ۔ نر اعضا کے اندر سفوف نما زیرہ ہوتا ہے اور
مادہ عضو سٹگما ، اسٹائل اور اووری پر مشتمل ہوتا ہے ۔ بعض پھول یک جنسی
ہوتے ہیں ۔ اس ترکیب سے نبات کے بارے میں تفصیل اور علامہ اقبال کاشاعرانہ
تخیل ابھر کر سامنے آگیا ہے ۔
اِسی طرح اقبال کی نظم ’’پرندے کی فریاد‘‘، ’’آرزو‘‘، نظم ’’جگنو‘‘ میں
پھول کا استعمال خوبصوتی سے کیا گیاہے ۔
جگنو کی روشنی ہے کاشانہَ چمن میں
یاشمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں
ایک اہم نبات ’ریاض‘ بھی ہے جس کا ذکر اقبال کی شاعری میں ملتا ہے ۔ عربی
زبان میں ریاض ، باغ کے لیے مستعمل ہے ۔ علامہ نے اپنے کلامِ اردواور فارسی
ہر دو زبانوں میں کئی جگہ یہ لفظ باغ کے مترادف کے طور پر استعمال کیا ہے ۔
بانگ درا میں یہ لفظ نو بار آیا جیسے ریاضِ طور، ریاضِ دہر، ریاضِ جنت،
ریاضِ سخن، ریاضِ ہستی، ریاضِ ماوزد، ریاضِ علم اور ریاضِ امہات جیسی دلکش
اور نادر تراکیب کو کمال مہارت سے منظرِ عام پر لایاگیا ہے ۔ بانگِ درا میں
وہ کہتے ہیں کہ اے گل رنگیں ! جیسے میری ہستی اس چمن میں ایک پتے کی سی ہے
اسی طرح تو بھی ریاض ِ طور کا ایک پتا ہے اور ہم دونوں ہی اپنے اصلی وطن سے
دور ہیں ۔ شعر میں اس کا اظہار اس طرح کیا ہے ۔
میری صورت تو بھی اک برگِ ریاضِ طور ہے
مَیں چمن سے دور ہوں ، تو بھی چمن سے دور ہے
تحقیق کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ مصنف نے اقبال کے اردو اور فارسی کلام
میں نباتات کے لئے دیگر زبانوں کے الفاظ کا استعمال بھی خوبصورتی سے کیا ہے
۔ جیسے انگور شاعری میں جابجا استعمال ہوا ہے ۔ علامہ نے انگور کا مترادف
’تاک‘ کا استعمال متعدد جگہ کیا ہے ۔ تاکِ گلشن، شاخِ تاک، تاک ِ من ،رگ
تاکش، رگہائے تاک، مینائے تاک، شیشہ ہائے تاک، تاکِ شاں ،تاکِ سخن، شیشہَ
تاکش، نمِ تاکش، بتاکِ آرزو اور تاکِ نیاگاں جیسی انمول تراکیب استعمال کر
کے اس نباتات کی اہمیت اجاگر کی ہے ساتھ ہی حاشیہ میں ’تاک‘ یعنی انگور کی
بیل کے بارے میں انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا کے حوالے سے نبا تی تحقیق کی
تفصیل بیان کی ہے ۔ اقبال کہتے ہیں ۔
میں شاخِ تاک ہوں ، میری غزل ہے میرا ثمر
مرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر!
گلاب کو پھولوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید
میں بھی کیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے’ پھر جب پھٹ جائے گا وہ گلاب کی طرح‘، مصنف
نے اقبال کی شاعری میں اس حسین نبات کے ذکر کو خاص اہمیت دی اور اقبال نے
گلاب یا اس کے مترادفات جیسے ’گل‘اور ’پھول ‘کا لفظ بھی استعمال کیا ہے ۔
مصنف نے یہاں ان اشعار کو نقل کیا ہے جن میں اقبال نے لفظ ’گلاب‘ کا
استعمال کیا جب کہ حاشیہ میں گلاب کا نباتی تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
گلاب، جنس روزا کا خود رو نیز کاشت کردہ پودا اور اس کا پھول نہایت دلکش
اور خوشبودار ہوتا ہے ۔ مارچ اپریل میں پھول لگتے ہیں ۔ دوسرے پھولوں سے
ممیز کرنے کے لیے ماہرین اسے پھولوں کا بادشاہ کہتے ہیں ۔ اقبال کے اردو،
فارسی اشعار میں گلاب کا استعما ل خوبصورت انداز سے ہوا ہے ۔
بے درد جہانگیری آں قرب میسر نیست
گلشن بگریباں کش اے ’بو بہ گلاب اندر
حلہَ در برسبک تر از سحاب
تار و پودش از رگِ برگِ گلاب
جلددوم میں 24نباتات کا ذکر کیا گیا جنہیں اقبال نے اپنے اشعار میں استعمال
کیا ۔ مصنف نے انہیں مہارت سے متعلقہ نبات کی تفصیل اور اقبال کے اشعار کے
ساتھ نقل کیا ہے ۔ وہ اس مہارت میں کامیاب و کامران رہے جس کے لئے وہ قابل
مبارک باد ہیں ۔ ’درَبرگِ لالہ و گل ‘ جلد دوم افضل رضوی ایسی تصنیف ہے جسے
اقبال شناسی کے حوالے سے ایک مبسوط و جامع تصنیف کہا جاسکتا ہے اور اقبال
پر یہ ایک منفرد ، پرکشش ،قابل ستایش کاوش و تحقیق ہے جس سے مصنف کی سخن
فہمی اوراقبال شناسی کی بصیرت بھی اجاگر ہوتی ہے جس کے لئے مصنف قابل مبارک
باد ہیں ۔ اقبال کے عاشقوں ، اقبال شناسوں ، علم و ادب سے تعلق رکھنے والوں
کے لئے یہ ایک عمدہ تصنیف ہے جسے اقبال کے ہر چاہنے والے کے گھر کی زینت
اور ہر لائبریری میں اس کتاب کی موجودگی اقبال کے حوالے سے عمدہ اضافہ ہوگی
۔
پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
ڈیپارٹمنٹ آف لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس
منہاج یونیووسٹی، لاہور
17دسمبر2018 |