میری انتہائے نگارش یہی ہے
تیرے نام سے ابتدا کر رہا ہوں
نوٹ..1...اگر آپ نے کمال شفقت سے میری اس کاوش نا تمام کو پڑھنا شروع کر ہی
دیا ہے تو پھر میری عرض رہے گی کہ اس کا دوسرا حصہ بھی ضرور پڑھیں کہ اصل
مدعا اس میں ہے
نوٹ ..2...چونکہ یہ آرٹیکل خاص طور پر کالجوں اور یونیورسٹیوں کے بچوں کے
لیے لکھا گیا ہے اس لیے کوشش کی گئی ہے کہ زبان اور لب و لہجہ وہی رہے جو
ان کا ہے جس سے یہ اردو اور انگریزی کا ملغوبہ بن گیا ہے جو یقینا" اسلوب
زبان کے منافی ہے مگر یہ ایک مجبوری تھی....
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
آج ہم اپنی نئی نسل سے شاکی ہیں؛ ہمیں ان سے گلہ ہے کہ وہ مغرب زدہ ہو چکے
ہیں؛ دین سے دور ہو گیے ہیں؛ عجیب و غریب لباس زیب تن کرتے ہیں جو برہنگی
کو نمایاں کرے؛ انگریزی گانوں کی دھن پر تھرکتے ہیں لیکن ہم نے اس کی
وجوہات کو کبھی تلاش کرنے کی کوشش کی ہے ؟...اور کریں بھی کیسے؟ ہم نے اپنے
بچوں اور نئ نسل کو دین بتایا ہی کب ہے؟ اگر ہم اس تجزیے میں پڑتے ہیں تو
اپنے ضمیر کے مجرم ٹھہرتے ہیں...سوال یہ ہےکہ...____________ مغرب جب ففیتھ
جنریشن وار کے ذریعے ہمارے بچوں پر اپنا کلچر حاوی کر رہا تھا اسوقت ہم نے
اس کے مقابلے کے لیے اپنی نسلوں کی حفاظت کے لیے کیا اقدامات کیے؟؟؟ اپنے
مذہب؛ اپنی تہذیب؛ اپنی ثقافت اور اپنی اقدار سے دوری کا عمل کوئ ایک دن
میں تو مکمل نہیں ہوا...اسے مکمل ہونے میں بیس سال سے زیادہ کا عرصہ لگا...
ہم والدین اساتذہ صحافی نشریاتی ادارے میڈیا اہالیان علم و دانش سکالرز
علما حکومتیں ...کیا کسی نے اس ضمن کوئ مربوط کاوشیں کیں؟ اب پھر گلہ
کیسا؟؟
... ہم نے کبھی کوئ سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی کہ اپنے بچوں کو اللہ کا تصور
دیں.. ان کو دین کا روشن چہرہ دکھائیں...
آج کا بچہ ہماری طرح ذہنی غلامی کا شکار نہیں وہ اپنے خیالات میں آزاد ہے
اور وہ کسی بھی بات کو بے دلیل. ماننے کے لئے تیار نہیں....لیکین ہم نے
اپنی ذمہ داری صرف اس حد تک سمجھی کہ اسے مولوی کے پاس ناظرہ قرآن پڑھنے کے
لیے بھیج دیا وہ مولوی جو بے چارہ خود اسلام کے متعلق کچھ نہیں جانتا..جس
نے اسلام کو اتنے حصے بخروں میں تقسیم کر دیا ہے کہ وہاں جا کر بچے کے پاس
سواے اس کے اور کوئ راستہ بچتا ہی نہیں کہ وہ مجبوری کے عالم میں اراکین
دین پورے کرے..... ہم نے نماز سکھا دی..اور بس.....
ہم نے ہمیشہ مذہب اس پر ٹھونسا.... ہمیشہ سے پابند کیا کہ مذہب کے بارے میں
زیادہ سوالات نہ کرے... آپ خود سوچیں کے ایسے میں کوئی بچہ فکری اور قلبی
طور پر کیسے اسلام کی طرف راغب ہو سکتا ہے...
حالانکہ ہمارا تو اللہ فرماتا ہے کہ جو کامیاب ہوا وہ بھی دلیل سے کامیاب
ہوا اور جو ہلاک ہوا وہ بھی دلیل ہی سے ہلاک ہوا....
اب ہماری نسل کے سامنے صورت حال یہ بن گئ کہ ایک طرف اس کے سامنے نطشے؛
ہیگل؛ کینٹ؛ سپنزے؛ ولیم جیمز؛ ڈارون؛ نکوس؛ آئن سٹائن اور سٹیفن ہاکنگ
جیسے Tower of knowledge
کھڑے ہیں تو دوسری طرف مذہب کے ٹھیکیدار وہ علما جو قرآن مقدس کو عربی سے
اردو میں ترجمہ صحیح کرنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے... مذہب کی نہیں اپنی
اپنی انا کی جوجنگ لڑ رہے تھے..جو ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے تھے..پھر
پیر تھے جو مریدوں کی دولت اور عزت دونوں لوٹ رہے تھے..پھر دہشت گرد تھے جو
اللہ کے نام پر بے گناہ انسانوں کا خون بہا رہے تھے..مرنے اور مارنے والا
دونوں شہید قرار دیئے جا رہے تھے.... آپ خود فیصلہ کریں کہ
ایسے میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی ہماری نوجوان نسل کس کا
دامن تھامتی؟ ان لوگوں کا جو ایک منتشر اور متحارب گروپ کے علاوہ کچھ نہ
تھے جن کے پاس اپنے مذہب کے حق میں کوئ دلیل نہ تھی اور محض دباو اور خوف
دلا کر مذہب منوانا چاہتے تھے یا ان کا جو علم کی بنیاد پر دنیا پر راج کر
رہے تھے..جن کے پاس ایک طرف علم کے ہمالیہ تھے تو دوسری طرف دنیاوی زندگی
کی ساری خوبصورتیاں؛ امن؛انسانی عزت و وقار؛ موثر قوانین اور فلاحی ریاستیں
تھیں ..اور دلائل کا انبار...................... قرآن مقدس میں جتنی دفعہ
نماز کا حکم آیا ہے تقریبا اتنی ہی دفعہ حصول علم اور غور و فکر کا حکم بھی
آیا آیا ہے... مگر ہم نے قرآن مقدس کو صرف ایک لفظ کی دس نیکیوں تک محدود
کر کے رکھ دیا ہے... جس کی سزا آج ساری امت بھگت رہی ہے... ایک سروے کے
مطابق جو 27 بڑے اسلامی ممالک میں کیا گیا صرف 30 فیصد لوگ قرآن مقدس کی
تلاوت کرتے ہیں اور ایک فیصد اس کے ترجمہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں....
اگر میں اسی بحث کو آگے بڑھاوں تو بات بہت طویل ہو جاے گی اور پھر یہ میرا
موضوع بھی نہیں بس اپنی نوجوان نسل کے لیے صرف ایک ایسی دلیل پیش کر رہا
ہوں جس کے بارے میں میری خواہش ہو گی کہ وہ علمی اور فکری لحاظ سے اسے
جھٹلا دیں .... اور اگر وہ ایسا نہ کرسکیں تو پھر میرے خیال میں ان کے
سامنے اور کوئی راستہ باقی نہیں بچتا کہ وہ اس بات پر قطعیت کے ساتھ ایمان
لے آئیں کہ اللہ کوئی فرضی وجود نہیں...محض کسی داستان کا حصہ نہین
...انسانوں کے اندر کے خوف کی پیداوار نہیں... بلکہ بغیر کسی شک و شبہ کے
موجود ہے...
☆☆☆☆☆
ظاہر ہے انسان جب آسمان سورج چاند ستاروں دن رات کو دیکھتا تھا تو اس کے
ذہن میں سوالات بھی اٹھتے تھے اور وہ جواب کا متلاشی بھی رہا مگر ابھی اس
کا شعور اتنا پختہ نہ تھا کہ وہ ان امور پر کوئ علمی بحث کرے...
☆ارسطو Aristotle وہ پہلا مفلر تھا جس نے Cosmology کو بطور علم دیکھا اور
اس بارے میں دنیا کو ایک نظریہ دیا جو درج ذیل ہے...
☆ ارسطو نے زمین کو ساکن قرار دیا اور بتایا کہ سورج سمیت تمام بڑے ستارے
(Solar system) اس کے گرد حرکت کرتے ہیں...زمین کی ساخت کے بارے میں اس کا
نظریہ تھا کہ یہ کسی پلیٹ کی طرح flat ہے...
☆ ....اس کے 100 سال بعد یعنی 250 قبل مسیح میں فیثا غورث (Aristarchus )
نے ارسطو کے نظریے کی مخالفت کرتے ہوے کہا کہ سورج ساکن ہے اور زمین اور
دوسرے بہت سارے ستارے اس کے گرد گھوم رہے ہیں...لیکین یونان میں ارسطو کی
شخصیت علمی حوالے سے اتنی قد آور تھی کہ فیثا غورث کا یہ نظریہ مقبول نہ ہو
سکا اور لوگوں نے اسے رد کر دیا ...
********
☆▪▪▪دوسری صدی عیسوی(140ع) میں بطلیموس (PTOLEMY) جو یونان کا ہی ایک ہیت
دان علم ہندسہ اور ریاضی میں اپنے دور کا Tower of knowledge )علم کا
ہمالیہ ) مانا جاتا تھا اور اس نے فلکیات Cosmology پر تحقیق کے لیے اپنی
رسد گاہ بھی بنائ ہوئ تھی؛ نے اپنی کتاب "مجسطی" Ptolomy's Almagest تحریر
کر کے دینا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا...اس نے ارسطو ہی کے نظریے کو دوبارہ
درست قرار دیا اور بتایا کہ سورج ساکن ہے اور ہماری زمین اس کے گرد گھومتی
ہے اس نے ہمارے نظام شمسی کا باقاعدہ نقشہ ترتیب دیا ...... بطلیموس کی یہ
تھیوری بے حد مقبول ہوئ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت کی پوری دنیا نے اس کو
پورے عقل و شعور کے ساتھ تسلیم کیا اور اسےPtemolic theory/system کا نام
دیا گیا...
♧♧♧♧
دنیا 1300سال تک زمین اور سورج سے متعلق Ptemolic Theory کو مانتی
رہی....(اس دوران 1080 میں ایک مسلمان سائنسدان ابو اسحاق ابراہیم (
Arzachel)نے زمین کے بیضوی اور زمین اور سورج دونوں کے متحرک ہونے کا نظریہ
پیش کیا ..اس نے یورپ کا سفر کر کے اس وقت کے سائنسدانوں کے سامنے اپنی
تھیوری رکھی مگر کسی نے اس کی بات پر غور کرنا بھی مناسب نہ سمجھا)
♧♧♧♧
زندگی اپنی تمام تر خوبصورتیوں اور بد صورتیوں کے ساتھ رواں دواں تھی کہ
یورپ کے ایک مشہور سائینسدان کوپر نیکس Nicolaus Copernicus (1473 تا
1543)نے فزکس کی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا...
اس نے 1514 میں ہاتھ سے تحریر کردہ ایک کتابچہ اپنے دوستوں میں تقسیم کیا
جس میں نظام شمسی کے بارے میں ایک نئ theory پیش کی ... جسے Copernican
heliocentrism c کا نام دیا گیا.. یہ بطلیموس کیPtemolic theory کے بالکل
بر عکس یا اس کا رد تھی ...اس کے اہم اجزا درج زیل تھے.....
1...سورج ساکن ہے
2...زمین ساکن نہیں متحرک ہے
3..کائنات کا مرکز سورج یا اس کے نزدیک ترین ہے....
4...زمین اور دوسرے سیاہ گان سورج کے گرد چکر لگاتے ہیں ....
اس نے زمین کے گول یا flat ہونے سے متعلق کوئ بات نہ کی اور دنیا اسوقت تک
زمین کو flat. ہی سمجھتی تھی....
کوپر نیکس نے اس ضمن میں کافی تفصیلات مہیا کیں اور ہمارے نظام شمسی کا
پورا ماڈل پیش کیا.... کوپر نیکس نےے اپنی مشہور زمانہ کتاب De
Revolutionibus Orbium Coelestium" ("On the Revolutions of the Heavenly
Spheres) ... 1532 میں مکمل کر لی تھی؛ (جس میں یہ تھیوری اور تفصیلات درج
تھیں) لیکین اس نے اسے دو وجہ سے خفیہ رکھا کہ ایک تو اسے خدشہ تھا کہ
Ptolomic theory جتنی popular ہے ایسے میں اس کی theory کو کوئ بھی قبول
نہیں کرے گا...اور اس سے بھی زیادہ کہ چرچ اس کی مخالفت کرے گا..( یہ مت
سمجھیں کہ عیسائیوں کے مولوی کوئ ہمارے والوں سے مختلف تھے وہ بھی عقل کے
استعمال کو گناہ کبیرہ ہی سمجھتے تھے اور. چاہتے تھے کہ جو ان کے منہ سے
نکلے اسے درست مانا جاے) .....
تاہم اس نے اپنی موت یعنی 24 مئ 1543 سے صرف دو ماہ قبل یہ کتاب پوپ پال
||| کے حوالے کر دی...اور چالاکی یہ کی کہ اس پر لکھ دیا..
Dedication of the Revolutions of the Heavenly Bodies to Pope Paul III
Nicolaus Copernicus (1543) 1 I CAN easily conceive, most Holy Father,
that as soon as some people learn that in this book which I have written
.........(copied..dedication note is too lengthy therefore I mentioned
only first sentence....{writer})
آپ کی دلچسپی کے لیے یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ بے چارے کی اتنی خوشامد کے
باوجود پوپ نے کتاب خاصی تاخیر سے شائع کی ....اور جب کتاب سامنے آئ تو.
عیسائ ملاوں نے طوفان کھڑا کر دیا..اسے کافر قرار دیا...اور 1616 میں سب سے
بڑے عیسائ مولوی نے اس کتاب پر پابندی لگا دی....
تاہم یورپ اب Dark ages سے نکل چکا تھا اور چرچ کی مخالفت کے باوجود سائینس
سے دلچسپی رکھنے والوں اور اہالیان علم و دانش نے اس theory کو تسلیم کر
لیا.....
کوپر نیکس کی تھیوری اسقدر جامع اور مکمل دلائل پر مبنی تھی کہ دنیا بھر کے
سائنسدانوں نے اسے پورے یقین کے ساتھ قبول کیا اور اس طرح 1300 سال بعد
بطلیموس کی Ptelomic theory کی موت واقع ہو گئ......
********
فرانسیسی سائینسدان Tycho Brahe ...نے کوپر نیکس کی تھیوری کی مخالفت کی
لیکین اس کے بعد آنے والےJohannes Kepler کیپلر (1573 تا 1630)
گلیلیو؛(1564 تا 1642)اور آئزک نیوٹن (1642 تا 1722) نے اس کی حمایت
کی....واضح رہے کہ اسی اثنا یعنی 1608 میں دوربین بھی ایجاد ہو گئی تھی اور
گلیلیو نے 1611 میں اسی دوربین کو مزید بہتر بنا کر اس سے استفادہ کیا...
سائینس کی دنیا میں بے شک گلیلیو ایک بڑا نام ہے۔
************
.☆☆☆.اور آخر کار سائینس کی دنیا کے genius البرٹ آئں سٹائن (1879 تا 1955)
نے 1915 میں اپنی مشہور زمانہ تھیوری Relativity Theory یا Laws of
relativityپیش کر کے فزکس کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا..(.گرچہ یہ کوئ
ایک تھیوری نہیں بلکہ A set of theories ہے جس کا آغاز 1902 میں ہوا اور
اختتام آئن سٹائن کی موت کے ساتھ)...اس کا خلاصہ یہی ہے کہ
All the astronomical bodies are in motion.......
"تمام ارضی و سماوی اشیا حرکت میں ہیں "
اس طرح آئن سٹائن نے بھی کوپر نیکس کی تصدیق کر دی.....
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ آئن سٹائن کا موضوع سورج اور زمین نہیں
بلکہ Time and space تھا اس لیے ایک عمومی اصول کے باوجود
350 سال تک دنیا سورج کو ساکن ہی تصور کرتی رہی اور دنیا بھر کی
یونیورسٹیوں میں یہی نظریہ پڑھایا جاتا رہا......ٹاہم زمین کی ساخت کے بارے
میں نظریہ 16 ویں صدی میں تبدیل ہو گیا.....
♧♧♧♧
☆☆☆ اور آخر کار 2310 سال یعنی 1962 تا 1971 بعد NASA نے خلا میں 8 O.S.O.
بھیج کر سورج کے متحرک ہونے کو تسلیم کر لیا...بعد ازاں NASA نے 2004 سے
دوبارہ اپنی تحقیق ماڈرن سائینسی آلات کی مدد سے شروع کی اور 2016 میں دنیا
کو سورج سے متعلق خاصی معلومات فراہم کیں.
☆☆☆☆☆☆
اور پھر -----آخر کار____________________1929 میں ایڈون ہبل Edwin Hubble
(1893 تا 1953) نے کائنات کے پھیلنے (وسیع تر)
Expanding universe کا نظریہ پیش کر دیا جو اب NASA کے طاقتور سائینسی آلات
سے نہ صرف درست ثابت ہو چکا ہے بلکہ اس عظیم دریافت کے بارے میں عظیم
سائینسدان کے بھی الفاظ ہیں کہ....
"Theory of expansion of universe is the biggest discovery of 20th
century.
☆☆☆☆☆☆☆
□□□□□□□□□□□□□□
کرسٹوفر کولمبس وہ پہلا آدمی تھا جس نے یہ خیال ظاہر کیا کہ زمین گول
ہے..مگر چونکہ وہ محض ایک جہاز راں تھا اس لیے اسوقت کے سائنسدانوں نے اس
کی دلیل کو قبول نہ کیا....................................ماڈرن ہسٹری
میں پرتگال کا سائینسدان فرڈی بینڈ پہلا آدمی تھا تھا جس نے 1522 میں زمین
کے گول ہونے کا نظریہ دیا .......مگر زمین کی اصلی ساخت یعنی Spherical کا
نظریہ ..Pierre Louis Maupertuis (1698 تا 1759) نے 1738میں دیا جس نے
باقائدہ پیمائش کی...تاہم اس ضمن میں حتمی تفصیلات 1960 میں سامنے آئیں ...
♧♧♧♧☆☆☆☆☆☆☆☆☆اگر ان ساری Theories کا خلاصہ سامنے رکھیں تو وہ یوں ہو گا
کہ تمام سائینسدان (سواےء ایک کے جس کا ذکر آگے آے گا) 15ویں صدی تک زمین
کو flat اور 1950 تک سورج کو ساکن سمجھتے رہے ....
_____تاہم اب NASA اور دوسرے ذرائع سے اس امر کے نا قابل تردید ثبوت فراہم
ہو چکے ہیں کہ....
1..زمین کی شکل بیضوی ہے
2 ..سورج ساکن نہیں بلکہ متحرک ہاور اب یہ بات NASA کی طاقتور ترین
دوربینوں اور دوسرے ذرائع سے ثابت ہو چکی ہے کہ
کہ سورج خود بھی ایک اندازے کے مطابق کم وبیش 200-220 کلو میٹر فی سیکنڈ کی
رفتارسے گردش کرتا ہے اور اس کے گرد گردش کرنے والا سارا نظام اس کے ساتھ
ساتھ اسی اسپیڈ سے اپنے اپنے مداروں میں گردش کرتا ہے۔ سورج کو ایک چکر
پورا کرنے میں 22 کروڑ60 لاکھ سال لگ جاتے ہیںے اور یہ دوہری گردش کرتا ہے
3..کائنات وسیع تر ہوتی جا رہی ہے
♧♧♧♧♧♧♧♧♧♧♧♧
میں سائینس کا طالب علم ہوں نہ میرا مقصد یہاں فزکس کی Theories بیان کرنا
ہے لیکین جو بات میں نے کہنی ہے اس کے لیے اختصار سے ان تفصیلات کا آپ کے
علم میں لانا ضروری تھا...
○○○○○○○○○○○○○○○
اب اس سے آگے بہت دلچسپ بات شروع ہوتی ہے
⚘⚘⚘⚘⚘⚘
اب میں براہ راست اپنے حرف مدعا کی طرف آتا ہوں...
*****************
اس 2250 سالہ عرصے (350 قبل مسیح تا 1900) کے تقریبا" وسط یعنی 610 تا 633
عیسوی میں بھی زمین اور سورج سے متعلق ایک تھیوری بلکہ Scientific Laws
تحریری صورت میں دنیا کو دیئے گیے ...ان Scientific Laws کے کچھ دلچسپ پہلو
حسب ذیل ہیں....
☆ جس شخصیت نے یہ Scientific Laws دنیا کے سامنے رکھے اس کا فزکس تو کیا
سائینس کے کسی مضمون بلکہ کسی بھی علمی مضمون سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا..
☆ وہ سرے سے لکھنا پڑھنا جانتا ہی نہ تھا...
☆ اس نے کبھی کوئ غیر ملکی سفر کیا نہ کبھی اپنے ملک میں اہالیان علم کی
مجالس میں شامل ہوا..
☆ اس عظیم انسان کے بتانے پر ان Laws کو قلمبند کیا گیا..
☆ یہ تمام قوانین تحریری صورت میں ایک کتاب میں آج بھی موجود ہیں..
☆ صاحب کتاب نے مذکورہ کتاب کو اپنے نام سے منسوب نہیں کیا بلکہ کسی اور
ہستی سے منسوب کیا..
☆ سب سے عجیب اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے باوجود کہ صاحب کتاب کا سائینس
کے ساتھ ذرا سا بھی تعلق نہ تھا اس نے پوری دنیا کو چیلنج دے دیا کہ جو
Laws میں بتا رہا ہوں یہ حتمی اور نا قابل تردید ہیں...سائینس کی دنیا میں
اس سے قبل ایسا کوئ چیلنج موجود نہ تھا...
☆ مذکورہ تھیوری کسی بھی مغربی سائینس داں یا فلاسفر کی کسی کتاب میں آپ کو
نہیں ملے گی..جب کہ اس بات کی تردید نا ممکن ہے کہ یہ اصول ساتویں صدی میں
دیے گیے اور یہ تب سے اب تک من و عن موجود ہیں...
☆ اور یہ بھی نہیں کہ مغربی دنیا کے سائنسدانوں اور اہل فکر کو اس بارے میں
بتایا نہیں گیا..... 1016 میں ابراہیم نامی سائینسدان نے پوری وضاحت کے
ساتھ بتائ...لیکین نا معلوم وجوہات کی بناء پر اسے سائینسی تاریخ
Scientific history کا حصہ نہین بنایا...شاید یہ تعصب کی وجہ سے ہوا..یا
پھر چرچ کے دباو کی وجہ سے....
آپ یقینا" بہت بے چین ہوں گے کہ اس عظیم صاحب کتاب اور ہستی کا نام جان
سکیں جس نے یہ Laws دیئے لیکین میں چاہتا ہوں کہ تھیوری کا اصل ٹیکسٹ آپ کے
سامنے رکھنے سے پہلے اپنی زبان میں مختصرا" اس کے اہم اجزا بیان کر
دوں...(یہاں میں یہ بات آپ کے علم میں لانا ضروری سمجھتا ہوں کہ مذکورہ
کتاب میں صرف یہی دو سائینسی اصول موجود نہیں اور بھی بہت سارا سائینسی
مواد موجود ہے مگر یہاں موضوع بحث صرف زمین کی ساخت اور شور کے ساکن یا
متحرک ہونے کی ہے
☆☆☆☆☆☆☆☆☆
1.That all the astronomical bodies are moving. (of course Sun is
included )
2..That universe is expanding
3..Every astronomical object has an orbit and it moves in its orbit.
4...Sun and moon both move with different speed but their inter distance
remains the same.
6...Earth is spherical, like a Gobbler's egg. (Not flat)
1..تمام اجرام فلکی متحرک ہیں..(ظاہر ہے سورج بھی ان میں شامل ہے)
2..ہماری کائنات وسیع ہو رہی ہے
3.... تمام سیاروں اور ستاروں کا اپنا اپنا محور ہے جس پر وہ حرکت کرتے ہیں
اور اپنے محور سے ذرا ادھر ادھر نہیں ہوتے..
4...سورج اور چاند دونوں متحرک ہیں لیکین ان کا باہمی فاصلہ برقرار رہتا
ہے..
5.. سورج کی حرکت دو انداز میں ہوتی ہے
6... زمین کی شکل بیضوی ہے۔ شتر مرغ کے انڈے کی مانند...
◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇
ا______________________
سوال یہ ہے اب جب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ زمین کی ساخت بیضوی spherical ہے؛
سورج ساکن نہین بلکہ متحرک ہے اور کائنات وسیع تر ہو رہی ہے اور ان تینوں
باتوں میں کوئ ابہام نہیں رہا تو اس کا کریڈٹ کس کو دیا جاے؟؟
1...کوپر نیکس کو جس نے زمین کی ساخت اور ہمارے سولر سسٹم کا قافی حد درست
اطلاعات جو ہمارے نظام شمسی Solar system سے متعلق خاصی درست اطلاعات 1541
میں فراہم کیں تاہم سورج کے معاملے میں وہ بھی غلطی کر گیا اور سورج کو
ساکن قرار دیا...
2. گلیلیو؛ کیپلر یا آئزکنیوٹن کو جنہوں نے 16ویں 17ویں اور 18ویں صدی میں
کوپر نیلسن کی بات کی تصدیق کی...تاہم سورج کو ساکن ہی قرار دیا....
3..عظیم سائینسدان البرٹ آئن سٹائن کو جس نے 20ویں اور اکیسویں صدی میں Law
of relativity دیئے ...اور تمام اجرام فلکی کی حرکت کا خبر یہ دیا..
4..فرڈی بینڈ کو جس نے 1522 یعنی 16ویں صدی میں زمین کے گول ہونے کا نظریہ
دیا
5..ایڈون ہبل Edwin Hubble کو جس نے 1929 میں کائنات کی وسعت کا نظریہ دیا
6....امریکہ کے مشہور زمانہ تحقیقاتی ادارے NASA کو جنہوں نے حتمی طور پر
سورج کی حرکت سے متعلقہ اطلاعات فراہم کیں ......
OR یا
اس شخصیت کو جس نے 7ویں کے اوائل 610 تا 633 صدی عیسوی میں زمین کو بیضوی؛
سورج کو متحرک اور Expanding universe (پھیلتی ہوئ کائنات ) کے بارے میں
نہایت دو ٹوک انداز میں دنیا کو بتایا اور ساتھ یہ چیلنج بھی دیا کہ یہ
بالکل درست ہیں اور ان Scientific Laws میں تبدیلی کا کوئ امکان نہیں.....
جواب تو بڑا سیدھا سادہ ہے کہ جس شخصیت نے دوسرے عظیم سائنسدانوں سے
بالترتیب 900؛ 1000؛ 1100؛ 1200؛ اور 1300 اور NASA سے بھی 1400 سال پہلے
وہی کچھ بتا دیا جو ان سائنسدانوں نے 16ویں تا 21ویں صدی کے درمیان
بتایا.....
Question is very simple...WHO IS TRUE??? The man who told in the start
of 7th century about the shape of earth, its movement, declared the Sun
a moving object and about expanding universe??? OR..._____________
Those scientists who with the help of modern most scientific equipment,
proved all these three facts gradually from 16th to 21st century?
Answer is 2+2, ultimately THE MAN WHO TOLD 700-1400 YEARS BEFORE ALL
THESE SCIENTISTS.
♧♧♧♧♧♧♧♧♧♧
میرا خیال ہے کہ کوئ بھی انسان جو اپنے ہوش و حواس میں ہو؛ خواہ کسی بھی
خطے سے تعلق رکھتا ہو اور کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو اس کے پاس اس کے
علاوہ کوئ جواب ہو ہی نہیں سکتا کہ.........
سارا کریڈٹ اس شخصیت کو جاتا ہے جس نے پھیلتی ہوئ کائنات؛ متحرک سورج اور
بیضوی زمین spherical earth کے بارے میں 610 اور 633 عیسوی کے دوران
دیا...اس لیے کہ تاریخ کے صفحات میں یہ حقیقت اتنی روشن ہے کہ اس سے انکار
ممکن نہیں ....
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
اب تک اوپر کی گئ ساری بحث سے ہم منطق ؛ فلسفہ؛ عقل؛ شعور اور دلائل کو
استعمال کرتے ہوے حسب ذیل نتائج اخذ کرتے ہیں ..
○...جس کتاب میں یہ اصول درج ہیں اور اس کتاب کی تاریخی حثیت بھی ثابت ہے
کہ یہ کتاب عین وہی ہے جس سے صاحب کتاب نے دنیا کو یہ علوم دیئے ؛ تو پھر
کسی کے پاس یہ تسلیم کیے بغیر کوئ چارہ ہی نہین کہ وہ پوری کتاب کو درست
مانے یا اس کے کسی chapter کے کسی بیان کو غلط ثابت ....
○....دنیا صاحب کتاب کے نام سے اچھی طرح آشنا ہے اور اگر وہ شخصیت یہ مان
لیتی کہ یہ میری ذاتی کتاب ہے تو مسلہ حل ہو جاتا...
○...مگر مسلہ یہ ہے کہ وہ شخصیت بار بار ؛ واضح اور دو ٹوک الفاظ میں اس
کتاب سے اپنا تعلق ایک امانت دار کا سا ظاہر کرتی ہے اور اس کتاب کا خالق
کسی اور ہستی کو قرار دیتی ہے...
○...عقلی طور پر بھی یہی بات سمجھ آتی ہے کہ ایک شخص جس کا سائینس تو کیا
کسی علمی مضمون سے کوئ تعلق نہ تھا بلکہ وہ تو سرے سے لکھنا پڑھنا ہی نہیں
جانتا تھا؛ کیونکر ممکن تھا کہ وہ اس وقت جب پوری دنیا اس ضمن میں بالکل
متضاد نظریات رکھتی ہو اور وہ یہ نظریات پیش کرے اور وہ بھی پورے وثوق کے
ساتھ....
○....جب دو باتیں نا قابل تردید حقیقت کے طور پر ثابت ہو گئ ہیں...کتاب اور
صاحب کتاب..تو پھر ہمارے سوال کا جواب کہ وہ ہستی/طاقت کون ہے( جس نے اتنے
زبردست انکشافات بغیر کوئ سائینسی آلہ استعمال کیے کہ جن کو سمجھنے کے لیے
سائنسدانوں کو ہزاروں سال لگے اور وہ بھی ریڈیائی دوربینوں اور دوسرے
سائینسی آلات سے)؟ بھی اسی کتاب اور صاحب کتاب ہی سے ملے گا....
یہاں یہ بات نوٹ فرما لیں کہ مسلہ صرف ان تین باتوں کا نہیں ہماری پوری
universe کا ہے جس میں معلوم شدہ (observable ) کہکشاں glaxies کی تعداد
100 بلین ہے اور ہماری کہکشاں Milky way جو باقی glaxies کے مقابلے میں
چھوٹی سمجھی جاتی ہے اس میں 100 بلین ستارے اور سیارے ہیں جبکہ ستاروں اور
سیاروں کی مجموعئ تعداد کا اندازہ حسب ذیل ہے..
There are about 1,000,000,000,000,000,000,000stars in space, or about 10
raised to the 21 (10 21 power, roughly. {Copied...writer...}
مختصر ترین الفاظ میں اگر بات کریں تو اب تک لی معلوم تعداد 70 بلین ٹریلین
کے قریب ہے....
_______بات اس سے بھی پیچیدہ ہے..یاں 70 بلین ٹریلین ستاروں /سیاروں میں ہر
ایک اپنے مدار orbit میں حرکت کر رہا ہے اور اگر وہ اپنے مدار سے ذرا سا
بھی ہٹ جاے نہ جانے کیا ہو...
بس ایک مثال پیش کیے دیتا ہوں...زمین سورج کے گرد جب گردش کرتی ہے تو ہر 18
میل کے بعد یہ اپنے محور سے 2.8ملی میٹر ہٹ جاتی ہے۔ وہ مدار جس پر زمین
گردش کرتی ہے وہ کبھی نہیں بدلتا۔ اس لیے کہ 3ملی میٹر کا انحراف بھی تباہ
کن نتائج پید ا کردے گا، اگر یہ انحراف 2.8کے بجائے 2.5ملی میٹر ہوتا تو
پھر مدار بہت بڑا ہو تا اور ہم سب یخ بستہ ہو جاتے۔ اگریہ انحراف 3.1ملی
میٹر ہوتا تو ہم گرمی سے جھلس کر مر جائیں گے...
اور یہ ان 70 بلین ٹریلین اجرام فلکی میں سے ہر ایک کا یہی اصول ہے
اور اب وقت آ گیا ہے کہ میں اس عظیم کتاب اور عظیم انسان کا انکشاف
کروں....
|