مسلم ممالک کا جدید ترین نقشہ اپنے سامنے رکھ کر تھوڑی
دیر غور و تدبر کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ نیل کے ساحل سے لیکر تابخاکِ
کاشغر سارے مسلمان ممالک تاریخ کے بدترین خلفشارکا شکار ہیں۔ بدامنی کے
ساتھ ساتھ سیاسی و معاشی بحران روز بروز بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ان ممالک
میں بسنے والے باشندے ان دگر گوں حالات کی وجہ سے ذہنی کوفت میں مبتلا ہیں۔
لمحہ فکریہ یہ بھی ہے کہ تیل اور قدرتی نعمتوں سے مالا مال مسلمان ممالک
کیوں کبھی ترقی یافتہ بن سکے اور نہ ہی سائینس و ٹیکنالوجی میں خود کفیل ہو
سکے۔ بلکہ اب صورت حال یہ ہے کہ چند سال پیشتر تک جو مسلمان ممالک تیل اور
معدنیات کی فراوانی کی وجہ سے امیر کہلاتے تھے، وہاں اب غربت کا دور دورہ
ہے۔ اگر ہم ماضی قریب میں جھانک کر دیکھیں تو لگتا ہے کہ افغانستان کے
ہاتھوں سوویت یونین کی شکست کے بعد عالمی سامراج کے لئے سب سے بڑا خطرہ
”نظریہ اسلام“تھا۔ مستقبل میں غلبہ اسلام کے خوف سے،ایک سوچے سمجھے منصو بے
کے تحت ایسی مسلم ریاستوں کو عدم استحکام کا شکار کیاگیا جو کسی بھی وقت
مسلم دنیا کے اہم ترین مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتی تھیں۔
یا ترقی کر کے اسلام کی عظمت رفتہ کی بحالی کا سبب بن سکتی تھیں۔ مسلم
ممالک کے دینی شعور سے عاری اور لبرل نظریات کے حکمرانوں کو استعمال کرکے
مسلم امہ کو اندرونی اختلافات اور مسائل میں الجھا یا گیا جس کا وہ بآسانی
شکار بھی ہوئے۔ قبلہ اول کی پکار آج بھی گونج رہی ہے کہ کیا مسلمان ممالک
میں ماضی کے مسلمان قائدین کی طرح آج کوئی بھی نہیں جو بیت المقدس کی آزادی
کیلئے بھرپور کردار ادا کر سکے۔اب تو سب مسلم ممالک اس طرح اندرونی و
بیرونی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں کہ ہر ایک کو اپنے ہی لالے پڑے ہیں۔ قومیت
پرستی کے عفریت نے اسلام کے تصور وحدت و اخوت کو تار تار کر کے رکھ دیا ہے۔
نتیجہ یہ کہ ایک طرف آپس کی باہمی لڑائیوں اور دوسری طرف دشمنان اسلام کی
ریشہ دوانیوں نے مسلمانوں کو بربادی کے اندھے کنویں میں دھکیل دیا
ہے۔مسلمانوں کی ان کمزوریوں اور افتراق نے بھارت اور اسرائیل جیسے ممالک کو
اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود کشمیریوں اور فلسطینیوں پر ہر قسم کے
ظلم و ستم کی کھلی چھٹی دے دی ہے۔ اسی طرح گزشتہ چند دہائیوں سے برما
(میانمار) میں روہنگیا مسلمانوں پر بھی زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ 2012 سے
برمی فوج اور بدھ مت سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے مسلمانوں کے خلاف
قتل و غارت اور ظلم و ستم کا وہ بازار گرم کیا جس کی کوئی مثال نہیں
ملتی۔مالدیپ جیسے چھوٹے سے ملک نے برما کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم کر دیئے۔
ترکی کے طیب اردگان نے ہمیشہ کی طرح ایک مسلمان کا کردار ادا کرتے ہوئے
برما کی حکومت کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ لیکن اپنے ان مظلوم بھائیوں کو
ظلم و ستم سے نجات دلانے کیلئے باقی مسلمان ممالک کوئی قابل قدر کردار ادا
نہیں کر سکے۔ اسوقت مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار نے تاریخ کا بد ترین ظلم و
ستم بپا کیا ہوا ہے۔ حقوق انسانی کی سخت خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ ہماری
بیٹیاں کسی محمد بن قاسم یا صلاح الدین ایوبی کو پکار رہی ہیں لیکن اس کے
باوجود مسلم حکمرانوں کی زبانیں گنگ ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت
کے ساتھ عرب ممالک کی طرف سے 100ارب ڈالر کی سالانہ تجارت کے معاہدے مسئلہ
کشمیر پر ردِعمل دینے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔اسی وجہ سے تمام عرب ممالک جن
میں سعودی عرب، دوبئی، عمان، قطر،خلیجی ریاستیں اور کویت شامل ہیں نے،
کشمیریوں پر بھارتی مظالم پرکوئی مستحسن قدم اٹھایا اور نہ ہی کوئی عملی
اقدام کیا۔ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے
بعد بھارتی فوج کی جانب سے وادی میں کرفیو اور مظالم پر عرب ممالک خاموش
ہیں اور متحدہ عرب امارات نے مقبوضہ جموں وکشمیرکی صورتحال پر صرف
اظہارتشویش کا پیغام دیا ہے جبکہ سعودی عرب نے بھی صرف یہی کہا ہے کہ وہ اس
معاملے کو بغور دیکھ رہے ہیں۔اس کے ساتھ ہی سعودی عرب نے بھارت میں 75 ارب
ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے جس کی وجہ سے اب سعودی عرب
نے اپنے آپ کو مزید جکڑلیا ہے۔معاہدے کے مطابق سعودی کمپنی آرامکو کی جانب
سے بھارتی کمپنی ریلائنس کے 20 فیصد شیئرز خریدے جائیں گے، یہ بھارت کی
تاریخ کی سب سے بڑی بیرونی سرمایہ کاری ہوگی۔ گزشتہ دنوں متحدہ عرب امارات
نے بھارتی سفارتی مشنز کے باہر کشمیریوں کے حق میں احتجاج کرنے پر پابندی
بھی عائد کردی ہے۔ اس صورت حال میں او آئی سی کا کردار بھی ہمیشہ کی طرح
بزدلانہ ہے۔ سوائے اکا دکا مبہم سے بیان کے کچھ نہیں کیا۔ ہم”امت مسلمہ“ کے
گن تو بہت گاتے ہیں لیکن عرصہ دراز سے عملی طور پر کہیں نظر نہیں آتی۔ اگر
صرف پچھلے بیس سال کے احوال و واقعات دیکھیں تو سامنے نظر آتا ہے کہ کس طرح
چن چن کر مسلمان ممالک کو تاخت و تاراج کیا گیا۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ
مسلمان ریاستیں اور حکمران اس سے کوئی سبق نہ سیکھ سکے۔ اک طرف بے حسی کا
یہ عالم اور دوسری طرف باہمی دست و گریباں امت مسلمہ کی نظریں اقوام متحدہ،
لندن اورواشنگٹن پر تو مرکوز ہیں لیکن وہ اپنی قوت سے آگاہ ہے اور نہ ہی
اپنی منصبی زمہ داری کی طرف متوجہ۔ نتیجہ یہ کہ مسلمان بتدریج اپنے وقار کی
حقیقی منزل سے ہٹ گئے اور تنکا تنکا ہوکر طوفانِ حوادث کاشکارہوچکے ہیں۔
اگر ہم اپنی عزت بحال کرنا چاہتے ہیں۔شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال رح کا
اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا خواب پورا کرنا چاہتے ہیں۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم
روز محشر اللہ کریم اور اس کے پیارے رسولﷺ کے سامنے سُرخرو ہوں۔ اگر واقعی
ہمارا ارادہ ہے کہ بطور مسلمان دنیا میں ہمارا سر فخر سے بلند ہو نہ کہ
شرمندگی سے جھکے تو پھر قرون اولی کے اہل ایمان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے،
اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر ہی ہم ان گہری کھائیوں میں گرنے سے بچ
سکتے ہیں۔ بقول اقبال
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر
|