تھکن زدہ رُوح

خوشی کا تعلق دل سے ہوتا ہے اور جب دل ہی ہر شے سے اُچاٹ ہو جاۓ تو پھر رُوح تھکنے لگتی ہے کائنات کہ خوشنما رنگ بھی پھیکے لگنے لگتے ہیں. دل کو کہیں بھی سکون میسر نہیں آتا اور بے سکونی جان کا عذاب بن کر ہم سے چمٹ جاتی ہے. دن رات بےکیف سے لگتے ہیں. کسی کام کہ کرنے میں دل ہی نہیں لگتا حتٰی کہ نمازوں میں بھی وہ سکون نہیں ملتا جیسے اس سے پہلے ملا ہوتا ہے. پہلے سجدے طویل ہوا کرتے تھے اور اب محض اُٹھک بیٹھک معلوم ہوتے ہیں. دُعا مانگنے کہ لیے ہاتھ پھیلاؤ تو یوں لگتا ہے جیسے لفظ کہیں کھو گۓ ہو الفاظ گُڈ مڈ ہونے لگتے ہیں. بس پھر جلدی جلدی بنا کُچھ مانگے ہی ہاتھ چہرے پر پھیر کر اور مصلے کو اُس کی جگہ پر رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں. جب نماز دل سے پڑھی ہی نہ گئ ہو تو پھر سُرور کہا آۓ گا؟ سکون کیسے ملے گا؟ رب سے ملاقات کا مزہ کیسے آۓ گا؟

یہ جو رُوح کی تھکن ہوتی ہے یہ بڑی ہی وہشت ناک چیز ہے. دل بوجھل سا ہی رہتا ہے اسے کہیں قرار نہیں آتا. سبب اس کا شاید کوئ ایسا کام کا کرنا ہے جو ربِ تعالٰی کو ناپسند ہے اور ہم اپنی نفس کی خواہش کہ ہاتھوں مجبور ہو کر جاتے ہیں پہلی بار میں میں ہمیں ضمیر اُس کام کہ کرنے سے روکتا ہے مگر ہم خواہش کہ زیرِ اثر یہ سوچ لیتے ہیں کہ یہ پہلی اور آخری دفعہ ہے اس کہ بعد ایسا کبھی نہیں ہو گا مگر سچ یہ ہے کہ وہ پہلی بار ہی شروعات ہوتی ہے اس کہ بعد یہ سلسلہ آہستہ آہستہ چل پڑتا ہے اور گناہ معمول بن جاتا ہے ہر بار کوئ ایسا گناہ کر جاتے ہیں جس کو کرنے کہ بعد اللہ سے معافی بھی طلب کرتے ہیں دکھ بھی ہوتا ہے خود پر غصہ بھی آتا ہے خود کو ضمیر کی عدالت میں بھی کھڑا پاتے ہیں مگر وہ محض ایک وقتی پشیمانی ہوتی ہے اور اس کہ بعد بندہ پھر اپنے رب کو بھول جاتا ہے وہ سمجھتا ہے استغفار اور توبہ نے اُسے بچا لیا ہے اللہ کہ ہاں سے معافی مل گئ ہے. اور بے شک رب تو ہے ہی مہربان وہ معاف کر بھی دیتا ہے وہ تو یاد رکھتا ہی ہے اپنے ہر بندے کو بس بندہ ہی بھول جاتا ہے اپنے رب کو اور بس بار بار گُناہ کرتا ہی چلا جاتا ہے. ہر بار گناہ کر کہ اور پھر معافی مانگ لینا یہ اپنی عادت بنا لیتا ہے. لیکن پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ ان سب باتوں کا اتنا عادی ہو جاتا ہے کہ پھر گُناہ اسے گناہ ہی نہیں لگتا. اور وہ جو ضمیر کی عدالت لگتی تھی وہ بھی اب نہیں ہوتی . یعنی شاید وہ اپنے ہاتھوں ہی خود کہ لیے توبہ کہ دروازے بند کردیتا ہے اور اپنے سوۓ ہوۓ ضمیر کو جگانے کی کوشش ترک کر دیتا ہے.. اور شاید اس سے زیادہ گھاٹے کا سودا دنیا میں کوئ نہیں ہو گا کہ دنیا کہ ساتھ ساتھ اپنی آخرت بھی تباہ کر لی جاۓ.

رُوح کی تھکن اُتارنی ہے تو رب سے رُجوع کرنا ہو گا دل کو گمراہی کہ راستے سے ہٹا کر نیکی کہ راستے پر چلانا ہو گا نفس کو کُچل کر آگے بڑھنا ہو گا ضمیر کو پھر جگانا ہو گا سجدوں کو طویل کرنا ہو گا رب سے ہدایت مانگنی ہو گی اور رُوح کو پھر سے زندہ کرنا ہو گا.

 

Hira Umair
About the Author: Hira Umair Read More Articles by Hira Umair: 6 Articles with 9049 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.