ایک تحقیق کے مطابق 35 برس کی عمر کو پہنچنے کے بعد لوگوں
کو چاہیے کہ وہ اپنے بلڈ پریشر پر نظر رکھیں کیونکہ یہ بعد کی زندگی میں
دماغی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔
|
|
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دماغی صحت کو محفوظ رکھنے کے لیے ’امید کی کرن‘
30 کے وسط سے شروع ہوتی ہے اور 50 کے اوائل تک چلتی ہے۔
1946 میں پیدا ہونے والے 500 افراد پر کی گئی ایک تحقیق میں دیکھا گیا ہے
کہ زندگی کے وسطی سالوں میں زیادہ بلڈ پریشر کی وجہ سے بعد میں خون کی
شریانوں کو نقصان پہنچتا ہے اور دماغ سکڑ جاتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ 30 اور 40 کے انتہائی نازک دور میں بلڈ پریشر دماغ کو
زیادہ نقصان پہنچانا شروع کر دیتا ہے۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ زیادہ بلڈ پریشر کو ڈیمنشیا یا ذہنی جبلتوں کے
انحطاط کے زیادہ خطرے سے جوڑا جا رہا ہے، لیکن سائنسدان زیادہ جاننا چاہتے
تھے کہ ایسا کب اور کیوں ہوتا ہے۔
لانسٹ نیورولوجی میں چھپنے والی اس تحقیق میں شامل ہونے والے لوگوں کے پوری
تحقیق کے دوران بلڈ پریشر لیے گئے اور برین سکین بھی کیے گئے۔
36 اور 43 سال کی درمیان کی عمر کے لوگوں میں دیکھا گیا کہ بلڈ پریشر میں
اضافے کا تعلق دماغ کے سکڑنے سے ہے۔
جوں جوں عمر بڑھتی ہے ہر شخص کا دماغ سکڑنے لگتا ہے لیکن جن لوگوں میں
ویسکولر ڈیمنشیا جیسی دماغی بیماریاں ہوتی ہیں ان میں یہ زیادہ نظر آنا
شروع ہو جاتا ہے۔
اگرچہ جن لوگوں پر تحقیق کی گئی ان میں آگہی یا شعور میں خرابی کے کوئی
آثار نہیں پائے گئے، تاہم تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ اکثر اس کے بعد دماغ
سکڑنا شروع کر دیتا ہے، اس لیے وہ آنے والے برسوں میں ان لوگوں پر نگاہ
رکھیں گے تاکہ اس کے آثار مانیٹر کیے جا سکیں۔
|
|
43 اور 53 سال کی عمر کے درمیان زیادہ بلڈ پریشر کا تعلق بھی 70 سال کی عمر
میں پہنچنے کے بعد لوگوں کی خون کی شریانوں کو نقصان پہنچنے اور ’منی سٹروک‘
سے دیکھا گیا ہے۔
اس تحقیق کے سربراہ یونیورسٹی کالج لندن کے کوین سکوائر انسٹیٹیوٹ آف
نیورولجی کے پروفیسر جوناتھن سکاٹ ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ’ہماری 30 کی عمر میں ہونے والے بلڈ پریشر کے چار دہائیاں بعد
بھی دماغ صحت پر برے اثرات نظر آتے ہیں۔ عمر کے بعد کے حصوں میں دماغی صحت
کو بہتر بنانے کے لیے مانیٹرنگ اور علاج کا اصل ہدف مِڈ لائف ہی ہونی
چاہیئے۔‘
پروفیسر سکاٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’این ایچ ایس کے ہیلتھ چیکس 40 سال
کی عمر میں کیے جاتے ہیں۔ ہمارا ڈیٹا تجویز کرتا ہے کہ بلڈ پریشر کو بہت
پہلے مانیٹر کیا جانا چاہیئے۔‘
یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے پروفیسر آف کارڈیو ویسکیولر میڈیسن پال لیسن کہتے
ہیں: ’ہمیں کافی عرصے سے معلوم تھا کہ جن لوگوں کو بلڈ پریشر ہوتا ہے بعد
کی زندگی میں ان کا دماغی ڈھانچہ بھی مختلف ہو سکتا ہے۔
’ڈاکٹر اس بات پر تحقیق کر رہے ہیں کہ کیا نوجوانوں میں ہائی بلڈ پریشر کا
علاج کر کے ان کے دماغ میں تبدیلیوں کو روکا جا سکتا ہے۔‘
’اس کا متبادل جو ہم آج کل کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ بڑی عمر میں پہنچنے کا
انتظار کریں اور ہائی بلڈ پریشر کو سنجیدگی سے لیں کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ
اس وقت تک زیادہ شدید دماغی تبدیلیاں یقیناً وقوع پذیر ہو رہی ہوں گی۔‘
یہ نتائج بتاتے ہیں کہ زنگی میں ایک ایسا نازک دور ضرور آتا ہے جیسا کہ 30
یا 40 سال کی عمر میں، جب ہائی بلڈ پریشر دماغ کو پہنچنے والے نقصان میں
اضافہ کرتا رہتا ہے۔
الزائمر ریسرچ یوکے کے ڈائریکٹر ریسرچ ڈاکٹر کیرول رؤٹلیج کہتے ہیں کہ مڈ
لائف میں ہائی بلڈ پریشر ڈیمنشیا کے لیے سب سے مضبوط خطرات میں سے ایک ہے
لیکن اسے آسانی سے مانیٹر کر کے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
تحقیق یہ پہلے ہی بتاتی ہے کہ حالیہ برسوں میں ہائی بلڈ پریشر کے جارحانہ
علاج سے بڑی عمر کے افراد کی دماغی صحت بھی بہتر ہو رہی ہے۔
|