انسان کی من مانی اﷲ کی نافرمانی

 رشتے اور تعلق اﷲ نے انسان کے لیے بنائے ہیں۔ اس میں انسان کے لیے اس وقت کا فائدہ اور سہولت موجود ہوتی ہے جس کا انسان جوانی اور طاقت میں ادارک نہیں رکھتا۔ جیسے اولاد انسان کے لیے بڑھاپے کا سہارا ہوتی ہے مگرجوانی میں انسان کی طاقت بڑھاپے کی کمزوری کا اندازہ نہیں رکھتی حالانکہ بڑھاپے کی اس کمزوری کا واحد مضبوط سہارا ایک ہی رشتہ ہوتا ہے اور وہ ہوتا ہے اولاد ہے۔ دنیا کی طاقت اوردولت بھی بڑھاپے کا سہارا نہیں بنتی ہے۔انسان ان سب سے آشنا ہوکر بھی آنکھیں چراتا ہے اور اپنے فیوچر کے لیے وہ سب کچھ کرتا چلا جاتا ہے جس سے اﷲ اسے روک رہا ہوتا ہے۔ وہ اﷲ کی پلاننگ سے ہٹ کر اپنے منصوبے بناتا ہے مگر کامیاب ہونے پر بھی ناکام ہی رہتا ہے۔

خدائی نافرمانی اور انسانی من مانی کی ہمارے معاشرے میں ان گنت کہانیاں ہیں جن میں ہمارے لیے عبرت کا سامان ہے، لاتعداد افراد ہیں جو اپنا نوحہ بیان کرتے روتے ہیں کہ ہمیں دیکھو اور عبرت پکڑو۔ ایسے ہی جیسے اس خطا کار نے کیا جو بچوں کو پال نہ سکنے کی وجہ سے انہیں قتل کرنے پر تلاتھا تب اس کے اور اس کی بیوی کے سوا کوئی شریک کار نہ تھا صرف ایک اﷲ جانتا تھا جب اس نے بیوی کو کہا۔
’’گرادوبچہ……‘‘
’’گرادوں؟ تمہارا مطلب ہے ابارشن(Abortion)‘
’’ہاں‘‘
’’مگر کیوں؟ یہ ہماری جائز اولاد ہے۔ پھر میں ایسا کیوں کروں؟
’’کیا تم نہیں جانتیں، ابھی ہماری بیٹی دو سال کی ہے اور بیٹا چھ ماہ کا اور اب پھر تم…… ہم اتنی جلد ایک اور بچہ افورڈ نہیں کر سکتے۔ تمہیں معلوم ہے، میرا کاروبار کتنا خسارے میں جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے، جس چیز کو ہاتھ لگاتا ہوں، مٹی ہو جاتی ہے۔ بہت کوشش کے باوجود دکان نہیں چل رہی اور مہنگائی ہے کہ غریب کی بیماری کی طرح بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسے میں ہم کس طرح اتنے بچوں کو پال سکیں گے؟‘‘
’’یہ تو تمہیں پہلے سوچنا چاہیے تھا‘‘
’’تم عورت ہو۔ یہ کام تمہارے کرنے کا ہے۔ ہزاروں اشتہارٹی وی پر منصوبہ بندی کے آتے ہیں۔ تم نے ’’کچھ‘‘ کیا کیوں نہیں؟
’’کیا میں اکیلی یہ سب کچھ کر سکتی ہوں۔ تمہارے ساتھ اور مشورے کے بغیر؟ اور پھر اپنے طور پر میں نے کیا کوشش نہیں کی۔ گولیاں، ٹیکے…… مگر جس روح نے دنیا میں آنا ہے، اسے نہ ہم روک سکتے ہیں نہ کوئی منصوبہ بندی‘‘
’’مگر اب کیا ہوگا؟ میں یہ بچہ ہرگز نہیں چاہتا۔ اٹھو ہم کسی ڈاکٹرکے پاس چلتے ہیں‘‘
’’پاگل ہو گئے ہو تم؟ ابھی کل تو ہم ڈاکٹر کے پاس گئے تھے، جس نے واضح الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ بچہ بالکل تندرست ہے۔ اگر ہم نے زبردستی اسے ختم کرنے کی کوشش کی، تو میری جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ اور وہ ڈاکٹر ثمرین جن سے فون پر مشورہ کیا تھا، انہوں نے تو چھوٹتے ہی یہ کہا تھا کہ یہ کسی ’’غلطی‘‘ کا نتیجہ تو نہیں؟ زندگی کا پتہ نہیں، مگر میں اپنا کردارداؤ پر نہیں لگا سکتی۔ رنگ برنگے ڈاکٹروں کے پاس جا جا کر اور ویسے بھی اﷲ کا حکم ہے کہ رزق کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ میں اپنے بچے کا قتل اپنے ہاتھ سے نہیں کر سکتی‘‘
’’دیکھو بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ میں نئے بچے کے اخراجات کیسے پورے کروں گا؟‘‘
’’باقی دو بچوں کے اخراجات کو کیا تم پورا کر رہے ہو؟ سارا دن دفتر میں خوار میں ہوتی ہوں صرف انہی بچوں کے لیے۔ اپنے نقصانات اور بچوں کے اخراجات کارونارونے کے علاوہ بھی کبھی تم نے کوئی ذمہ داری نبھائی ہے آج تک؟‘‘
’’تم مجھے اپنی کمائی کا طعنہ دے رہی ہو۔ اپنی آمدنی کا رعب جما رہی ہو مجھ پر؟‘‘
’’میں صرف حقیقت بتا رہی ہوں‘‘
’’توٹھیک ہے۔ اگرتم نے فیصلہ کر لیا ہے اس بچے کو دنیا میں لانے کا ، تو تمہیں میری زندگی سے جانا ہو گا۔ میں کس منہ سے بچوں کے ڈھیر کو اپنا کہوں گا۔ کتنی شرم اور جہالت کی بات ہے اس طرح بچوں کی لائنیں لگانا۔
’’یہ باتیں اس وقت سوچنے کی ہوتی ہیں، جب ہم اندھا دھند اپنی ’’خواہشات‘‘ کے راستے پر چلتے جاتے ہیں۔ اگر ہم اس وقت ضبط نفس کا مظاہرہ کریں ۔ اپنے آپ پر قابو رکھیں اور حالات کے مطابق سمجھ داری سے فیصلہ کریں، تو یہ نوبت کیوں آئے؟‘‘
’’یہ سراسر تمہاری غلطی ہے۔ حفاظتی اقدامات تم نے نہیں کئے اور سمجھ داری کا سبق مجھے دے رہی ہو۔ اگر تم نے اس بچے سے چھٹکارا حاصل نہ کیا، تو سمجھو، ہمارے راستے الگ الگ ہیں‘‘
’’میں تمہاری اس بے جاضد کے لیے اپنی جان ، اپنا کردار اور اپنا ایمان داؤ پر نہیں لگا سکتی۔ آئندہ میرے راستے میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں اپنے بچے خود پال لوں گی‘‘
اس نے روتے سسکتے اور بلکتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ میرے اور میری بیوی کے درمیان ہونے والی بیس سال پہلے کی آخری گفتگو ہے۔ اس کے بعد اس نے کیا کیا؟ کہاں کہاں نوکریاں کیں؟ کیسے بچے پالے اور وہ کیا بنے، میں نے کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا۔ مگر آج جب کہ میں کروڑوں اربوں کا مالک ہوں۔ بے شمار بنگلے، لاتعداد کوٹھیاں اور کاریں ، ان گنت بنک بیلنس، بے انتہا سہولیات اور آسائشات میرے قدموں میں بین کر رہی ہیں ، تو میرے پاس دنیا کی ہر شے وافر مقدار میں ہے، جس میں سرفہرست ’’تنہائی‘‘ ہے۔ جوانی اور دولت کے نشے میں مست ہو کر میں نے کیا کچھ نہیں کیا، ایک لمحے بھی اپنے آپ کو ندامت کی سولی پر ٹنگا ہوا نہیں دیکھا۔ مگر پانچ سال پہلے جانے کس طرح، کہاں سے چند الفاظ میرے کانوں میں پڑے اور انہوں نے مجھے حال کی عیاشیوں سے اٹھا کر ماضی کی ندامتوں میں دھکیل دیا۔ کوئی بڑی نرمی اور رقت بھری آواز میں پڑھ رہا تھا یاایھا الذین آمنو ااتقواﷲ ’’ اے ایمان والو، اﷲ سے ڈرو‘‘۔
اس آواز نے میرے دل و دماغ کو ایسا جکڑا کہ میں بے ہوش ہو گیا۔ تب سے میں نے خود کو ایک کوٹھڑی میں مقید کر لیا ہے۔ میرا کاروبار کیا ہوا، کچھ خبر نہیں۔ میرے سٹائلش بنگلوں اور کوٹھیوں میں ابابیلوں اور آسیبوں کے بسیرے ہیں اور لوگ انہیں ’’بھوت بنگلہ‘‘ کہتے ہیں۔ میرے عروج اور فرعونیت کی شاندار یادگاریں میری تضحیک کی علامت بن چکی ہیں۔ میرے بنک بیلنس سے خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔ میرے اپنے بچوں کی آرزؤوں کے خون کے قطرے۔ میں نے رزق کی کمی کے خوف سے اپنی اولاد کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا اور اب زمانے کے لیے نشان عبرت ہوں۔
جس ڈھب پر آج معاشرہ گامزن ہے اس تناظر میں دیکھیں تو یہ ایک شخص کی آب بیتی نہیں خوبصورت بنگلوں میں تنہارہتے کئی انسانوں کی کتھا ہے۔
ایک آدھ نہیں ذرا ساغور کریں تو ہمیں درجنوں ایسے افراد ملتے ہیں جنہوں نے جوانی میں اﷲ کے احکامات کو ٹھکرایا اور بڑھاپے میں پشیمانی کی زندگی گزارتے ہیں اسٹیٹس، فیوچر آئیڈیل اور سوسائٹی کے ہاتھوں جوانی میں ہر وہ کام سرانجام دیئے جاتے ہیں جن سے اسلام نے واضح طور پر منع کیا ہوتا ہے مگر انسان اپنی پلاننگ میں وہ سب کچھ ٹھکرا رہا ہوتا ہے جو انسان کے لیے اﷲ پلان بنا رہا ہوتا ہے۔ عزت، ذلت ، دولت ، غربت زندگی، موت سب اﷲ کے ہاتھ میں ہے وہ بہتر جانتا ہے کہ کس کو دولت کے سہارے زندگی میں آزمانا ہے اور کس کو اولاد کی نعمت دے کر امتحان لینا ہے۔ کون کہاں کامیاب ہے کون کدھر ناکام ہو سکتا ہے وہ بخوبی علم رکھتا ہے ۔اسے خبر ہوتی ہے کہ کس انسان کو اولاد کی ضرورت ہے اور کسے کتنے مال کی۔ اولاد کی دولت دنیا کی سب دولتوں سے افضل ہے۔ اﷲ کسی بھی جان کو دینا میں بے مقصد نہیں بھیجتا انسان شعور کی آنکھ سے دیکھتا ہی نہیں کہ جس کو اﷲ پیدا کر رہا ہے وہ آنے والے وقت میں اس کے لیے کس قدر اہم ہے انسان اپنے حال میں مست ہو کر مستقبل کے سپنے میں صرف دولت، گاڑی، گھر کی ہی سوچتا ہے اچھے فیوچر کی سوچ اس قدر گہری ہوتی ہے کہ جوانی میں بڑھاپے کی سوچ کو ذہن میں بھٹکنے ہی نہیں دیتی اور جب جوانی آہستہ آہستہ ڈھل جاتی ہے تو انسان کے پاس گاڑی بنگلہ اور بنک بیلنس سب موجود ہوتا ہے مگر وہ جوانی نہیں ہوتی جس کے بل بوتے یہ وہ سب کچھ کما چکا ہوتا ہے۔
اب اس کے پاس بڑھاپے کا سامان ہوتا ہے، بیماری ہوتی ہے ،تنہائی ہوتی ہے، تب اسے احساس ہوتا ہے کہ آج جوان بیٹا ہوتا تو وہ اس کی تیمار داری کرتا ہے۔ اسے خود ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتا۔ اپنے ہاتھ سے دوائی کھلاتا مگر تب تک بہت وقت گذر چکا ہوتا ہے ان لمحوں میں انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ نے اولاد کو کس لیے پیدا کیا ہے اور حضرت انسان نے کس قدر ظلم کیا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اپنے ہی ہاتھوں سے قتل کر کے اپنے آپ پر ہی ظلم کرتا رہا ہے تب اس کا ضمیر لوگوں کو بتاتا ہے کہ
اے لوگو، اپنی ساری احتیاطیں اور حفاظتی اقدامات اپنے ’’نفس کی خواہش‘‘ پر چلنے سے پہلے کر لو۔ مگر جب تمہاری ’’خواہش‘‘ پر ’’زندگی‘‘ کا اطلاق ہو جائے ۔ تمہارے اندر موجود ایک اور وجود کی تصدیق ہو جائے، تو پھر سرکشی نہ دکھاؤ۔ کیونکہ مارنے والے سے بچانے والا بہت بڑا ہے۔
 

Abdul Waris Sajid
About the Author: Abdul Waris Sajid Read More Articles by Abdul Waris Sajid: 53 Articles with 52340 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.