اتنے بھرپور نظارے، اتنے رنگ، اتنی جاذبیت،،اتنی دلکشی تو
میں نے کسی تصویر، کسی فلم میں بھی نہیں دیکھی تھی۔ انسانی ہاتھ ایسی تصویر
بنانے کی قدرت نہیں رکھتا۔ کوئی کیمر ا یہ منظر دکھانے کی استطاعت نہیں
رکھتا۔ یہ منظر صرف دیکھا جاسکتا ہے، محسوس کیا جاسکتا ہے،لیکن کوئی شاعر
یا قلم کار اِسے احاطہِ قلم میں نہیں لا سکتا۔
ع آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
مختصراََ یہ کہ میرے سامنے دائیں بائیں حدِ ّنظر تک ایک گہری اور وسیع جھیل
پھیلی تھی۔ یہ جھیل اتنی نیلی تھی جیسے اس میں کسی نےنیل گھول رکھا ہو۔
اتنی صاف و شفاف جیسے صاف پانی کو نتھار کر کرسٹل کلیئر گلاس میں ڈال رکھا
ہو۔اتنی پرسکون جیسے محوِ خواب ہو۔ اتنی خاموش جیسے گاؤں کی رات ہو۔ یہ
جھیل دائیں جانب دور پہاڑوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ جب کہ بائیں جانب بھی اس کا
سِرا دکھائی نہیں دیتا تھا۔اس جھیل کے نیلے پانی،اس کی خاموشی،اس کا
سکون،اس کی وسعت،اس کی گہرائی اور اس کی شفافیت سےآنکھیں خیرہ ہورہی
تھیں۔جھیل کی وسعتوں میں کہیں کہیں رنگین کشتیاں کھلونوں کی طرح حسین لگ
رہی تھیں۔ جھیل کے کناروں پر رنگا رنگ پھول سر اٹھائے کھڑے تھے۔
مندرجہ بالا اقتباس سے قارئین کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ دنیا کا یہ خطہ کس
قدر مسحور کن ہے۔ مجھے خود بھی نیوزی لینڈ جانے کا اتفاق ہو ا ہے اور میں
بلا تامل طارق مرزا کی ہاں میں ہاں ملا سکتا ہوں۔ اس حسین نظارے سے لطف
اندوز ہونے کے بعد مصنف کوئینز ٹاؤن کے بازار کی راہ لیتے ہیں جہاں ان کی
ملاقات ایک پاکستانی”نزاکت علی“ سے ہوتی ہے جو وہاں تین سال سے مقیم ہے اور
ٹیکسی چلاتا ہے۔ وہ مصنف کو یہ بتا کر حیران کر دیتا ہے کہ یہاں ہر جگہ
گوشت حلال ہی فروخت ہوتا کیونکہ یہاں سے گوشت عرب ممالک کو ایکسپورٹ کیا
جاتا ہے۔سٹی سنٹر کا احوال بیان کرنے کے بعد مصنف شہر کے گرد ونواح کی
سیاحت کے نکل پڑتے ہیں اور جن مقامات کا انہوں نے ذکر کیا ہے ان میں سکائی
لین چیئر لفٹ، جھیل واکا ٹیپو (lake wakatipu)، والٹر پیک فارم (Walter
peak farm)نیز ان علاقوں کی سیاحت کے دوران اسٹیمر (steamer)اور ہیلی کاپٹر
کی سواری کی شہرت کا ذکر بھی کیا ہے۔
منظر نگاری اور مکالمہ نگاری کے ساتھ ساتھ مصنف نے کمال مہارت سے تاریخی
حقائق و واقعات کو بھی جمع کر دیا ہے جس سے اس سفر نامے کی اہمیت اور بھی
بڑھ گئی ہے۔انہوں نے کوئینز ٹاؤن اور اس کے گرد و نواح کی کہانی دلکش
پیرائے میں بیان کی ہے۔مثلاً یہ اقتباس دیکھیے۔
1960ء تک کوئنز ٹاؤن نیوزی لینڈ کے جنوب میں واقع ایک خوابیدہ قصبہ تھا۔اس
وقت بھی یہ اپنے حسین ترین مناظر کی وجہ سے انتہائی پرکشش تھا۔لیکن اتنا
بڑا سیاحتی مرکزنہیں تھا۔1967ء میں کچھ ذہین اشخاص کی مشترکہ سوچ اور کاوش
سے اس چیئر لفٹ کی بنیاد پڑی۔پہلے برس اسّی ہزار لوگ اس چیئر لفٹ کے ذریعے
اس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے۔اس کے بعد دنیا نے اس کا نوٹس لیا۔وقت کے ساتھ
ساتھ یہ تعداد بڑھتی چلی گئی۔ حتیٰ کہ2008ء میں آٹھ لاکھ پچاس ہزار افراد
نے اس چیئر لفٹ کی سوار ی کی۔اسی سال اس لفٹ کے پچاس برس مکمل ہوگئے۔
”دنیا رنگ رنگیلی“ میں طارق مرزا نے اپنے تین سفر ناموں نیوزی لینڈ، جاپان
اور تھائی لینڈ کو یکجا کردیاہے۔ ان سفرناموں کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اسے
پڑھتے ہوئے قاری کی دلچسپی ابتدا سے اختتام تک برقرار رہتی ہے حالانکہ ان
سفر ناموں میں وہ رنگینی نہیں جو مستنصر حسین تارڑ کے سفر ناموں میں نوجوان
قاری کو اپنی طرف کھینچتی ہے؛لیکن تاریخ اور منظر نگاری بدرجہ اتم موجود
ہے۔ نیوزی لینڈ اور تھائی لینڈ کے سفر میں طارق مرزا کی اہلیہ ان کی ہمسفر
تھیں جب کہ سفرِ جاپان میں ان کے صاحبزادے ان کے ہم رکاب تھے۔بادی النظر
میں ان سفر ناموں کا حقیقت کے قریب تر ہونے کامحرک بھی یہی لگتا ہے، کیونکہ
انسان اپنی شریکِ حیات اور اولاد کے سامنے غلط بیانی سے جہاں تک ممکن ہو
اجتناب کرتا ہے چنانچہ طارق مرز ا کے ان تینوں سفر ناموں میں حقیقت کا عنصر
نمایاں ہے۔اگرچہ ہمارے کچھ سفر نامہ نگاروں نے محض اپنے قاری کی
attractionکے حصول کی خاطر صنف نازک کے ذکرکو اپنے سفرناموں کا جزوِ لاینفک
بنایا ہوا ہے۔ایسا نہیں کہ طارق مرزا نے خواتین کا ذکر نہ کیا ہو لیکن یہ
تذکرہ قدرے مختلف ہے مثلاً،سالم اور اس کی اہلیہ کی داستانِ عشق کو نہایت
خوبصورت لیکن ایک ادیبانہ رنگ میں بیان کیا ہے۔ سالم ایک عام قطری تھا جب
کہ اس کی محبوبہ مریم ایک قطری شہزادی تھی۔ دونوں یونیورسٹی میں ایک دوسرے
کی محبت میں گرفتار ہوئے اور پھر سالم کو مریم سے عشق کی پاداش میں قید
وبندکی صعوبتیں برادشت کرنا پڑیں اور ایک دن دونوں قطر سے بھاگ نکلنے میں
کامیاب ہو گئے اور بحرین، دبئی، سنگاپور اورآسٹریلیا سے ہوتے ہوئے نیوزی
لینڈ پہنچ گئے۔اب سالم ایک بیکری میں کام کرتا ہے جب کہ شہزادی مریم اب
پھول بیچتی ہے لیکن دونوں ایک دوسرے کو پاکر بہت خوش ہیں۔قارئین کے ذوقِ
مطالعہ کی خاطر چند سطریں درج کی جارہی ہیں۔
اس دوران مریم میری بیگم کی طرح خاموش بیٹھی یہ گفتگو سن رہی تھی۔اب خواتین
کا نمبر تھا۔میری بیگم نے اس سے پوچھا ”تمہیں یہاں آکر کیسا لگ رہا ہے۔میرا
مطلب ہے کہ گھر والوں کی یاد تو نہیں آتی؟“
مریم نے پہلی مرتبہ اپنے لب کھولے۔وہ مسکرائی تو اس کے سنہرے چہرے پر سفید
دانت بہت اچھے لگے۔ اس نے آہستہ سے کہا ”سوری میری انگریزی اتنی اچھی نہیں
ہے۔ ہاں! مجھے اپنے ماں باپ اور بہن بھائی بہت یاد آتے ہیں۔اب شاید میں ان
سے کبھی نہ مل سکوں۔مگر میں سالم کو پاکر بہت خوش ہوں۔“
اتنی سی بات کرکے مریم کی آنکھوں میں نمی اتر آئی اور اس کا لہجہ گلوگیر
ہوگیا۔ ماحول اُداس ہو گیا۔
مصنف اور ان کی اہلیہ والٹر پیک فارم اور اس کے ارد گرد کے ماحول سے لطف
اندوز ہونے کے بعد ہوٹل لوٹ آئے اور پھر وہی پاؤ بھر ”دال“اوراس کا قصہ
لیکن اب وہ ائیر پورٹ پر نہیں بلکہ ہوٹل میں تھے اور دال کے پکائے جانے کا
مرحلہ تھا۔ وہ دال جسے وہ کبھی کھا نہ سکے اگرچہ اسے سڈنی سے ساتھ لائے تھے
اور اس کی وجہ سے ایئرپورٹ پر خاصا وقت بھی صرف ہوا تھااور جب امیگریشن
حکام کے سوالوں کے جواب دے کر باہر نکلے تھے تو ان کے علاوہ سب مسافر جاچکے
تھے۔
مصنف ہوٹل میں رات بھر قیام کے بعد اگلے روز گلین اورکی(Glenorchy)کا رخ
کرتے ہیں۔ یہ کوئینز ٹاؤن کا ایک دلکش اور حسین نواحی گاؤں ہے جسے طارق
مرزا نے جنتِ ارضی کہا ہے اور اس کی سیر کے دوران ایک دلچسپ واقعہ بھی رقم
کیا ہے جو مختصراً یوں ہے کہ یہاں ان کی ملاقات ایک فارم کے مالک میاں
بیوی(فرینک اور ماریہ)سے ہوئی۔ مصنف نے باتوں باتوں میں پوچھا کہ آپ کے بچے
نہیں ہیں جس پر فرینک نے کہا ماریہ کو بچے پالنا اچھا نہیں لگتا اس لیے ہم
نے بچوں کا نہیں سوچا بس اپنی زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور بس۔بقول
مصنف،”جب ہم فرینک اور ماریہ کے دلکش فارم ہاؤس سے رخصت ہوئے تو ہمارے ہاتھ
میں تازہ سبزیوں اور پھلوں کی ایک خوبصورت ٹوکری تھی۔ فرینک اور ماریہ کے
دیئے گئے یہ تحفے تو ایک دو دن میں ختم ہوگئے لیکن ان کی محبت اور مہمان
نوازی کی مہک آج تک ہمارے دلوں میں زندہ ہے۔“
طارق مرز اور ان کی اہلیہ نماز کے پابند معلوم ہوتے ہیں چنانچہ جب وہ گلین
اورکی سے واپس لوٹے تو اگلے روز جمعے کی نما زکی فکر لاحق ہوئی جس پر انہیں
نزاکت علی یا د آیا اور اسے فو ن کرکے اس سلسلے میں
|