طارق محمود مرزا اور”دنیا رنگ رنگیلی“ایک جائزہ
طارق محمود مرزا صاحب سے میری شناسائی کچھ بہت مدت سے نہیں اور جو ہے بھی،
وہ ابھی تک فاصلاتی، ترسیلاتی اور واٹس ایپی ہے یعنی میں نفسِ نفیس محترم
مرزا صاحب سے شرفِ ملاقات حاصل نہیں کر سکا۔اس کی وجہ آسٹریلیا کی مصروف
ترین زندگی ہے۔ ہر کسی کو اپنا شیڈول سامنے رکھ کر مختلف چیزیں طے کر نا
ہوتی ہیں۔میں جنوبی آسٹریلیا کے کیپیٹل ایڈیلیڈمیں رہتا ہوں اور مرزا صاحب
نیو ساؤتھ ویلز کے دارالحکومت سڈنی میں آباد ہیں۔ایک دن مجھے واٹس ایپ کال
آئی لیکن یہ نمبر میرے فون میں محفوظ نہ تھا تاہم آسٹریلین نمبرہونے کی وجہ
سے کال اٹینڈ کر لی اور پھر دوسری طرف سے انتہائی دھیمی لیکن پر تاثیر آواز
سن کر ایسا لگا جیسے کسی ایسے شخص کی ہو جسے میں ایک عرصہ دراز سے جانتا
ہوں۔ نہایت سنجیدہ لیکن حزب ِ مراتب اور محبت سے لبریز لہجہ بہت ہی بھلا
لگا۔ گفتگو نہایت دوستانہ اور ادیبانہ ہوئی اور تب میرے علم میں آیا کہ
مرزا صاحب کا سفر نامہ ”دنیا رنگ رنگیلی“ منصہ شہود پر آچکا ہے اور وہ اس
کی تقریبِ رونمائی کے لیے یورپ جارہے ہیں۔
طارق مرزا کا تعلق راولپنڈی کی تحصیل گوجر خاں سے ہے۔ابتدائی تعلیم مقامی
سکول سے حاصل کی اور بعدا زاں کراچی منتقل ہو گئے جہاں انہوں پاکستان نیوی
انجینئرنگ کالج سے میکینیکل انجینئرنگ میں ڈپلوما کیا۔ 1984ء میں کراچی
یونیورسٹی سے بی۔اے اور 1988ء میں اسلامک سٹڈیز میں ایم۔اے کی ڈگری حاصل کی۔
طارق مرز ا کا کم و بیش دو دہائیوں سے صحافت سے بھی گہرا تعلق ہے۔مختلف
اخبارارت اور رسائل و جرائد کے ایڈیٹوریل بورڈ کا حصہ بھی رہے ہیں۔”دی ڈیلی
وائس آف پاکستان“ میں کالم لکھتے ہیں۔علاوہ ازیں سڈنی میں ہونے والی ادبی
سرگرمیوں میں پیش پیش رہتے ہیں۔ سیروسیاحت کے شوقین ہیں چنانچہ اب تک
انگلینڈ، فرانس، سویٹزلینڈ،جرمنی، ہالینڈ، بیلجیم، ڈنمارک سویڈن، ناروے، فن
لینڈ، جاپان، تھائی لینڈ، سنگا پور، سلطنت آف عمان، متحدہ عرب امارات اور
قطر کے علاوہ نیوزی لینڈکی سیاحت کرچکے ہیں۔ملکوں ملکوں گھومنے کے شوق نے
انہیں سفر نامے کی صنف سے گویا متعارف کرادیا اور ان کے قلم نے ان کے
سیاحتی مشاہدات و تجربات کو قرطاسِ ابیض پر بکھیر کر اوراقِ تاریخ و ادب
میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔
مرزا صاحب کے سفر ناموں پر بات کرنے سے پہلے سفرنامے کی ابتدا کا ذکر کرنا
ضروری معلوم ہوتا ہے۔ بس اتنا اشارہ ہی کافی ہے کہ اردو میں سفر نامے کی
تاریخ اردو کی تاریخ کی طرح مختصر ضرور ہے لیکن اردو میں بہترین سفر ناموں
کی روایت نہایت مستحکم ہے نیز”سفر نامے کا جو سفر یوسف کمبل پوش کے ’عجائب
ِ فرنگ‘ سے شروع ہو اوہ مستنصر حسین تارڑ کے سفر ناموں میں عروج پر نظر آتا
ہے“ لیکن ان کے بعد سفر نامہ نگاروں کی ایک طویل فہرست نظر آتی ہے جنہوں نے
تارڑ کے تتبع میں کئی سفر نامے لکھے اور زیورِ طباعت سے آراستہ کیے۔ ان میں
سے کچھ تو محض کاغذی حد تک رہے اور بہت سے شہرت کے زیور سے بھی آراستہ
ہوئے۔برِصغیر پاک و ہند کے سفرنامہ نگاروں میں ہند یاترا۔ ممتاز مفتی،دیکھا
ہندوستان۔ حسن رضوی، دلی دور ہے۔ قمر علی عباسی، سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان۔
سید انیس شاہ جیلانی، اے آب رود گنگا۔ رفیق ڈوگر، دلی دور است۔ عطاء الحق
قاسمی، سفرنامہ ہند - پروفیسر محمد اسلم، لاہور سے اجمیر تک - رفعت سروش
فیصل، امریکہ بار بار- پروفیسر ڈاکٹر محمد رفیق خان، جرنیلی سڑک - رضا علی
عابدی، سفر بذریعہ دوستی بس - جسٹس خواجہ محمد شریف، تاج محل سے زیرو
پوائنٹ - چودھری محمد ابراہیم، سات دن - امجد اسلام امجد اوردلی دور نہیں -
انور سدید اہم ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ سفر نامہ لکھا کم اور سنایا زیادہ جاتا تھا۔ پشاور کا
قدیم اور تاریخی قصہ خوانی بازار اس کی بہترین مثال ہے جہاں وسط ایشیاء سے
آنے والے مسافراور تاجر شام ڈھلے اپنے سفر کی روداد، مشاہدات وتجربات سنایا
کرتے تھے۔یوں یہ سفر نامے سینہ بہ سینہ اورنسل در نسل منتقل ہوتے رہتے
تھے۔ان سفر ناموں کی مدد سے علاقائی معاشرت اور تہذیب کے ساتھ ساتھ تاریخی
واقعات کا بھی علم حاصل ہو تاتھا۔”سفر نامہ”ایک مہماتی اندازِ تحریر ہے جس
میں، معاشرت، فطرت اورسیاست نیز سفری مصائب اور تکالیف کا بھی تذکرہ کیا
جاتا ہے۔اس سلسلے میں چودھویں صدی کے معروف سیاح ابن بطوطہ کا سفر نامہ ،جس
کا اردو اور انگریزی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے، میں پاک وہند کے تمدن،
معاشرت، سیاست اوربود باش کی عکاسی بڑی باریک بینی سے کی گئی ہے۔ اسی طرح
بہت سے سفر نامے ایسے ہیں جن میں یورپ، امریکہ اور ایشیا کے کئی ممالک کی
سیاحت کرنے والوں نے اسے کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا کہ اردو سفر نامے کا آغاز یوسف کمبل پوش سے شروع
ہوا جو آج تک جاری ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ ہر سیاح اپنی سیاحت
کے تجربات و مشاہدات اور تاثرات کو اپنے اپنے پیرائے اور اپنے اپنے انداز
سے بیان کر تا ہے۔چنانچہ میں جس سفرنامے پر قلم اٹھانے جارہاہوں، اس سفر
نامہ نگار کا مختصر سا سوانحی و تعلیمی تعارف سطورِ بالا میں بیان ہو چکا
ہے۔
طارق محمود مرزا کا پہلا سفر نامہ”خوشبو کا سفر“ 2008ء میں جب کہ دودسرا
سفر نامہ ”سفرِ عشق“ 2016 ء میں شائع ہوئے نیز افسانوں کا مجموعہ
بعنوان”تلاشِ راہ“ 2013 ء میں منظرِ عام پر آیا اور اب ان کا تیسرا سفر
نامہ”دنیا رنگ رنگیلی“ زیورِ طباعت سے آراستہ ہو چکا ہے بلکہ اس کی دو چار
تقاریبِ رونمائی بھی انعقاد پذیر ہو چکی ہیں۔
”دنیا رنگ رنگیلی“ طارق مرزا کی نیوزی لینڈ، جاپان اور تھائی لینڈ کی سیاحت
پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا سرورق سادہ لیکن جاذبِ نظر ہے اور اسے سنگِ میل
پبلی کیشنز لاہور نے طبع کیا ہے نیز اس کا انتساب انہوں نے اپنے بھائی
کمانڈر طالب حسین کے نام کیا ہے۔ فہرستِ عنوانات سے پہلے مصنف نے ایک شعر
درج کیا ہے جو نظرِ قارئین بھی کیا جارہا ہے۔
؎ کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل
کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا
طارق مرزا کی یہ تصنیف تین سو صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔فہرس کے بعد پیشِ لفظ
میں انہوں نے اپنی اس تصنیف کے بارے لکھا ہے کہ:
طویل عرصہ بعد غمِ روز گار سے کچھ فرصت ملی تو نہاں خانہ دل میں دبی سیاحت
کی دیرینہ خواہش جاگ اٹھی۔ جس کے نتیجے میں یکے بعد دیگرے نیوزی لینڈ،
جاپان اور تھائی لینڈ کے کچھ علاقے کھوج ڈالے۔ اس جہاں نوردی سے جہاں طبیعت
نے کچھ آسودگی پائی وہاں کئی دلچسپ تجربات ومشاہدات نے دل میں تلاطم خیزی
کو بھی جنم دے دیا۔
پیشِ لفظ کے بعد عرفان جاوید نے”دنیا رنگ رنگیلی اردو ادب کے سرورق پر
طلائی مہر ہے“ کے عنوان سے مختصر سا تبصرہ لکھا ہے جب کہ رئیس احمد علوی نے
”طارق مرزا کا سفر نامہ“ کے عنوان سے تبصرہ لکھ کر اس سفرنامے اور مصنف کا
مختصر تعارف کرایا ہے۔
تو گویا زیرِ نظر سفر نامہ تین حصوں پر مشتمل ہے، جس میں سب سے پہلے ”نیلے
پانیوں کی سرزمین نیوزی لینڈ“ میں لینڈ نگ کے بعد امیگریشن کے معاملات کو
سراسیمگی سے بیان کرنے کے بعد ائرپورٹ سے گاڑی کے حصول سے لے کر اپارٹمنٹ
تک کے سفر کو کمال ادیبانہ رنگ میں بیان کیا ہے۔وہ سفر کی جزئیات کو کل کا
جزو بنانے کے فن سے واقف ہیں، چنانچہ بلا مبالغہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ
یہ ان کے اپنے تاثرات ِ سفر ہیں جنہیں انہوں کمال فنکاری سے قارئین کے لیے
قرطاسِ ابیض پر بکھیر دیا ہے۔ میرے تین دہائیوں کے ادبی سفر میں میری نظر
سے کئی سفر نامے گزرے ہیں اور اگرچہ میں پچھلے صفحات میں لکھ آیا ہوں کہ
”سفر نامے کا جو سفر یوسف کمبل پوش کے ’عجائب ِ فرنگ‘ سے شروع ہو اوہ
مستنصر حسین تارڑ کے سفر ناموں میں عروج پر نظر آتا ہے“ لیکن طارق مرزا کے
سفرنامے کو پڑھنے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر ان کا سفر نامہ تارڑ کے
سفرناموں سے آگے نہیں تو اس سے کچھ کم بھی نہیں۔سفر نامے کے آغاز میں انہوں
نے ائرپورٹ کے خالی ہونے کا منظر جس طرح بیان کیا ہے قاری کو یوں محسوس
ہوتا ہے جیسے وہ مصنف کے ساتھ ساتھ چل رہا ہو اور ایک کا میاب سفر نامہ
نگار کے لیے یہ شرط اولین مانی جاتی ہے کہ اس کے قلم میں اتنا زورِ بیان ہو
کہ وہ قاری کو اپنے سفر میں اپنا ہمسفر بنالے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس
پہلے حصے کو پڑھ کر اتنا کہہ دینا میرا استحقاق ہے کہ طارق مرزا کے اس سفر
کے دوران چونکہ ان کی اہلیہ ان کے ہمراہ تھیں اس لیے انہوں نے قاری کو
متوجہ کرنے کے لیے فرضی اور غیر ضروری واقعات کو درج کرنے سے اجتناب کیا ہے
اور یہی ان کی بڑی خوبی ہے جو دورِ حاضر کے ادیبوں سے انہیں اس صنف میں
ممتاز کرتی ہے۔طارق مرزا اپنے پڑھنے والے کو اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں، اس
کی زبان رواں اور سلیس ہے، انداز بیاں دل نشیں اور جاذب نظر ہے،واقعات میں
زیب داستان کا عنصر نہ ہونے کے برابر ہے۔نیز طارق مرزا نے جہاں دیگر جزئیات
کو کل کا حصہ بنایا ہے وہاں منظر نگاری بھی کسی حد تک ان کے قلم کی مرہونِ
منت ہے۔ مثلاً: نیوزی لینڈ کے شہر کوئینز ٹاؤن میں اپنی پہلی صبح کا منظر
جس طر ح رقم کیا ہے وہ ملاحظہ کیجیے:
|