ہر انسان خاص قسم کی جذباتی وابستگی رکھتا ہے اور اس کی
خاطر قربانی ،ایثار اور سرمایہ تک خرچ کر دیتا ہے نتائج و عوامل سے بے نیاز
ہر وہ کا م کر گزرتا ہے جواس وابستگی کے لیے ضروری ہوتے ہیں اس وجہ سے
مسلسل نفع اور نقصان کا عمل بھی جاری رہتا ہے اس حسین جذبہ کو بہت سے لوگوں
کی طرف سے پذیرائی مل رہی ہوتی ہے اورکچھ لوگ اس کو منفی انداز میں لے کر
یا اس کی قدر نہ کر کے بے قدری کر رہے ہوتے ہیں بہر حال ایسے جذبات کا حامل
شخص اپنی نیک نیتی کی وجہ سے کامیاب رہتا ہے کیوں کہ حسن نیت ہی سب سے بڑا
عمل ہے ۔
والدین تمام اولاد سب بیٹیوں بیٹوں سے پیار کرتے ہیں بعض واوقات ایک بیٹا
یا بیٹی کی کوئی بات نہیں ٹالتے ا س کی ہر فرمائش پوری کرتے ہیں اور بے جا
تعریف و توصیف بھی کرتے ہیں اس کی خطاوں سے درگزر کرتے ہیں اور اس کی بعض
غیر ضروری کاموں کی پشت پناہی بھی کرتے ہیں یہ سب جذباتی وابستگی کی وجہ سے
ہو رہا ہوتا ہے جس کو اختیار کرنے میں شائد ان کا عمل دخل بھی نہیں ہو تا۔
عزیز رشتہ داروں میں بھی کسی ایک رشتہ سے جذباتی وابستگی ہو تی ہے اس کے
لیے تن من دھن سب کو لٹا دیا جاتا ہے قرابت داروں کے حقوق کا خیال رکھنے کا
حکم شریعت اسلامیہ میں بھی بدرجہ اولیٰ ہے ۔دوست کے ساتھ تعلق بھی اسی جذبہ
کے مرہون منت ہے جس کے ساتھ جذباتی وابستگی کی حد تک تعلق ہو جائے اس کی
قطع تعلقی ،جدائی اور مفارقت سے تکلیف ہوتی ہے دکھ پہنچتا ہے چاہے اس کا
سبب کچھ بھی ہو۔
استاد اور شاگرد کا رشتہ بھی جذباتی وابستگی کی ایک مثال ہوتا ہے حضرت علی
ؓ شیر خدا کا فرمان ہے کہ جس نے ایک لفظ سکھایا وہ تمہارا استاد ہے اور اس
کا احسان عمر بھر نہیں اتارا جا سکتا ۔
روزمرہ زندگی میں بہت سے انسان داخل ہوتے ہیں تعلق بنتا ہے کچھ عرصہ تک
ساتھ رہتا ہے جگہ اور حالات تبدیل ہونے کی صورت میں یہ تعلق ٹوٹ جاتا ہے
مگر ا س کا افسوس نہیں ہوتا جو لوگ رہنمائی کرتے ہیں اچھا سکھاتے ہیں برائی
سے بچاتے ہیں ،مدد کرتے ہیں ،زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے کو آگے
بڑھاتے ہیں ،نوکر ی ،کاروبار،مقدمہ ،علاج اور تکلیف میں مدد کرتے ہیں ایسے
لوگوں سے تعلق جذباتی وابستگی کا ہوتا ہے۔
یہ تعلق کسی وجہ سے ماند پڑ بھی جائے تو دعاوں میں تبدیل ہو جاتا ہے یہ
تعلق کبھی بوجھ یا پچھتاوا نہیں بنتا ،جو کسی کی دعاوں میں زندہ رہتا ہو
بھلا وہ کیسے بھلایا جاسکتاہے نسل در نسل یاد رہتا ہے ایسی وابستگی ہمیشہ
مثبت سرگرمی ،سوچ رکھنے والی شخصیت سے ہونا ضروری ہے اسی صورت ہی دنیا و
آخرت کے فائد ے کی امید ہے غلط،منفی اور برے آدمی سے تعلق کبھی فائدہ مند
نہیں ہوتا اس سے دنیا میں تکلیف رسوائی اور آخرت میں عذاب جہنم اور پچھتاوے
کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا بہت سے لوگ جذباتی وابستگی رکھنے والے کا مذاق
اڑا کر دکھ دیتے ہیں وقت بے وقت کسی کمزوری کی آڑ لیکر اس کے جذبات کی بے
توقیری کرتے ہیں ۔طعنہ دینا معمول بنا لیتے ہیں اور نتیجتا بددعاوں کے
مستحق ٹھہرتے ہیں ،عقل کے نشتر ضرور چلائیں مگر جذبات کا خون کرنے کے لیے
نہیں ۔عقل والے تو مجنوں کے پیالے کو لیلیٰ کی طرف سے پھینک دیتے ہیں مگر
مجنوں اپنی جذباتی وابستگی کی وجہ سے اسے خصوصی سلوک قرار دیتا ہے کہ لیلیٰ
نے سب کے پیالوں میں کچھ نہ کچھ ڈال دیا مگر میرے پیالے کو پھینک کر یہ
پیغام دیا کہ تو میرے ساتھ محبت کو خیرات سمجھ بیٹھا ہے کسی سے جذباتی
وابستگی ہو جانا ایک بے اختیار عمل ہے اس پر جبر نہیں کیا جا سکتا بعض لوگ
ایسے آدمی کو بے عقل ،کند ذہن اور بیوقوف کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں حقیقتا
ایسے شخص کے قریب ہو کر اس کی باتیں سن کر اس کے جذبے کی شدت اور حدت کو
جاننا ضرور ی ہوتا ہے اور اس حساب سے رد عمل بھی بنتا ہے مگر جہاں ہم نے
بہت سے اور کاموں میں احتیاط کا دامن چھوڑ رکھا ہے وہاں جذبوں کی قدر بھی
چھو ڑ دی ہے راز داں ہونے سے ڈر لگتا ہے کیونکہ راز کی بات جان لینے کے بعد
پردہ پوشی لازمی ہوتی ہے ،راز دان حقیقی کی ناراضگی کسی دوسرے شخص کے عیبوں
سے پرد ہ اٹھانے کی وجہ سے بنتی ہے اسی طرح جذباتی وابستگی کے اظہار کے بعد
اس شخص کے جذبے کی قدر کرنا بھی لازمی ہو جاتا ہے جذباتی وابستگی کی قدر
کرنے کی صورت میں رد عمل بھی مثبت ہوتا ہے اور بے قدری و بے توقیری کے
نتائج منفی ہوتے ہیں ۔
|