تحریر: فاطمہ خان
اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں۔ زندگی کا اصل مقصد دوسروں کی مدد ہے۔ اﷲ نے
انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے، یعنی تمام مخلوقات سے افضل اور اعلی
مخلوق۔ انسان تمام مخلوقات سے اس لیے افضل ہے کہ وہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں
کے کام آتا ہے۔ اس کے دل میں ایثار و قربانی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ اپنے
لیے جینا کوئی مشکل نہیں۔ معاشرے میں حسن تب ہی پیدا ہوتا ہے جب سفید پوش
لوگ عزت اور بھرم کو قائم رکھ پائیں اور ضروریاتِ زندگی بھی پورا کر سکیں۔
ہمارا معاشرہ ایک مسلط کردہ دوڑ میں بغیر نفع نقصان جانے دوڑا چلا جا رہا
ہے۔ اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتا ہے لیکن غریب اور مظلوم کے لیے اندھا اور
بہرہ بن جاتا ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہو کر بھی اپنے مقام سے گرتا جا رہا
ہے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے، حالات نہیں بدل رہے۔ حالات کیسے بدلیں۔ حالات
بدل نہیں سکتے جب تک ہم خود نہ بدل جائیں۔ ہمیں یہ سوچنا ہے کہ نیکی کرنے
کے لیے اپنے خاندان کا تعارف کروانا ہمارے لیے ضروری کیوں ہے؟ ایک عام سی
مثال سے جائزہ لیتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ بس اسٹاپ، چوراہوں، بازاروں،
اسکولوں، اسپتالوں میں ٹھنڈے پانی کے کولر لگائے جاتے ہیں۔ کولر پر جتنی
جگہ ہوتی ہے وہاں خاندان کے افراد کے نام کے ساتھ ان کے ایصال ِثواب کے لیے
نوٹ لکھا ہوتا ہے۔ یہ قدرتی سی بات ہے جب انسان تکلیف سے گزر رہا ہو اور
اسے اچانک سکھ کا، سکون کا لمحہ مل جائے تو وہ اﷲ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ
ساتھ اس وسیلے کا بھی شکریہ ادا کرتا ہے اور اس کے لیے دعا کرتا ہے۔ پیاس
میں، تھکن سے چور انسان جب ٹھنڈا پانی پیے گا تو بلواسطہ وہ اس کے لگوانے
والے کو یعنی وسیلے کے حق میں دعا کرے گا۔
اسلام کہتا ہے اگر راہ سے کانٹا یا پتھر ہٹا دیا تو بھی نیکی ہے۔ ایک وقت
تھا جب گھروں کے باہر پانی کا بندوبست کیا جاتا جاتا تھا، چھاوں کا انتظام
کیا جاتا تھا۔ بالخصوص ان گھروں میں جہاں اسٹاپ یا چوک ہوں تا کہ مسافروں
کو تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ لیکن انسان جب سے مادہ پرستی کا شکار ہوا
ہے، اپنی حقیقت سے منہ موڑ بیٹھا ہے۔ آج اگر کوئی اﷲ کا بندہ پیاس سے تڑپتا
ہوا آپ کے دروازے پہ آجائے تو آپ پانی تو درکنار دروازہ تک نہیں کھولیں گے۔
یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے۔ ان گناہگار آنکھوں نے ایسے بے شمار واقعات دیکھے
ہیں اور دکھ کی بات یہ ہے کہ بہت پرہیز گار لوگ بھی ایسا ہی منافقانہ رویہ
رکھتے ہیں۔ وہ شاید اس بات سے ناواقف ہیں کہ انسانیت کے تقاضے کیا ہیں۔
میردرد نے کیا خوب کہا:
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
لوگ سڑکوں پہ بھوکے، ننگے سردی میں پڑے رہتے ہیں اور حکمران اپنی گاڑیوں
میں بھی ہیٹر سے مستفید ہوتے ہیں۔ فرق ضرویات سے آسائشات اور تعیشات کا ہے۔
غریب ضروریات کے لیے تڑپ تڑپ کر مر رہا ہے جب کہ امراء آسائشات کے بعد
تعیشات سے بھی آگے مریخ کی تسخیر کے خواہاں ہیں۔ حالاں کہ تعیشات کے بعد ہی
سہی کم از کم یتیم و مسکین کے حال پہ ترس کھا لیا جانا ان کے اختیار میں
ہے۔ افسوس کہ حالات اس قدر بگڑے ہیں کہ ان کی تلخی کو کچھ یوں بیان کیا
جاتا ہے،
روٹی امیرِ شہر کے کتوں نے چھین لی
فاقہ غریب گھر کے بچوں میں بٹ گیا
چہرہ بتا رہا تھا کہ مارا ہے بھوک نے
حاکم نے یہ کہا کہ کچھ کھا کہ مر گیا
انسان اکیلا نہیں رہ سکتا۔ اسے زندگی گزارنے کے لیے دوسروں کے ساتھ مل جل
کر رہنا پڑتا ہے۔ مل جل کر رہنے سے خوشی اور غم بانٹنے سے معاشرے میں نکھار
آتا ہے۔ بہترین انسان دوسرے انسانوں کی بوقتِ ضرورت بڑھ چڑھ کر مدد کرتا
ہے۔ اﷲ اپنے بندوں سے 70 ماوں سے زیادہ پیار کرتا ہے، پھر بھلا وہ کیسے
اپنے بندے کو مشکل میں تنہا چھوڑ سکتا ہے۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں،
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
مدد یا ہمدردی کرنے سے اﷲ بھی راضی ہو گا اور معاشرہ بھی خوشحال ہو گا۔
غریب کو کھانا کھلانا نیکی ہے۔ ایسے افراد جو اپنے بچوں کو مفلسی کے تحت
اسکول نہیں بھیج پاتے۔ ان بچوں کو صاحبِ حیثیت لوگ اسکول پڑھا سکتے
ہیں۔غریب بچیاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے والدین کی دہلیز پہ بیٹھی بوڑھی ہو
جاتیں ہیں۔ کیا مخیر افراد کا فرض نہیں کہ وہ ان سفید پوش طبقے کی مدد
کریں۔ اﷲ نے اس طبقے کی مدد کے لیے زکوۃ، عشر، صدقات اور خیرات کے ذرائع
پیدا کیے۔ اﷲ نے مسلمانوں پر یہ واضح کیا کہ زکوۃ مال و دولت کو پاک کرتی
ہے بالکل اسی طرح جس طرح روزہ جسم کو ہر بیماری سے پاک کرتا ہے۔
جنگِ یرموک میں ایک زخمی کو جب پانی پلایا جانے لگا تو اس نے دوسرے زخمی کی
طرف اشارہ کیا کہ پہلے اسے پانی پلایا جائے۔ جب دوسرے زخمی کو پانی پلانا
چاہا تو اس نے تیسرے زخمی کی جانب اشارہ کیا کہ پہلے اسے پانی پلایا جائے۔
پانی پلانے والا شخص جب زخمی کے قریب آیا تو دیکھا کہ زخمی زخموں کی تاب نہ
لاتے ہوئے شہید ہو گیا تو وہ دوسرے زخمی کے پاس دوڑا دوڑا پہنچا لیکن وہ
بھی شہید ہو چکا تھا۔ پانی پلانے والا شخص جب پہلے شخص کے پاس آیا تو وہ
بھی جامِ شہادت نوش کر چکا تھا۔ یہ ہے اسلام کی تعلیم کہ زخموں سے چور ہوتے
ہوئے بھی دوسرے بھائی کے لیے قربانی کا جذبہ عروج پہ رہا۔ موت کے خوف سے ان
کے قدم ڈگمگائے نہیں بلکہ حوصلہ بلند رہا اور ایثار کا جذبہ سر چڑھ کہ بولا
کہ میں نہیں میرے دوسرے بھائی کو پانی دے دیا جائے۔
تاریخِ اسلام کی ورق گردانی کی جائے تو اسلام ایسی مثالوں سے جگمگا رہا ہے۔
فتحِ مکہ کے موقع پر انصار نے مہاجرین کا جس طرح خیر مقدم کیا، تاریخ میں
ایسی مثال نہ کبھی تھی نہ آگے مل پائے گی۔ انصار نے مہاجرین کو صرف بھائی
تسلیم نہیں کیا بلکہ بھائی کے تمام فرائض بھی سر انجام دیے۔ اپنے گھر،
کاروبار تک ان کو دے دیے۔ مسلمان مادیت کے ایسے دلدل میں گر چکا ہے کہ اپنے
اصل کو بھول بیٹھا ہے۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ کائنات میں انسان اپنی تخلیق
کے محرک کا ادراک کرے اور خود کو اشرف المخلوقات ثابت کرے۔
|