خاموش محبّت

بینا کی شادی شرجیل سے ہوئی تو اس وقت اس کی عمر انیس سال تھی- اس نے بی اے کرنے کے بعد تعلیم کو خیرآباد کہہ دیا تھا اور گھر میں بیٹھ گئی تھی- اس کے ابّا ایک کاروباری آدمی تھے- گھر میں کسی چیز کی کمی نہیں تھی- اب انھیں اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ ایک دوسری فکر بھی ہوگئی تھی اور یہ فکر تھی بینا کی شادی کی-

ان کا ایک کاروباری پارٹنر سلیمان علی بھی تھا- وہ بہت ہی بھلا آدمی تھا اور کاروباری معاملات میں بڑی ذمہ داری اور دانشمندی سے حصہ لیتا تھا- اس کا ایک بیٹا بھی تھا جس کا نام شرجیل تھا- وہ انجینیرنگ کی ڈگری لے کر کسی پرائیویٹ ادارے میں ملازمت کر رہا تھا اور باپ کی طرح ہی محنتی اور اپنے کام سے محبّت کرنے والا لڑکا تھا- تھوڑے ہی عرصے میں اس نے اپنے ادارے میں اپنے قدم جما لیے تھے اور ادارے کی ضرورت بن گیا تھا-

ہر اچھے انسان کی طرح شرجیل کو بھی اپنے کام سے بہت محبّت تھی- وہ آفس کا کام گھر پر بھی لے آتا تھا اور اپنے کمرے میں بیٹھ کر رات گئے تک اسے نمٹانے میں مصروف رہتا- اپنے کام اور پیشے سے محبّت کرنے والے ہمیشہ خوش اور مطمئن رہتے ہیں اور اپنی اس محنت کا انھیں اچھا صلہ بھی ملتا ہے- جائز پیسوں کی شکل میں بھی اور نیک نامی کی شکل میں بھی-

شرجیل اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا- جب اس نے تعلیم سے فراغت کے بعد ملازمت بھی کر لی تو اب اس کے ماں باپ کو اس کی شادی کی فکر ہوئی- زمانے کے دستور کے مطابق پہلے تو ماں نے کریدا کہ اس کی تو کسی لڑکی سے جان پہچان نہیں ہے- جواب نفی میں ملا تو دونوں میاں بیوی سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور سوچنے لگے کہ ان کے جاننے والوں میں کس کی لڑکی ایسی ہے جو ان کی بہو بن سکے-

بینا کبھی کبھی اپنے باپ کے ساتھ کمپنی کے دفتر میں آجایا کرتی تھی- وہ ایک خوبصورت لڑکی تھی- خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اس کی عادت اور اطوار بھی اچھے تھے- وہ جب بھی آفس آتی، شرجیل کے باپ کو سلام کرنے اس کے کمرے میں ضرور آتی تھی- اس کی نرم گفتاری اور چھوٹے بڑوں کی عزت کرنے کی وجہ سے شرجیل کا باپ اسے بہت پسند کرتا تھا-

اب جو بہو کی تلاش میں ذہن پر زور ڈالا تو اسے شرجیل کے لیے بینا ہی مناسب ترین لڑکی نظر آئی- اس نے اپنی بیوی سے کہا- "میرے ذہن میں تو ایک لڑکی ہے- تمھاری نظر میں کوئی ہے تو پہلے تم بتاؤ-"

"اس وقت میرے ذہن میں تو کوئی ایسی لڑکی نہیں- جن جن لڑکیوں کو میں جانتی ہوں، مجھے ان کے مزاج کا پتہ ہے- سب شوخ اور شریر ٹائپ کی ہیں- فلموں ، ڈراموں اور سیر سپاٹے کی شوقین- شرجیل کی عادتوں کا مجھے اچھی طرح پتہ ہے- وہ ایک سنجیدہ اور اپنے کام میں مگن رہنے والا لڑکا ہے- اس کے لیے اس کی جیسی ہی بیوی ڈھونڈنا پڑے گی-"

"ایسی لڑکی ہے میرے ذہن میں-" شرجیل کے ابّا نے جلدی سے کہا- "بینا میرے کاروباری پارٹنر کی بیٹی ہے- بہت تمیز دار، پڑھی لکھی اور نرم گفتار- تم ملو گی تو خوش ہوجاؤ گی-"

شرجیل کی ماں یہ سن کر خوش ہوگئی- طے ہوا کہ اتوار کو بینا کے گھر چلیں گے- انہوں نے یہ بات شرجیل کو بھی بتا دی تھی- اس نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا اور خاموش رہا-

بینا واقعی اچھی تھی- شرجیل کی ماں کو بہت پسند آئی- شرجیل کے باپ نے بینا کے باپ کو اپنی آمد کا مقصد پہلے ہی بتا دیا تھا- اسے کوئی اعتراض نہیں تھا- اس کی بیوی بھی ان لوگوں سے مل کر خوش ہوئی تھی- دونوں خاندان اچھے اور دوسروں کو اچھا سمجھنے والے تھے- لگتا یہ ہی تھا کہ بات پکی ہوجائے گی-

اور پھر ہوا بھی ایسا ہی- اگلے اتوار کو بینا کے گھر والے شرجیل کو دیکھنے آئے- وہ ان لوگوں کو بہت پسند آگیا تھا- بات پکی ہوگئی اور دو ماہ بعد دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے-

شرجیل ایک بہت اچھا اور خیال رکھنے والا شوہر ثابت ہوا تھا- وہ بینا کی ذرا ذرا سی بات کا دھیان رکھتا تھا- مگر بینا کو ایک چیز کی کمی کا احساس ہوتا تھا، وہ رومانوی نہیں تھا- وہ چاہتی تھی کہ جیسے پون گھنٹے کے ڈراموں میں ہیرو بار بار اپنی زبان سے ہیروئن کے سامنے اظہار محبّت کرتا تھا، شرجیل بھی کرے، اس کی گود میں سر رکھ کر اس کے بالوں میں منہ چھپائے مگر وہ یہ نہیں کرتا تھا- ایک دفعہ وہ نہانے کے لیے گئی تو جان بوجھ کر تولیہ بستر پر ہی چھوڑ گئی- تھوڑی دیر میں اس نے آواز دے کر شرجیل سے تولیہ مانگا- اس نے تولیہ دے تو دی مگر کچھ اس انداز میں کہ بینا کو اپنی حرکت پر شرمندگی سی محسوس ہونے لگی- اس نے واش روم کے دروازے پر ناک کیا، اور منہ دوسری طرف کر کے تولیہ اسے پکڑا دیا-

شادی کے چند ہفتوں کے بعد اس کی ملاقات اپنی چند شادی شدہ سہلیوں سے ہوئی- ان کی باتوں سے اس نے اندازہ لگایا کہ ان میں سے کسی کا بھی شوہر ایسا نہیں ہے جو ان کے بغیر لمحہ بھر بھی زندہ رہ سکے- اس کی معلومات میں اس بات کا بھی اضافہ ہوا کہ ان میں سے کچھ کے شوہر انھیں عشقیہ شعر بھی سناتے ہیں، اور نثر میں پیار بھری باتیں بھی کرتے ہیں- ان تمام باتوں سے آگہی کے بعد بینا کو اپنی زندگی میں کسی چیز کی کمی کا شدت سے احساس ہونے لگا- اور وہ چیز یہ تھی کہ دوسرے شوہروں کی طرح شرجیل کیوں اس سے اس طرح کی باتیں نہیں کرتا ہے- یہ بات ایسی تھی کہ وہ اس کا تذکرہ کسی سے کر بھی نہیں سکتی تھی- اس میں خود اس کی سبکی ہوتی-

شرجیل کی عادت تھی کہ وہ رات کو کھانے سے فارغ ہو کر اپنا لیپ ٹاپ لے کر بستر میں نیم دراز ہوجاتا اور اس پر اپنے دفتر کا کام کرتا- بینا اس کے برابر میں لیٹ کر کسی رسالے کی ورق گردانی کرنے لگتی- تھوڑی دیر بعد جب شرجیل ایک ہی پوزیشن میں بیٹھے بیٹھے تھک جاتا تو وہ یہ کرتا تھا کہ نہایت نرمی سے اپنی ایک ٹانگ اس کی کمر سے ٹکا لیتا تھا- بینا کو اس کی یہ حرکت بہت اچھی لگتی تھی- وہ دم سادھے یوں ہی خاموشی سے لیٹی رہتی کہ کہیں اس کے حرکت کرنے سے شرجیل یہ نہ سمجھے کہ وہ اس کی حرکت سے بے چینی محسوس کر رہی ہے-

شرجیل میں ایک بڑی اچھی بات تھی- وہ اتوار کے روز اسے اس کے ماں باپ کے گھر چھوڑ آتا اور شام کو واپس لے آتا- شادی کے بعد ایسا کوئی اتوار نہیں تھا جو اس نے اپنے میکے میں اپنے ماں باپ کے ساتھ نہ گزارہ ہو-

آج بھی اتوار تھا- وہ سارا دن اپنی ماں کے گھر رہی- دوپہر کا کھانا کھا کر وہ کچھ دیر سو بھی لی تھی- شام سات بجے شرجیل اسے لینے کے لیے آ پہنچا- بینا نے اس کی پسند کا کھانا تیار کیا تھا- کھانا کھا کر اس نے سب کو گْڑ کی ڈلی والا قہوہ پلایا اور شرجیل کے ساتھ جانے کو تیار ہوگئی- بینا کی ماں اپنے داماد سے بہت خوش تھی- اس نے اتنے اچھے داماد کم ہی دیکھے تھے- دونوں میاں بیوی نے شرجیل اور بینا کو خدا حافظ کہا- شرجیل نے گاڑی اسٹارٹ کر رکھی تھی، بینا کے بیٹھتے ہی گاڑی چل پڑی-

آٹھ بج گئے تھے- سڑکوں پر زیادہ رش نہیں تھا- وہ کچھ آگے آئے تو شاپنگ پلازوں کی قطار نظر آئ- "بینا کچھ شاپنگ کرنی ہو تو بتاؤ-" اس نے پوچھا-

بینا مسکرا کر بولی- "شکریہ شرجیل- مجھے آپ کی پیشکش سے انکار کرتے ہوۓ افسوس تو ہو رہا ہے- لیکن اب میں گھر جانا چاہتی ہوں- کچھ دیر امی ابّا کے پاس بیٹھ کر ان سے باتیں کروں گی- پھر رات دس بجے ڈرامہ دیکھوں گی- آج اس کی آخری قسط آئے گی-" شرجیل اس کی بات سن کر خود بھی مسکرانے لگا-

سڑک سنسان پڑی تھی- سامنے سگنل تھا اور اس کی زرد بتی جل اٹھی تھی- شرجیل نے رفتار کم کی اور گاڑی روک لی- گاڑی کے رکتے ہی لال بتی روشن ہوگئی- بینا اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی تھی اور کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی- گاڑی رکی تو ایک دس بارہ سال کا لڑکا ایک چھوٹے سے پتلے بانس میں موتیا کے پھولوں کے گجرے اور ہار لٹکائے کھڑکی کے نزدیک آکر کھڑا ہوگیا اور کچھ کہنے لگا- گاڑی کا شیشہ بند تھا اس لیے وہ کیا کہہ رہا تھا کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا- بینا نے جلدی سے بٹن دبا کر شیشہ نیچے کیا اور اس سے دو گجرے اور ایک ہار لے لیا- شرجیل نے اپنا پرس نکالا- "چھوٹے کتنے پیسے ہوۓ ہیں؟" اس نے پوچھا-

"صاحب جی اسی روپے"- لڑکے نے جلدی سے کہا- وہ خوش تھا کہ اس کی بکری ہونے جا رہی تھی- رات کا وقت تھا، مال اگر بچ جاتا تو اگلے روز تک پھول مرجھانے لگتے تھے اور گاہک انھیں لینا پسند نہیں کرتے تھے-

شرجیل نے پرس میں رکھے ہوۓ نوٹوں پر ایک نظر ڈالی- ہزار روپے سے کم کا کوئی نوٹ اس میں نہیں تھا-

"لڑکے- ہزار کا کھلا تو نہیں ہوگا تمھارے پاس؟" اس نے ہزار کا نوٹ نکالتے ہوۓ کہا-

لڑکے کے چہرے پر مایوسی نظر آنے لگی- اس نے نفی میں سر ہلا دیا-

بینا کو پھول بیچنے والے بچے پر ترس تو بہت آیا مگر کیا کرسکتی تھی- اس نے دونوں گجرے اور ہار اس لڑکے کو واپس دینے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ سگنل کی بتی زرد رنگ کی ہوگئی- شرجیل نے ہزار کا نوٹ اس لڑکے کو دیتے ہوۓ کہا- "لو – باقی پیسے بھی تم رکھ لینا-"

یہ سن کر لڑکا خوش ہوگیا- اس نے حیرت سے جھجکتے ہوۓ نوٹ تھام لیا اور ماتھے پر ہاتھ رکھ کر انھیں سلام کیا- اتنی دیر میں سگنل کی بتی سبز ہوگئی، شرجیل نے گاڑی چلا دی-

وہ لوگ تھوڑا آگے آئے تو بینا مسکرا کر بولی- "آپ تو بہت فیاض ہوتے جا رہے ہیں-"

شرجیل بھی مسکرا دیا- مسکراتے ہوۓ بولا- "بات فیاضی کی نہیں ہے- جب تم نے ایک چیز پسند کر لی تو میرا دل نہیں چاہا کہ اسے واپس کیا جائے اور وہ بھی اتنی سی معمولی بات پر کہ کھلے پیسے نہیں ہیں-"

بینا کا دل اس کی یہ بات سن کر خوشی سے معمور ہوگیا- اس کی ذرا سی خوشی کو شرجیل نے کتنی اہمیت دی تھی- اس کی یہ پیار بھری بات اسے سینکڑوں شعروں اور ہزاروں نثری باتوں سے زیادہ اچھی لگی تھی- اس نے دونوں ہاتھوں میں گجرے پہن لیے اور موتیے کے ہار کو جوڑے میں اڑستے ہوۓ سوچنے لگی- "شرجیل جیسے کتنے ہی شوہر ہوں گے جو اپنی بیویوں سے زبانی اظہار محبّت کرتے ہوۓ جھجکتے ہونگے مگر وہ ہی شوہر بیویوں کے لیے سراپا محبّت ہوتے ہیں اور ان کی ذرا ذرا سی باتوں کا دھیان رکھتے ہیں- خاموش محبّت کرنے والوں کا انداز ہی الگ ہوتا ہے-"

(ختم شد)

Mukhtar Ahmed
About the Author: Mukhtar Ahmed Read More Articles by Mukhtar Ahmed: 70 Articles with 132657 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.