بوجھ

تحریر: فاطمہ خان، اٹک
تمہاری سرمئی آنکھیں بلا کی محسور کن ہیں۔ ایسا نشہ ہے ان میں کہ سامنے والا اپنے ہوش گنوا بیٹھے۔ مخروطی ناک پہ یہ ستارہ۔اف! بلا کا دلنشین لگتا ہے۔ رخسار کے یہ گڑھے تمہاری مسکراہٹ میں تمہارے چہرے کا حسن بڑھا دیتے ہیں۔ تم پہلے سے زیادہ حسین ہو گئی ہو فائقہ! ویسے اتنی تیاری کی وجہ؟ عموماً تم سادہ سی رہتی ہو شادیوں پہ۔ پھر اب ایسا چینج ؟ احسن صاحب بیگم کو تیار ہوتا دیکھ کر چپ نہ رہ سکے۔ ’’ اب کیا اپنے بھائی کی شادی پر بھی تیار نہ ہو کر جائیں؟‘‘ ارے! ارے میں نے ایسا کب کہا۔ ایک بار نہیں، سو بار جائیے۔ ایسے ہی بن سنور کر جایا کیجیے۔ اگر برا نہ منائیں تو کبھی کبھار ہمارے لیے تیار ہو جایا کیجیے۔ اب ناراض مت ہوں، میں تو مذاق کر رہا تھا۔

احسن صاحب یونیورسٹی میں پروفیسر تھے اور آج بہت دنوں کے بعد شریکِ حیات سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کر رہے تھے۔ اب بتائیے تو کیسی رہی تعریف؟ ’’ بالکل صحیح فرمایا آپ نے۔ یہ زلفیں!!! یہ زلفیں تو کسی ناگن کی طرح پھن پھلائے ہوئے ہیں۔ افسوس کہ اب ان میں چاندی اتر آئی ہے‘‘۔ فائقہ بیگم نے شوہر کی بات کو مزید آگے بڑھایا‘‘۔ ہا ہا ہا ہا بہت خوب فائقہ بیگم۔ کمرے میں قہقہہ گونجا۔ ’’ آج لگ رہا ہے کہ لٹریچر کی طالبہ رہی ہیں کسی دور میں‘‘۔ آپ بھی ناں بس باتیں بناتے ہیں۔ چلیے دیر ہو رہی ہے۔ بچے انتظار کر رہے ہوں گے۔‘‘ فائقہ بیگم نے پرفیوم ڈریسنگ ٹیبل پہ رکھا اور دوپٹہ سیٹ کرتے ہوئے بولیں۔’’ ایک نظر جی بھر کر دیکھ تو لینے دو اور بچے اب بڑے ہو گئے ہیں۔ تمہارا بیٹا میڈیکل کے لیے انٹری ٹیسٹ پاس کر چکا ہے اب۔ ادھر دیکھو!!! تم سرمئی ساڑھی میں پریوں کی ملکہ دکھائی دے رہی ہو‘‘۔ اب بس بھی کیجیے پروفیسر صاحب! اب چلیے۔

’’بہت شکریہ اگر آج آپ یہ سب نہ کرتے تو میں اپنے خاندان میں اتنی عزت نہ پا سکتی۔ ابو کی وفات کے بعد علی کی شادی کے اخراجات پورے کرنا امی کے لیے قدرے مشکل ہوتا۔ طاہر بھائی اور آپ نے میری اور آپا کی اہمیت بڑھا دی۔‘‘ فائقہ بیگم شوہر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے رو دیں۔ ارے ارے! فائقہ یہ کیا کر رہی ہو تم ، ارے یار ہم علی کے بہنوئی ہیں۔ چھوٹا بھائی سمجھ کہ اس کی شادی کی اخراجات اٹھائے ہیں۔ تم رو مت۔ رونے سے ان نشیلی اکھیوں کا نشہ زائل ہو جائے گا۔ احسن صاحب بیگم کا موڈ خوشگوار کرنے کی کوشش کر تے ہوئے بولے۔

’’جی امی جان! آپ نے یاد کیا مجھے۔ ‘‘ احسن صاحب یونیورسٹی سے واپس پہنچے کہ بیگم نے پیغام دیا تو فوراً امی سے ملنے کمرے میں آگئے۔ ’’احسن بیٹھو میرے بچے۔ بہت تھک گئے ہو تم۔ میں شربت بنا کر لاتی ہوں‘‘۔ اماں جائے نماز سے اٹھنے لگیں تو بیٹے نے روک دیا۔ ’’ نہیں امی جان! آپ بتائیں کیا بات ہے؟

’’عبیلہ کا فون آیا تھا کل شام۔ اسے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔ اسد کا ہاتھ ذرا تنگ ہے تو تم کچھ پیسے بھیج دو اسے‘‘۔ جی امی ٹھیک ہے کتنے پیسے چاہیے ہیں۔ اس نے مجھے فون کیوں نہیں کیا؟ میں بھجوا دیتا اسے‘‘ بس رہنے دو ناں۔ مجھے بتا دیا یہ کافی نہیں ہے۔ بس زیادہ نہیں 50ہزار بھجوا دو۔ احسن صاحب کو تو جیسے سانپ سونگ گیا ہو۔ لیکن امی؟ آپ جانتی ہیں ابھی حالات کیسے ہیں۔ علی کی شادی پہ خرچا ہوا ہے۔ اگلے مہینے بھیج دوں گا۔ ‘‘ مجھے پتا تھا تم رن مرید ہو گئے ہو۔ ماں اور بہن کی پرواہ نہیں تمہیں۔ اﷲ جانے کہاں سے تعویز کر دیے میرے بیٹے پر۔ کیسا قابو میں کیا ہے کہ ماں کی بات بھی نہیں سنتا۔ صرف سسرال والوں کو کھلا، جو بھی کماتے ہو انہی پر خرچ ہوتا ہے بیگم کم تھیں، جو تم بھی ان پر لٹانے نکل پڑے۔‘‘اماں جی آج پھٹ پڑیں۔

برسوں پہلے جو چنگاری اپنے سینے میں دفن کیے ہوئے تھیں۔ آج وہ احسن کی ازدواجی زندگی میں آگ لگانے کے لیے تیار تھی۔ احسن صاحب نے یونیورسٹی کی دوست فائقہ سے پسند کی شادی کی۔ والدین کی مرضی کے بر خلاف۔ اماں جی آج اسی بات کا بدلہ لینے کو تیار تھیں۔ گھر میں ایک فساد برپا ہوگیا۔’’ اماں جی جیسا آپ سوچ رہی ہیں ویسا نہیں ہے اور شادی میں صرف بارات کا فنکشن میں نے اور طاہر بھائی نے ارینج کیا۔ وہ بھی اپنی خوشی سے کیا اماں جی۔ آپ دوبارہ یہ بات کبھی کسی سے نہ کیجیے گا۔ خصوصاً فائقہ سے ذکر بھی نہیں کیجیے گا۔ میں کچھ دن تک پیسوں کا بندوبست کر کے عبیلہ کو بھجوا دوں گا‘‘۔ احسن صاحب اک انجانی کیفیت سے دوچار تھے۔ بیگم کے پوچھنے پہ وہ کیا بہانہ بنائیں گے۔ یہی سوچ انہیں کھائے جا رہی تھی۔

’’کیا بات ہے؟ آج تم کچھ پریشان دکھائی دے رہی ہو۔ سب خیریت ہے ناں‘‘۔ فائقہ نے احسن صاحب کی کسی بات کا ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ فائقہ میں تم سے بات کررہا ہوں۔ جواب دو؟؟ ’’جانتے ہو احسن اماں جی نے آج بہت بے عزت کیا مجھے اور میرے والدین کو۔ میرے لیے اپنے والدین بالخصوص میرے والد مرحوم کے بارے میں ایسے ایسے الفاظ کہے کہ میں بتا نہیں سکتی۔ مجھے لگا تھا کہ میرے خاندان میں میری عزت بڑھ جائے گی لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ میرے والدین رسوا کیے جائیں گے۔ شادی پہ جو خرچ کیا۔وہ آپ کی تجویز تھی، میری نہیں۔ پھر میرے والدین کو کیوں ذلت کی اس پستی میں دھکیل دیا گیا، جہاں سے شاید وہ کبھی نہ نکل سکیں۔ کیا مائیں ایسی بھی ہو تیں ہیں احسن؟ تم نے کہا اور میں نے 18 سال انہیں ائف تک نہیں کہا، وہ ہمیشہ سے اپنی بھانجی کو بیاہ کر لانا چاہتی تھیں، بارہا مجھے طعنے تشنے دیے لیکن میں سہہ گئی احسن۔ جانتے ہیں کیوں؟ بابا کو میرے انتخاب پہ کوئی شبہ نہیں تھا، اسی لیے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میں ہر مشکل میں اپنا گھر بچائیں گی، چاہے مجھے جھکنا پڑے۔ عورت ہی کو جھکنا ہوتا ہے ناں۔ میں جھک گئی۔ آپ کی امی جان کو اپنی ماں سمجھا۔ لیکن آج۔ آج اِس ماں نے دوسری ماں کا سینہ چھلنی کر دیا۔ میری امی کو فون کر کے بہت باتیں سنائی گئیں ہیں احسن۔ میں آپ کی ہی منتظر تھی۔ مجھے اس گھر سے نکال دیا گیا ہے۔ جس گھر کو میں بڑے مان سے اپنا کہا کرتی تھی اسی گھر سے بے گھر کردی گئی ہوں۔ میرا سامان گاڑی میں رکھوا دیں۔ میں اپنے والدین کی توہین کے ساتھ اس گھر میں رہنا بھی نہیں چاہتی‘‘۔ فائقہ کے آنسو اسے دل کا بوجھ ہلکا نہیں کرنے دے رہے تھے، جسے وہ برسوں چپ چاپ اٹھائے جی رہی تھی۔

فائقہ ایسا مت بولو۔ یہ گھر تمہارا ہے۔ تم سے ہی تو ہماری زندگی جڑی ہے۔ اماں جی کو سمجھاؤں گا میں۔ انہیں آنٹی سے معذرت کرنی ہو گی۔ تم فکر نہیں کرو۔ پلیز رک جاؤ فائقہ۔‘‘ احسن صاحب کی بے بسی فائقہ کو رکنے پہ مجبور نہ کر سکی۔ فون کی گھنٹی بجی فائقہ نے فون اٹھایا۔ خبر دی گئی فائقہ کی والدہ حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے دارِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ فائقہ بے سدھ گر پڑی۔ شاید اس کا بوجھ ہلکا ہو گیا تھا۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1141804 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.