کشمیریوں پر مظالم کا سدِباب مگر کیسے!

انڈیا کی جانب سے کشمیر کو دی گئی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے کشمیر کے حالات نہایت تکلیف دہ ہیں۔ لاکھوں کشمیری خاندان آپس میں رابطہ نہیں کر پا رہے، انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں کی جاری ہیں، عام لوگوں کے خلاف پیلٹ گن، پیپر گیس اور آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ مسلح فوجی راتوں کو گھروں میں گھس رہے ہیں۔ لڑکوں کو اٹھا رہے ہیں۔ گھروں میں توڑ پھوڑ کر رہے ہیں۔ دانستہ طور پر راشن کو زمین پر بکھیر رہے ہیں۔ گیس کمیاب اور گيس ایجنسیاں بند ہیں۔ بچوں کی خوراک کمیاب اور دوائیں ناپید ہیں۔ وہاں کے لوگوں کو خبروں تک کسی قسم کی کوئی رسائی نہیں ہے اور ذرائع مواصلات منقطع ہیں۔

الغرض پانچ اگست سے اب تک انسانی حقوق کی تمام تر خلاف ورزیاں اپنے عروج پر ہیں۔ اس سلسلے میں اب تک پاکستان کی طرف سے مذمت، احتجاج، یوم سیاہ منانے اور سفارتی اقدامات سے بڑھ کر کوئی مؤثر قدم اٹھایا گیا ہے اور نہ ہی کئے جانے والے اقدامات سے بہارتی مظالم میں کوئی کمی آئی ہے۔ پاکستان نے اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کے بعد اب عالمی عدالت انصاف میں جانے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ان ادروں نے پہلے کونسا ظلم کی چکی میں پستے مسلمانوں کے لئے کچھ کیا ہے جو اب کرلیں گے؟ آزمایا تو ان کو جاتا ہے جن کو پہلے آزمایا نہ گیا ہو، البتہ اپنی حجت تمام کرنے کا فائدہ ضرور ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہمارے ملک میں اصحابِ فتویٰ اور اہل رائے علماء کی کمی نہیں، سو امید ہے کہ وہ حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے کوئی مؤثر اور ملک و قوم کے حق میں مفید مشورہ اربابِ اقتدار اور مسلح افواج کو ضرور دیں گے۔ اس وقت کشمیریوں کی آہ و بکا اور چیخ وپکار کو سامنے رکھتے ہوئے ہماری نظر میں قرآن کریم کی یہ آیت پاکستان کے اربابِ اقتدار اور افواج کو مخاطب کر رہی ہے کہ:
"اور (اے مسلمانو) تمہارے پاس کیا جواز ہے کہ اللہ کے راستے میں اور ان بےبس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو یہ دعا کر رہے ہیں کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اس بستی سے نکال لایئے جس کے باشندے ظلم توڑ رہے ہیں، اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی حامی پیدا کردیجئے، اور ہمار لیے اپنی طرف سے کوئی مددگار کھڑا کردیجئے۔ سورہ نساء آیت نمبر 75

اسلام پوری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کو ایک اکائی قرار دیتا ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے: ’’مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘ (الحجرات:10)

حدیث نبوی ہے:
’’باہمی محبت اور رحم و شفقت میں تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں، جب انسان کے کسی عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے جسم کے تمام اعضاء بے خوابی اور بخار کا شکار ہوجاتے ہیں۔ (صحیح مسلم) ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر زیادتی کرتا ہے، نہ اس کو اوروں کے سپرد کرتا ہے۔الخ۔ (صحیح مسلم)

اگرچہ یہ مسئلہ انسانی بنیادوں پر حل کرنا پوری دنیا کی ذمہ داری ہے، لیکن اس وقت دنیا کی نظریں مفادات پر جمی ہوئی ہیں اور مفادات بیشتر اسلامی ممالک سمیت پوری دنیا کے بہارت سے وابستہ ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان کی نوعیت دیگر مسلم ممالک سے مختلف ہے۔ کشمیر جغرافیائی اعتبار سے پاکستان اور بھارت کا مسئلہ ہے۔ پاکستان اپنے وجود کے وقت سے ہی کشمیر کو شہِ رگ کہتا آرہا ہے، جبکہ دوسری طرف بھارت اسے اپنا اٹوٹ کہتا ہے۔ مطلب دونوں کا ایک ہی ہے یعنی بدن کا حصہ، جسے جسم سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا قانونی لحاظ سے یہ مسئلہ پاکستان اور بھارت ہی کا رہِ جاتا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے مسئلہ کشمیر 72 سال سے اگر چلا آرہا ہے تو آگے بھی چلتا رہے، اس کا حل بزورِ بازو ہو یا اقوامِ متحدہ اور عالمی عدالت انصاف کے تھرو، جلد ہو یا بدیر، ہمیں اس میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ ہمیں تو کشمیریوں پر بھارتی ستم ستایا جارہا ہے۔ ان کی شناخت ختم ہونے کی فکر ہے۔ ہم تو ان کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش پر دل گرفتہ اور ان کی جنت نظیر وادی کو جہنم میں بدلنے پر شکستہ خاطر ہیں۔ اور اس کا حل سوائے جہاد کے اور کچھ نہیں، جہاد بھی برائے نام اور جھتوں کی شکل میں نہیں بلکہ جب حکومتِ وقت کے حکم پر ہماری افواج کریں۔ دسیوں مواقع پر جنگ سے بچتے بچتے ہم نے کونسی معاشی ترقی کی ہے جو اب جنگ سے منہ موڑ لینے سے کرلیں گے؟ امن پسندی اور اخلاقیات کے درس دینے سے کونسی ہماری عزت افزائی کی گئی؟ مسلمانوں کی امن پسندی امن پسندوں کے لئے ہوتی ہے، اور بھارت کی امن پسندی ابھینندن کو شان وشوکت سے دشمن کے حوالے کر کے آزمائی گئی۔ راہداری اور فضائی راستوں کے ذریعے آزمائی گئی۔ ان کی تو اقوامِ متحدہ میں بیٹھی خیر سگالی کی سفیر بھی دہشتگرد نکلی۔ جنگ تو وہ خود مسلط کرچکے ہیں۔ وہ کہ چکے ہیں کہ" آزاد کشمیر بھی ہمارا ہوگا اور وہ وقت دور نہیں جب ہم لاہور اور کراچی کے پوش علاقوں میں گھر خریدیں گے"

وہ اندر بھی آئے اور بحفاظت چلے بھی گئے۔ وہ جنگ اور صرف جنگ چاہتے ہیں اور جنگجویانہ اور فسادی قوم کا علاج فقط جنگ میں ہے۔ قتال اور جہاد میں ہے۔

جب تک کوئی ذوالقرنین بن کر نہتے کشمیریوں پر بھارتی یاجوج ماجوج کے مظالم کے سامنے بند نہیں باندھے گا تب تک بھارتی ظلم وستم یوں ہی جاری رہے گا اور ہم بدستور (اب تو مار کر دیکھ) کِہ کر مزید پٹتے رہیں گے۔ ایک التماس ان حضرات سے جو ایجنسیوں کے کہنے پر مجاہدین کا کردار ادا کرتے رہے ہیں، کہ بے شک جہاد کریں لیکن فوج کے شانہ بشانہ، اس بار باجوہ صاحب کے کان میں یہ کھسر پھسر ضرور کر لیجئے گا کہ" آگے آپ ہونگے اور پیچھے ہم، جنت کے مستحق آپ بھی ہیں، اس کی زمین بڑی وسیع ہے جس میں آپ، ہم اور قوم کے بیٹے سب سماسکتے ہیں، چیف جی! کبھی لڑ بھی لیا کریں یوں بیٹھے بیٹھے سیاست کی پیچیدگیوں میں الجھنے سے انسان اپنی پشہ ورانہ مہارت سے دور نکل جاتا ہے" اگر وہ گرتی معیشت اور وسائل کی کمی کا عذر کریں تو حوصلہ بڑھانے کے لئے جنگ بدر کا حوالہ ضرور دینا! زرا سی سخت، مگر سچ بات لکھی ہے ناراض نہ ہوجائیے گا! جنگ کے لئے کہنے والے کی شرکت کے بغیر مت لڑنا! ورنہ آج کی دنیا میں مجاہد سے دہشت گرد بننے میں دیر نہیں لگتی۔
 

Mufti Abdul Wahab
About the Author: Mufti Abdul Wahab Read More Articles by Mufti Abdul Wahab: 42 Articles with 40704 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.