معاشرے میں نشہ کا بڑھتا رجحان اور اس کے مضمرات !

انسان کی زندگی ،صحت،جسم اورطاقت اس کی اپنی ملکیت نہیں بلکہ اﷲ پاک کی عطاء کی گئی یہ نعمتیں اس کے پاس امانت ہیں۔امانت میں خیانت توکسی طورپر بھی جائز نہیں۔بنیادی طورپردیکھا جائے توشریعت کے تمام احکامات کی منشاء اورمقصدبھی یہی بتایا جاتا ہے کہ دین کی حفاظت،جان کی حفاظت،نسل کی حفاظت، مال اورعقل کی حفاظت۔اس لحاظ سے غورکیا جائے توعقل وفکرکی حفاظت اسلام کے بنیادی مقاصدمیں شامل ہے۔انسان کی زندگی کی سب سے بڑی خوبی اخلاق وکردارہے۔ اسلام میں جن کاموں سے شدت اورسختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے ان میں نشہ کااستعمال بھی ہے۔قرآن مجید نے نشہ کوحرام بلکہ ناپاک قراردیا ہے۔

نشہ انسان کی عقل کوماؤف اوراخلاقی پاکیزگی سے محروم کردیتا ہے،نشہ انسان کواپنے آپ سے بے خبراورغافل بنا دیتاہے اوربدمستی میں اسے اپنا ہوش رہتاہے نہ دوسروں کے حقوق وفرائض کی پرواہ اورنہ ہی قانون،نظم وضبط کا احترام اورخوف۔نشہ صحت کونقصان پہنچاتا ہے،منشیات ایک ایسا قاتل ہے جو انسان کو عقل وفہم سے عاری کردیتا ہے۔نشہ جسم کوکمزور،عقل کومغلوب اور انسان کوآہستہ آہستہ موت کے گھاٹ اُتاردیتا ہے۔اسی لئے نشہ آوراشیا کے ساتھ تمام ایسی چیزوں سے منع کردیا گیاجن سے صحت میں خلل اورعقل میں فتورواقع ہو۔

اسلامی تعلیمات اورامور الٰہی کی انجام دہی میں غفلت وکوتاہی کے سبب انسان کے اندربے چینی اوربے قراری پیدا ہوتی ہے جبکہ احکام الٰہی کی تعمیل اورتکمیل سے قرب الٰہی عطاء ہوتاہے۔جس سے بیرونی یعنی مادی اوردُنیاوی حالات جیسے بھی ہوں،انسان کے اندرکی کیفیت پرسکون اورمطمئن رہتی ہے،یعنی قرب الٰہی کی بدولت انسان ہرحال میں قلبی طورپرمطمئن اور پر سکون رہتا ہے۔آج کے انسان نے دُنیا اورحصول ِ دُنیا کوہی سب کچھ سمجھ لیاہے۔ بس اسی کے لئے ساری دوڑدھوپ ہے،اسی کی فکرمیں دن،رات ،صبح،شام بے چین اوربے قرارہے۔ زندگی میں لامحدود خواہشات کی تکمیل نہ ہونے اورمحرمیوں کے سبب انسان پر بے خوابی ،ڈیپریشن،احساس کمتری اورمحرومی کی کیفیت طاری ہوتی ہے، لالچ نے انسان کواپنے آپ،اپنے والدین،خاندان وقبیلہ حتیٰ کہ اپنے بیوی بچوں تک سے غافل کردیا ہے۔والدین کااولاد کی طرف سے لاپرواہ ،عدم توجہ اورتربیت کے لئے باقاعدہ وقت نہ دینے سے گھرسے باہرکے ماحول کے اثرات بچوں پرزیادہ تیزی سے مرتب ہوتے ہیں ۔ جس سے ان کی ذہنیت وخیالات معاشرے کے رنگ سے متاثرہوتے ہیں۔

گھریلوناچاقی اورروزبروزکے لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے والدین اولادپر توجہ اورانہیں وہ تربیت نہیں دے پاتے کہ نوجوان نسل معاشرے کے منفی اثرات سے متاثر ہونے سے محفوظ رہ سکے۔ والدین کی عدم توجہ،بے راہ روی،نوجوان نسل کافیشن کے طورپرنشہ کی عادت اختیار کرنااور نشہ آوراشیاء تک آسان رسائی،معاشرے میں منشیات کی روک تھام کے لئے نا مناسب اقدمات اوردیگرعوامل جیسے نواجون لڑکے اورلڑکیوں کا صحت مندانہ سرگرمیوں میں عدم دلچسپی،دین سے دوری،معیاری تعلیم و تربیت میں کمی کی وجہ سے نوجوان نسل کا غیراخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونے سے معاشرے میں شیشہ نوشی،نشہ آورادویات،کھانسی کے سیرپ،خواب آورگولیاں، نشہ آور انجکشن ، شراب، افیون، چرس، ہیروئن، کیفین اورآئس کے نشہ کارجحان بڑھتا جارہاہے،جوکہ انتہائی افسوناک امراورمعاشرے کی تباہی کا سبب بن رہاہے۔
منشیات کا استعمال انسان اپنی مرضی سے کرتا ہے۔یہ جاننے کے لئے ہے آخریہ ہے کیا؟پھرتجربہ کہ اس کاذائقہ کیسا ہے؟کیسامحسوس ہوتاہے؟ صرف چیک کرنے میں کیا حرج ہے؟اس طرح نشہ کی شروعات ہمیشہ تجسس اورمعمولی مقدارسے ہوتی ہے۔لیکن جب آہستہ آہستہ انسان اس میں آگے بڑھتا ہے توپھرعادت بن جاتی ہے،پھرایسا ہوتا ہے کہ اس کے بغیرتسکین نہیں ہوتی،آخرمیں نوبت یہاں تک آجاتی ہے کہ انسان بے بس ہوجاتاہے اوراسے اپنے آپ پرقابونہیں رہتا،پھرایک وقت آتا ہے کہ انسان اپنی تمام ذمہ داریاں اور ضروریات پس پشت ڈال کرمنشیات خریدنے اورمستقل استعمال پرمجبورہوجاتاہے۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : جس چیزکی زیادہ مقدار نشہ پیداکردے تو اس کی تھوڑی سی مقداربھی حرام ہے (سنن الترمذی:1865)

معاشرہ میں بڑھتے نشہ کے رجحان کے سبب اخلاقی گراوٹ، تشدد،عصمت ریزی،قتل وغارت گری،حادثات میں اضافہ سے قیمتی جانوں کا ضیاع،رشتوں کی پامالی جیسی بے شمار خرابیاں پیداہورہی ہیں،جس کے نتیجہ میں ملک میں امن وامان اورقانون،نظم و ضبط قائم رکھنے جیسے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہورہاہے۔اسی لئے نشہ کوصرف برائی اورمحض ایک گنا ہ نہیں کہاگیابلکہ برائیوں کی جڑ اورگناہوں کاسرچشمہ قراردیا گیا ہے۔

نشے کی عادت ہماری نوجوان نسل کو تباہ کررہی ہے۔پوری دُنیا میں پاکستان منشیات کے حوالے سے تیسرے نمبرہے۔آئس کا نشہ دوسری جنگ عظیم کے دوران متعارف ہواتھا۔جس کی جڑیں اب پاکستان میں بھی پھیل چکی ہیں اوروقت کے ساتھ ساتھ یہ پورے ملک میں عام ہوتا جارہاہے۔اس نشے کے عادی زیادہ تک کم عمربچے ہیں اوراکثریت ہمارے تعلیمی اداروں کے نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کی ہے۔تعلیمی اداروں میں منشیات کابڑھتا رجحان معاشرے کوناقابل تلافی نقصان کی طرف لے جارہا ہے اور نوجوان نسل کا مستقبل تباہ ہورہا ہے۔

منشیات سے پاک معاشرہ اورتعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام کے لئے عوامی سطح پربھرپورتعاون کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لئے پوری قوم کو یکسوئی اورصدق دل کے ساتھ کوششیں تیزکرنی ہوں گی۔معاشرے کو اس لعنت سے نجات دلانے کے لئے مسلسل اوربھرپورآگاہی مہمات کا انعقاد،ماہانہ اجلاس وتقریبات اور سیمینار منعقدکئے جائیں۔منشیات کے خلاف آگاہی واک۔عوام بالخصوص سکولوں ، کالجوں کے طلباء اورخواتین کی ذہنی تربیت کی جائے۔الیکڑانک،پرنٹ میڈیا،سوشل میڈیا سمیت ہرذریعہ ابلاغ پربھرپورمہم چلانے کی ضرورت ہے۔سکول،کالج،مدارس ومساجدسے منشیات کی روک کے لئے تربیتی پروگرام ترتیب دیئے جائیں۔

اس سب کے علاوہ منشیات کی روک تھام کے لئے حکومتی سطح پرفوری اورقابل عمل اقدامات کرنے ہوں گے۔لوگوں کونشہ کے انسان،معاشرہ ،مال ودولت کے ضیاع اور صحت پرپڑنے والے برے اثرات اورنقصانات کے بارے میں آگاہ کرنا ہوگا اوردیگرنشہ آوراشیاء سگریٹ،پان،گٹکا،بیڑی،نسوار،تمباکو،براؤن شوگر،نشہ آور ادویات جن کے استعمال سے نہ صرف انسان کے صحت وجسم کونقصان پہنچتاہے اورخطرناک نشہ کی طرف مائل ہونے کاذریعہ بنتی ہیں، ایسی تمام اشیاء کی خریدوفروخت پر چیک رکھنا چاہیے ۔ساتھ ہی ان تمام اسباب کی روک تھام کی جائے جومنشیات کے پھیلنے میں مددگارہیں۔منشیات کی سمگلنگ کوروکنا،اس مکروہ دھندہ میں ملوث بااثر افراد کوکیفرکردارتک پہنچانے کے لئے آئین وقانون کے مطابق سخت سے سخت سزائیں دینی ہوں گی،جس کے لئے حکام کوکسی قسم کے اثرورسوخ کی پرواہ کئے بغیر فوری اورسخت اقدامات کرنے ہوں گے۔
 

MUHAMMAD AKRAM AWAN
About the Author: MUHAMMAD AKRAM AWAN Read More Articles by MUHAMMAD AKRAM AWAN: 99 Articles with 92415 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.