5اور 6ستمبر کی درمیانی رات میجر شفقت بلوچ کی قیادت
میں 17پنجاب کی ڈی کمپنی ٹرکوں کے ذریعے بی آربی پہنچی۔ہر طرف رات کاسناٹا
تھا ‘چاند بھی بادلوں کی اوٹ آنکھ مچولی کھیل رہا تھا ۔نہ سردی تھی اور نہ
گرمی کی تلخی ‘ موسم خوشگوار اور معتدل تھا۔بی آر بی نہر کا پانی چاند کی
روشنی میں خوشنما منظر پیش کررہا تھا۔ 17 پنجاب کی ڈی کمپنی جب ہڈیارہ گاؤں
کے قریب پہنچی تو آدھی رات گزر چکی تھی ۔میجر شفقت بلوچ نے چند جوانوں کو
نگہبانی کی ڈیوٹی سونپ کر باقی جوانوں کو آرام کرنے کا حکم دیا۔ابھی مورچے
بھی نہیں کھودے تھے۔ بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے رن آف کچھ میں
ہزیمت اٹھانے کے بعداپنی مرضی کامحاذ کھولنے کی دھمکی دی تھی ۔جنرل چودھری
نے اپنے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کل ہم لاہور جم خانہ کلب میں فتح
کا جشن منائیں گے ۔ رات کا آخری پہر اونگھ رہا تھا ۔ کہ میجر شفقت بلوچ کی
آنکھ اچانک کھل گئی وہ نماز کی تیاری کرنے لگے کہ فائرنگ کی آواز سنائی دی
۔یہ مشن گن اور ماٹر کا فائر تھا۔میجر شفقت نے رینجر سے رابطہ کیاتو وہاں
سے جواب ملا کہ بھارتی فوج ٹینکوں اور توپوں سمیت لاہور کی جانب پیشقدمی
کرتی چلی آرہی ہے۔یہ اطلاع ملتے ہی میجر شفقت نے بریگیڈ کمانڈر کو بھارتی
حملے کی اطلاع دی تو کرنل ابراہیم قریشی نے کہا کہ بھارتی فوج کو صرف
دوگھنٹے روک لو ‘پوری قوم آپ کی احسان مند ہوگی۔بھارتی فوج ہڈیارہ گاؤں پر
قابض ہوچکی تھی گاؤں کے لوگ چیخ و پکار کرتے آرہے تھے ۔ اس لمحے میجر شفقت
نے اپنے جوانوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ بھارتی فوج نے حملہ کردیا ہے ‘ یہ
امتحان کی گھڑی ہے ‘ ہندووں کے سامنے مجھے شرمسار مت کرنا‘اگر ہم ایک سو دس
جوان ‘ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے 33لاکھ آبادی کے شہر لاہورکو بچالیتے
ہیں تو یہ سود ا مہنگا نہیں ہے۔میجر شفقت نے اپنے جوانوں کو دور دور پھیلا
دیا۔مقصد یہ تھا کہ دشمن کسی بھی جگہ سے نالہ عبور نہ کرسکے۔یہ کم نفری سے
بہت بڑی سپاہ کو روکنے کا وہ حربہ تھا جو میجر شفقت کے ذہن میں آیا۔میجر
شفقت بلوچ جب ہڈیارہ ڈرین کے کنارے کھڑے ہوکر دن کے اجالے میں دشمن کو اپنی
جانب آتا ہوا دیکھ رہے تھے تو ایک گولی ان کے بائیں بازو کو چھو کر گزر گئی
۔انہوں نے اپنے ساتھیوں کو بازو کا زخم دکھاکر کہا کافر کی گولی ہمارا کچھ
نہیں بگاڑ سکتی ۔اسی اثنا ء میں حولدار رحمت چلایا سر وہ دیکھیں دشمن کے
ٹینک۔واقعی دشمن کے ٹینک صف بندی کیے ادھر ہی چلے آرہے تھے۔میجر شفقت نے
حکم دیا ڈرین کے پل کو بارو لگاکر تباہ کردو۔ایک زور دار دھماکہ ہوا لیکن
پل تباہ نہ ہوا کچھ اس طرح بیٹھ گیا کہ گاڑیاں آسانی سے گزر سکتی تھیں۔میجر
بلوچ نے ایس او ایس کا فائر مانگا ۔ساتھ ہی اپنی جیپوں سے آر آر پر فائر
بھی کھول دیا۔نائیک منصف کو حکم ملا وہ دشمن کے پہلے ٹینک کا نشانہ لے کر
فائر کرے۔ فائر کھلتا ہے دشمن کے پہلے ٹینک کے پرخچے اڑ جاتے ہیں ۔دشمن کی
پیش قدمی رک جاتی ہے۔ اسے پہلی بار احساس ہوا کہ پاک فوج کے جوان بھی ڈرین
کے اس پار موجودہیں۔ اب دونوں جانب سے تابڑ توڑ جنگ شروع ہوچکی تھی لیکن
حیرت کی بات یہ تھی کہ ہمارے فائر نشانے پر لگتے لیکن بھارتی فوج کے فائر
بیکار جاتے ۔ جب بریگیڈئر اصغر قریشی نے وائر لیس پر میجر شفقت سے رابطہ
کیاتو اس وقت دشمن کو ہڈیارہ ڈرین کے اس پار رکے ہوئے دو گھنٹے سے زائد وقت
ہوچکاتھا ۔بریگیڈکمانڈر نے کہا‘ میجر شفقت مجھے تم پر فخر ہے تم نے وہ
معجزہ کردکھایا ہے جس کی قوم کو ضرورت تھی۔میجر شفقت نے کہا سر میں آخر ی
جوان اور آخری گولی تک دشمن کو ادھر سے پیش قدمی نہیں کرنے دوں گا۔ یہ میرا
آپ سے وعدہ ہے ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ایک کمپنی کے خلاف دشمن کی اٹھارہ
کمپنیاں برسرپیکار تھیں۔جن کے پاس ٹینک اور بھاری توپ خانہ بھی تھا۔جبکہ
پاکستانی کمپنی موثر ہتھیاروں سے محروم تھی۔اسی اثناء میں میجر شفقت نے
دیکھا کہ جنوب مشرق کی جانب سے دشمن کے ٹینک نالے کو عبور کرنے کی کوشش
کررہے ہیں ۔آرٹلری کا فائر مانگا تو جواب ملا میجر ہمارے پاس اتنے گولے
نہیں ہیں۔معاملے کی نزاکت بتائی تو گولے برسے آگ اور دھوئیں کے بادل بلند
ہوئے اور ایک بار پھر دشمن کے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے۔9بجے صبح جنرل چودھری
نے لاہور جم خانہ کلب میں شراب کے جام ٹکڑانے تھے لیکن اب ساڑھے دس بج رہے
تھے ۔دشمن کی بکتر بند گاڑیاں پہلی دفاعی لائن سے ٹکرا کر سر پھوڑ رہی
تھیں۔لاہور بہت دور تھا۔ انہی لمحات میں صدر پاکستان جنرل محمد ایوب خان کے
ولولہ انگیز خطاب نے پوری قوم کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنادیااور پاک فوج
کے جوانوں کے حوصلے آسمان کو چھونے لگے۔امریکی ہفت روزہ میگزین "ٹائم"کے
جنگی وقائع نگار لوئیس کرار نے 23ستمبر 1965ء کے شمارے میں لکھا ۔میں شاید
اس جنگ کو بھول جاؤں لیکن میں اس پاکستانی افسر ( میجر شفقت ) کی مسکراہٹ
کونہیں بھول سکتا جو مجھے اپنے ساتھ محاذ جنگ پر لے گیا ان کی مسکراہٹ مجھے
بتارہی تھی کہ پاکستانی جوان کس قدر دلیر اور نڈر ہیں۔جوان سے جرنیل تک کو
میں نے اس طرح آگ سے کھیلتے دیکھا جس طرح گلی کوچوں میں چھوٹے بچے کانچ کی
گولیوں سے کھیلتے ہیں۔جب میجر عزیز بھٹی نے بی آر بی پر دفاعی پوزیشن
سنبھال لی تو میجر شفقت کو ڈی کمپنی کے ہمراہ واپس آنے کا حکم ملا۔ میجر
شفقت ‘ بٹالین ہیڈ کوارٹر پہنچے تو کرنل قریشی نے پوچھا کتنے جوان شہید
ہوئے ۔میجر شفقت نے بتایا صرف دو جوان وہ بھی واپس آتے ہوئے اپنی ہی بارودی
سرنگوں سے ٹکرا کر شہید ہوئے ۔بھارتی فوج ہمارا ایک بھی جوان شہید نہیں
کرسکی۔جبکہ اسی علاقے سے بھارتی فوج تین دن تک اپنے فوجیوں کی نعشیں اٹھاتی
رہی ۔میجر شفقت کو محافظ لاہور کے خطاب کے علاوہ جنرل محمدایوب خان نے
ستارہ جرات سے بھی نوازا ۔
|