نوجوان نسل کا المیہ

وہ گھر میں بیڈ کے اوپر بیٹھ کرپاس رکھے ہوئے لیپ ٹاپ پر جھکا ہوا تھا اور اسی اثناء میں اس کے موبائل کی گھنٹی بجی اور وہ فون پر مصروف ہو گیا اس بات سے بے خبر کے اس کی بوڑھی ماں شاید اسے آواز دے رہی ہے۔ (یار عاصم تو جلدی سے آن لائن آجا یہ ایک پٹواری پوسٹ پر کمنٹس کر رہا اور ہاں باقی سب کو بھی کہہ دے کے جلدی سے آن لائن آ جائیں اس پٹواری کی تو بینڈ بجائیں سمجھتے کیا ہیں یہ اپنے آپ کو)۔

ہماری نوجوان نسل کس طرف جا رہی ہے کیا یہ انہی پٹواری اور یوتھیے کی لڑائیوں میں پھنس کر رہ جائے گی؟

شاید مورخ بھی اس بات کو لکھے گا کہ اس ملک میں دو قومیں آباد تھیں ایک پٹواری اور دوسری یوتھیے۔ اور اسی بات کی وجہ سے ہماری نسل تباہ ہو رہی ہے ۔ہمارے ملک میں نچلے طبقے سے لے کر اوپر تک کوئی شخص بھی اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام نہیں دے پا رہا ہے اور اس کا ذمہ دار موجودہ حکومت یا پھر گذشتہ حکومت کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ حالانکہ اللہ نے اپنے کلام میں واضح فرما دیا ہے کہ جس طرح کی رعایا ہو گی اسی طرح کے حکمران ان پر مسلط کیے جائیں گے ۔ شاید یہ بات بھی ہم نے صرف دوسروں کو سنانے تک محدود کر لی ہے۔اور اس کے پیچھے جو بڑا مسئلہ ہے وہ یہی ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریاں چھوڑ کر دوسروں کے کاموں میں نوک جھونک کرتے ہیں ۔ اس کی مثال بالکل ایسے ہی ہے کہ ایک بینک کا مینیجر اپنی سیٹ چھوڑ کر گارڈ کی جگہ پر کھڑا ہو جائے کہ بھائی تم سے ٹھیک سے ڈیوٹی نہیں ہو رہی ، تو سارے کام حکمران کرنے سے تو رہے۔

دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اندر برداشت بھی ختم ہو چکی ہے اور ہم دوسروں کی بات صرف اس لیے سنتے ہیں کہ اس کا جواب دے سکیں جس کی وجہ سے اصلاح کا ذریعہ بھی تقریبا ختم ہونے کو ہے۔ تو بہتر یہی ہو کہ دوسروں پر نقطہ چینی چھوڑ کر خود کی اصلاح کرنی چاہیے اور خود کو بدلیں گے تو ہی نظام بدلے گا ۔ ہمارے باپ دادا نے جو دنیا پر حکومت کی ہے ان میں یہ سب برائیاں نہیں تھیں اور اللہ نے تو ہماری کامیابی کا وعدہ بھی کیا ہوا ہے لیکن ہاتھ پر ہاتھ رکھے منتظرِ فرداں رہیں گے تو پھر ایک دوسرے کو کوسنے کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔

Yahya Siddiq
About the Author: Yahya Siddiq Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.