گئے زمانے کی بات ہے ایک شخص کے حالات ٹھیک ہونے کا نام
نہیں لے رہے تھے جو بھی کاروبار کرتا مندے کا شکار ہو جاتا ،نوکری کرتا تو
دکان یا فیکٹری دیوالیہ ہو جاتی،کسی کے گھر جاتا تو اس کے ڈھور ڈنگر مرنا
شروع ہو جاتے ،خود کو آتا جاتاکچھ تھا نہیں چارو ناچار اپنی منحوسیت دور
کرنے کے لیے کسی عامل کامل پیر کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا ،بہت دور کہیں
جنگل میں ایک جوگی بابا ملے ان سے اپنی روداد بیان کی انہوں نے اپنے کسی
مرشد یا مجاور کا پتہ دیا جو کسی ٹاہلی والے بابا کے مزار کے ساتھ بیٹھے
تھے،یہ خوار ہوتا ادھر جا پہنچا بابا سے اپنی بپتا بیان کی ،بابا نے پوچھا
اب کیا چاہتے ہو بولا شارٹ کٹ جناب شارٹ کٹ ،جس میں پیسا بھی ہو محلات بھی
عیش و عشرت بھی اور بے پناہ طاقت بھی جس کے لیے دو چار جنات اگر میرے تابع
کر دیے جائیں تو نوازش ہو گی،بابا نے کہا کہ یہ سب اتنا آسان نہیں اس کے
لیے چالیس دن چلہ کشی کرنا پڑے گی امتحان بھی ہو ں گے اگر پاس ہو گیا تو
ستے خیراں ،اس نے ہر امتحان اور چلے کی حامی بھر لی اور طریقہ کار پوچھا
بابا جی نے گھنے جنگل کے اس پار موجود پہاڑ کی ایک چوٹی کی طرف اشارہ کیا
کہ وہاں چلا جا جھگی لگا کر بیٹھ جا اور اﷲ سے لو لگا لے سب مسئلے حل ہو
جائیں گے سب خواہشیں پوری ہو جائیں گی،کنگلا بڑا خوش ہوا اور فورا ہی پہاڑ
کی راہ لی اور پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر ایک طرف اپنی دری بچھا کر بیٹھ گیا
اور بتایا گیا منتر پڑھنا شروع کر دیا،ایک دو دن تو ٹھیک گذرے مگر چوتھے دن
شام کے وقت ایک ہندو بھی اپنا بھگوان بغل میں دابے اسی چوٹی پر آن پہنچا
اور کنگلے سے تھوڑا دور بیٹھ کر بھگوان سامنے رکھ کر اس نے بھی اپنا جاپ
شروع کر دیا،مسلمان صاحب نے سمجھا شاید یہ کوئی جن بھوت ہے جو امتحان لینے
آیا ہے مگر تھوڑی دیر بعد جب ہندو نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی اور اپنا
منتر پڑھتا رہا تو یہ بھی مطمئن ہو کر اپنے کام میں مشغول ہو گیا ،ایک دو
دن دونوں ایک دوسرے سے بیگانہ اپنے اپنے جنتر منتر پڑھتے رہے ایک دن مسلمان
کے جی میں آئی کہ کیسا پاگل ہے جو مورتی کے سامنے جاپ کر رہا ہے کیوں نہ
اسے تبلیغ کی جائے اور ایک خدا کے سامنے سر جھکانے کی تلقین کی جائے،اگلی
صبح مسلمان ہندو کے نزدیک پہنچا اور خدا کی وحدانیت بیان کی مگر چونکہ ہندو
خبیث روح تھی اس نے کہا نہیں میرا بھگوان سچا ہے جب مسلمان نے لگاتار اپنی
تبلیغ جاری رکھی تو ہندو نے تنگ آ کر ایک دن مسلمان کو کہا ہاتھ کنگن کو آر
سی کیا اس کے لیے شرط لگا لیتے ہیں یہ جو پہاڑ ہے جہاں سے نسبتا کم اونچا
ہے کے کونے سے زمین پر چھلانگ لگاتے ہیں جس کا خد ا سچا ہو گا وہ بچ جائے
گا جس کا جھوٹا ہوا وہ مر جائے گا،مسلمان جو ذہنی طور پر اس شرط کے لیے
قطعا تیار نہیں تھا تذبذب میں پڑ گیا مگر تھوڑی دیر بعد جب ایمانی غیرت نے
جوش ما را تو راضی ہو گیا ساتھ اپنی شرط رکھ دی کہ پہلے چھلانگ ہندو مارے
گا مسلمان بعد میں میدان میں کودے گا،ہندو مان گیا دوسرے دن مقررہ وقت پر
ہندو اپنی مورتی کے پاس بیٹھا کافی دیر گیان دھیان کر تا رہا اورپھر اسے
ایک طرف رکھ کر پہاڑ کے کونے پر پہنچا اور چھلانگ لگا دی اونچائی کچھ زیادہ
نہ تھی یا وہ جمپنگ کا ماہر تھا کہ صحیح سلامت نیچے پہنچ گیا ہاتھ ہوا میں
بلند کر کے جشن منانے کے بعد مسلمان کو اشارہ کیا کہ چل بھائی اب تیری
باری،مسلمان جسے تھوڑی دیر پہلے پکا یقین تھا کہ کچھ نہیں ہو گا عین وقت پر
تھوڑا نروس ہو گیا اور دعا وغیرہ مانگنے کے بعد جب چھلانگ لگانے والی جگہ
کی طرف چلا تو ایک طرف ہندو کی مورتی پڑی تھی اسے دیکھ کر رک گیا،آہستہ
آہستہ اس کے پاس گیا اور پاس پہنچ کر بولا کہ میں چھلانگ لگانے لگا ہوں
مجھے پتہ ہے کہ میرا اﷲ سچا ہے جو مجھے کچھ بھی نہیں ہونے دے گا،میں چھلانگ
لگانے سے پہلے آپ کو بتانے آیا ہوں کہ کہ ایسا ویسا مسئلہ تو کوئی نہیں مگر
:تسی وی تھوڑا دھیان رکھے:یہ کہانی حکایت یا لطیفہ مجھے اپنی حکومت اور
انڈیا کی حکومت دونوں کی کشمیر پالیسی اور ٹرمپ سرکار کی ثالثی پر یاد آیا
،ہم بھی کتنے بھولے ہیں کہ اسی عطار کے لونڈے کو مسیحا سمجھے بیٹھے ہیں جو
اس ساری بیماری اور خرابی کی جڑ ہے،انڈیا نے مقبوضہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت
ہی ختم کر دی ،مکمل قبضہ کر کرفیو لگا دیا ان کا وزیر داخلہ کہتا ہے ہم نئی
آبادی بسائیں گے مردوں کا خاتمہ کر کے عوتوں کو اپنے مردوں کے حوالے کر کے
ایک نئی نسل لے آئیں گے،وزیر دفاع کہتا ہے کسی نے کشمیر کا نام بھی لیا تو
ایٹم سے اڑا دیں گے مگر ہم ابھی دنیا کی طرف دیکھ رہے ہیں یا اب کے مار
والی صورتحا ل سے دوچار ہیں ،اگر اگر ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی
اگر انڈیا نے حملہ کیا اگر انڈیا نے یہ کیا تو،، او بھائی ابھی اور کچھ
کرنا باقی ہے کیا ایک طرف اس نے آپ کے نرخرے یعنی شہہ رگ پر ہاتھ رکھا ہوا
ہے آپ اگر مگر کر تے دھوپ میں کھڑے ہو کر اپنے ہی ملک کو جام کیے بیٹھے ہو
،قوم کو تیار کر رہے ہیں کیا کشمیر کے معاملے پر مزید قوم کو کسی تیاری کی
ضرورت ہے ہر گز نہیں پوری قوم تیار ہے اگر آپ کی ٹانگوں کی تھر تھراہٹ تھمے
تو قوم تو کشمیر کے لیے مرنے مارنے کے تلی بیٹھی ہے آپ نے پہلے ٹرمپ کی
ثالثی کا لولی پاپ دیا ا س کے بعد سڑکوں پہ کھڑے ہو کر دنیا کو تماشہ دکھا
رہے ہیں کہ ہم ایٹمی قوت ہیں قوت ایمانی سے سرشار ہیں مگر ساتھ ٹرمپ سے بھی
امید رکھی ہوئی ہے بت مٹی کا ہو یا گوشت کا بت بت ہی ہوتا ہے چو بیس روز سے
ہماری شہہ رگ کشمیر ہندو بنیے کے ہاتھ میں ہے ، ماؤں بہنوں بیٹیوں کی عزت
اور معصوم انسانی جانوں کی ہولی کھیلی جا رہی اور ہم ابھی اگر مگر میں مگن
ہیں ، صاحفتی تنظیم الوجود کے کچھ دوستوں کے ہمراہ گذشتہ دن سینٹ اجلاس کی
کاروائی دیکھنے کے لیے ایوان بالا میں گئے وہاں پر کشمیر ایشو زیر بحث تھا
مولانا غفور حیدری اور سینٹر سراج الحق صاحب بھی سیشن میں موجود تھے مگر سب
سے خوبصورت تقریر ایم کیو ایم کے بیرسٹر سیف نے کی انہوں نے کہا کہ خدارا ب
یہ سڑکوں پر دھوپ میں کھڑے ہونے کے ڈرامے بند ہونے چاہییں،نقصان جو ہونا
تھا ہو چکا، مودی نے جو کرنا تھا کر دیا انڈیا نے کشمیر پر جو قبضہ کر نا
تھا وہ کر چکا،جس طرح اس نے سوچا تھا اس نے اس پر عمل کر ڈالا، اس نے ہمارے
منہ پر زناٹے دار تھپڑ رسید کیا ہے جس کا سب سے کم جواب ویسا ہی تھپڑ ہے جن
کو ٹرمپ سے امید ہے یا موم بتی مافیا سے تو ان کو میں بتا دینا چاہتا ہوں
مسلمان کو کہیں بھی سڑکوں پر ہجوم جمع کرنے موم بتیاں جلانے یا ٹریفک سگنلز
ریڈ کر کے ٹریفک روک دینے کا حکم نہیں ہے نہ ہی یہ کوئی یکجہتی کا اظہار ہے
یہ سب ڈرامہ اور دل کو بہلانے کا طریقہ ہے ،کشمیری مائیں بہنیں اور بیٹیاں
ہمیں پکار رہی ہیں ،اس پکار کا جواب موم بتی جلانا یا دھوپ میں کھڑا ہونا
نہیں بلکہ وہ ہے جو قرآن نے ہمیں بتایا ہے ،نکلو جہاد کے لیے اب نہیں نکلو
گے تو کب نکلو گے،کشمیر میں حشر بپا ہے جو ہمیں بلا رہا ہے ، کشمیر اس وقت
تک آزاد نہیں ہو گا جب تک ہم جہاد فی سبیل اﷲ کا راستہ نہیں اپنائیں گے اور
رہی بات مودی اور انڈیا کی تو یاد رکھیے دنیا کی منتیں ترلے کرنے سے بالکل
بھی مودی باز نہیں آئے گا مودی صرف اس وقت باز آئے گا جب اس کے فوجیوں اس
کے کرنلوں اور میجروں کی لاشیں کشمیر کی گلیوں میں گھسیٹی نہیں جائیں گی اس
کے علاوہ قضیہ کشمیر کا کوئی حل نہیں ،ہم ایٹمی طاقت ہیں ،بیرونی دنیا خواہ
وہ گلف ہو یا یورپ ہر کسی کو اپنا مفاد عزیز ہے،ٹرمپ سے ثالثی کی امید
دیوانے کے خواب کے علاوہ کچھ نہیں،اس معاملے میں حکومت اور اپوزیشن کو ایک
پیج پر آکے آگے بڑھ کر بھرپور حکمت عملی کے تحت سخت ترین کاروائی کرنی
چاہیئے،بیرسٹر سیف نے جو کچھ کہا وہ کوئی الجبر ا یا لمبی چوڑی سائنس نہیں
مگر عمل کے لیے ہمت اور جرات بھی درکار ہے،پاک فوج تیار ہے قوم بھی تیار ہے
مگر حکمران فیصلے سے عاری ہیں ،حکومت اور جناب وزیر اعظم سے گذارش ہے کہ
جناب آگے بڑھیں اب وقت ہمت دکھانے کا ہے آپ مثال ٹیپو اور صلاح الدین کی
دیتے ہیں مگر جناب عالی ٹیپو سلطان او ر صلاح الدین ایوبی خالی تقریریں
نہیں کرتے تھے نہ دھوپ میں کھڑے ہوئے نہ انہوں نے کبھی کسی چوک چوراہے پر
موم بتی جلائی،آپ کے اس نئے انداز اظہار یکجہتی نے تو یقینا اقبال اور قائد
اعظم کی روحوں کو بھی حیران کر دیا ہو گا کہ ہم کیوں اتنی لمبی چوڑی جدوجہد
کرتے رہے دلی ،لاہوریا حیدر آباد دکن کے کسی چوک میں دو چار گھنٹے کھڑے ہو
جاتے معاملہ حل ہو جاتا ،یاد رکھیے ٹیپو سلطان اور صلاح الدین ایوبی کی
مثالیں دے کر دھوپ میں کھڑے ہونے والے ، موم بتیاں جلانے والے اور اﷲ پر
یقین رکھ کر مورتیوں کو تسی وی ذرا خیال رکھے کا کہنے والوں کے ساتھ دنیا
یہی کچھ کرتی ہے جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے،،،اﷲ ہم پر رحم کرے |