رٹو طوطے

پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے - اس تنزلی کا سب سے زیادہ شکار تعلیم کا میدان ہے -نصاب برسوں پرانا رائج ہے -وہی گھسے پٹے طریقے ہیں -یہاں گریڈذ اہم ہیں لہذا رٹو طوطے کامیاب ہیں -شوقیہ پڑ ھنے والوں کوکسی یونی ورسٹی میں داخلہ نہیں ملتا کیونکہ وہ رٹو طوطے نہیں ہوتے -یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان کی کوئی یونی ورسٹی ورلڈ رینکنگ (بین الاقوامی یونی ورسٹیؤں کی لسٹ ) میں پہلے دس نمبروں میں اپنی جگہ نہیں بناسکی -

طب کے میدان میں بھی یہ ہی حال ہے -کڑوروں روپے انٹری ٹسٹ کے ضمن میں کمایا جاتا ہے -ڈاکٹری کی ڈگری لینے والوں کا میعار آج دنیا میں پست ترین ہے -ایک ریسرچ کے مطابق پاکستانی ڈاکٹرز کو مہنگا اورنکماترین قرار دیا جا چکا ہے -کیونکہ تعلیم کاروبار بن چکی ہے -

پاکستانی یو نی ورسٹیؤں نے ایم فل اور پی ایچ ڈی لیول پر انٹری ٹسٹ کے نام پر لاکھوں کی کمائی کو وطیرہ بنایا ہوا ہے جب کہ یہ داخلہ صرف اپنی یونی ورسٹی کے سابقہ سٹوڈنٹس کو دیتے ہیں -یعنی اپنی کلاس کو ہیآگے لے کر جاتے ہیں پھر سفارشی امیدواروں کو بھی تو داخلہ دینا ان کے فرائض میں شامل ہے - ہاں ! سفارش مگر وائس چانسلر کی ہونی چاہیے - انٹر ویو لسٹ میں چند گھنٹےکے بعد تین چار امیدوار مزید شامل کردیے جاتے ہیں - پنسل سے نمبرنگ کی جاتی ہے -پھر نیچے والے سفارشیوں کو لسٹ میں اوپر لایا جاتا ہے - اب رٹو طوطوں کی باری ہے -اے پلس گریڈ لینے والے یہ طالب علم رٹے مار کے اے پلس گریڈ لے لیں گےلہٰذا ان کو انٹرو ویو میں صرف نام اور جی پی اے پوچھا جاتا ہے -لیجئے اردو زبان کی طرح ملواں لسٹ تیار ہے - کھچڑی زبان کے امیدواروں کی کھچڑی لسٹ تیار ہے - تخلیقی اور زرخیز ذہن کے مالک افراد کو یہداخلہ نہیں دیں گے کیونکہ ذہانت ان کا معیار نہیں ہے - ان کا معیار ان جیسے لکیر کے فقیر ہیں جن کے سامنے ان کے علامہ ہونے کا پول نہ کھل سکے -

ایسے فارمولوں پر عمل کے باوجود ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑ تا ہے -آے دن ان نام نہاد جامعات جہاں تعلیم نہیں کاروبار کیا جاتا ہے -ان میں اعلی تعلیمی ڈگریوں کے پروگرامز پر H E C کی طرف سے پابندی لگجاتی ہے - دو تین سال کا عرصہ ان کا فیسوں کا کاروبار بند ہوجاتا ہے کیونکہ ان کے رٹو طوطے طالب علم تھیسس اور کریڈٹ آورز مکمل نہیں کر پاۓ پھر یہ سلسلہ دوبارہ جاری ہوجاتا ہے -

رٹو طوطے ڈگری لے کر تعلیمی میدان میں استاد بھرتی ہوجاتے ہیں -سنیر سبجیکٹ ٹیچر بن جاتے ہیں اور مزید رٹو طوطے پیدا کرتے ہیں - ہر انسان جو دنیا سے لیتا ہے وہی لوٹاتا ہے - سرکاری اسکولوں کے تعلیم یافتہاحساس کمتری کے مارے رٹو طوطوں سے جو انہوں نے سیکھا ہے وہی اگلی نسل کو منتقل کریں گے - یہاں نہ نظام بدلے گا نہ پاکستان سنورنے گا - جو انسان ہر میدان میں ناکام ہوجاتا ہے وہ پاکستان میں استاد بن جاتاہے اور قوم کی تعمیر کا ٹھیکے دار بن جاتا ہے - جیسے استاد ویسی قوم -
پڑ ھے لکھے جاہلوں کی رٹو طوطا جماعت - یہ ہیں مستقبل کے معمار -

NADIA UMBER LODHI
About the Author: NADIA UMBER LODHI Read More Articles by NADIA UMBER LODHI: 51 Articles with 89229 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.