ہمارے دماغ کوئی بالکل بے عیب ہر لمحہ مستحکم چلنے والی
مشینیں نہیں ہیں۔ دن بھر کے واقعات پر ہمارا جسمانی ردعمل ہر وقت یکساں
نہیں ہوتا۔ شاید آپ کو بھی معلوم ہے کہ کھانا کھانے کے بعد سستی محسوس ہوتی
ہے۔ لیکن ہمارا نیورولوجیکل ردعمل صرف کھانے کے بعد ہی تبدیل نہیں ہوتا۔
|
|
ہم کس چیز سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کام کے دوران ہمارے دماغ میں تبدیلی
آرہی ہے؟ اور اگر آپ کو پتا چل جائے کہ آپ کی کارکردگی میں کب کمی آئی تھی
تو کیا آپ اپنا دن مختلف طرح سے پلان کریں گے؟ نیورولوجیکل تبدیلیوں پر
توجہ دے کر، کیا آپ اپنے دماغ سے بہتر کام کروا سکتے ہیں؟
تناؤ والے کام صبح کے لیے شیڈول کریں
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اگر آپ قدرتی طور پر صبح اٹھنے والے لوگوں میں سے
نہیں ہیں تو بہتر یہی ہے کہ آپ خود کو اس کے لیے مجبور کرنے کی کوشش نہ
کریں۔ مشہور کاروباری رہنماؤں کی تبلیغ اور شہرت یافتہ سلیبریٹیز کی فٹ
رہنے کی تراکیب کے باوجود، اپنی نیند کے قدرتی پیٹرن کو تبدیل کرنا تب تک
بہتر نتائج کا باعث نہیں بنے گا اگر یہ آپ کے قدرتی نظام سے ہم آہنگ نہیں۔
|
|
مگر پھر بھی صبح کا وقت دن کا ایک انتہائی اہم حصہ ہے۔ جاپانی کارکنوں پر
کی گئی ایک تحقیق کے مطابق ہم صبح کے اوقات میں تناؤ کی صورتحال کے واقعات
سے بہتر طور پر نمٹ سکتے ہیں۔
ورکروں کو جاگنے کے دو یا 10 گھنٹے بعد تناؤ کی صورتحال جانچنے کا ایک ٹیسٹ
دیا گیا۔ مقصد یہ دیکھنا تھا کہ وہ اسے صبح جاگنے کے بعد سب سے پہلے کرتے
ہیں یا رات کو آفس چھوڑتے وقت آخر میں۔
تحقیق کے مطابق صبح جلدی والے ٹیسٹ کے بعد ورکروں میں کورٹیسول کے لیول
کافی بڑھ گئے، لیکن تاخیر سے کرنے کے بعد نہیں۔
جاپان میں ہوکائیڈو یونیورسٹی کے پروفیسر یوجیرو یماناکا کہتے ہیں کہ
کورٹیسول ہمارے جسم کی حفاظت کے لیے ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ’کورٹیسول،
فائٹ یا فلائٹ کے ردِعمل میں ملوث سب سے اہم ہارمون ہے۔‘
اس ہارمون، کورٹیسول کے پیدا ہونے سے فائٹ یا فلائٹ کے اہم حصے یا اس پر
ردِعمل ہوتا ہی نہیں۔ کورٹیسول بلڈ پریشر کو منظم کر دیتا ہے اور خون میں
شوگر کی سطح بھی بڑھا دیتا ہے۔ یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ جب آپ تناؤ
میں ہیں، تو آپ خوف محسوس نہ کریں بلکہ، اس سے نمٹنے کے لیے آپ کے پاس
توانائی موجود رہے۔
یہ ہارمون تناؤ کی صورتحال کے بعد توازن کو بھی بحال کرتا ہے جس کا مطلب یہ
ہے کہ آپ ایک دباؤ والی صبح کے بعد پرسکون ہو سکیں گے۔ لیکن اگر ایسا دن کے
اختتام پر ہو تو شاید یہ آپ کے دماغ پر حاوی رہے۔
یماناکا خبردار کرتے ہیں کہ دن کے اختتام پر بار بار ہونے والے کشیدگی کے
واقعات، طویل مدتی صحت کے مسائل جیسے کہ موٹاپا، ٹائپ 2 ذیابیطس اور
ڈیپریشن کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ ’اگر آپ شام کے اوقات میں تناؤ کی
صورتحال سے بچ سکتے ہیں تو بہتر ہے کہ ایسے کام جن سے آپ پر دباؤ پڑتا ہے
وہ صبح کے اوقات میں کر لیں۔‘
دوپہر کے اوقات میں اپنا زیادہ کارکردگی
والا لمحہ تلاش کریں
صبح کے اوقات میں شاید کورٹیسول کی سطح اتنی ہو کہ وہ ہمیں بہتر انداز میں
دن کا آغاز کرنے میں مدد فراہم کرے۔ کمپلٹینس یونیورسٹی آف میڈرڈ کی ماہر
نفسیات، کرسٹینا ایسکریبانو کے مطابق 'سب لوگ صبح کے اوقات میں زیادہ موثر
نہیں ہوتے۔ اس طرح کے قول کہ ’صبح جلدی اٹھنے والا پرندہ ہی کیڑے کو پکڑنے
میں کامیاب ہوتا ہے، اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ ہماری زندگیاں صبح کے
اوقات کے مطابق ڈھالی گئی ہیں، لہٰذا جو لوگ صبح کے اوقات کا انتخاب کرتے
ہیں وہی کامیاب رہتے ہیں۔‘
آپ صبح بیدار ہونے والے شخص ہیں یا آپ کو شام کا وقت پسند ہے، یہ چیز بہت
سی چیزوں جیسا کہ آپ کی عمر، جنس، سماجی اور قدرتی عوامل سے متاثر ہوتی ہے۔
تاہم کچھ کاموں کے لیے تیز رفتار بننے میں ہمارے جسموں کو کچھ وقت لگتا ہے۔
عام سی ذہنی مشقوں جیسا کہ ریاضی کے دوران کارکردگی کا ہمارے جسمانی درجہ
حرارت کے ساتھ باہمی تعلق ہے۔ درجہ حرارت جتنا زیادہ ہوگا، کارکردگی اتنی
ہی بہتر ہوگی۔
عام طور پر ہمارے جسم ابتدائی شام کے اوقات میں انتہائی گرم ہوتے ہیں۔ اس
لیے شاید ایسے آسان سے ذہنی کاموں کو کچھ دیر کے لیے ٹالنا بہتر ہو۔
سرکارڈین کلاک ہمارا دن بھر کا نظام کنٹرول کرتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ
ہم چاہے صبح اٹھیں یا شام کو، اس طریقہ کار پر اثر کم ہی پڑتا ہے۔
یونیورسٹی آف وارشو پولینڈ کے ایک سائیکالوجسٹ، کونرڈ جون کاسکی کہتے ہیں
کہ ’صبح جلدی بیدار ہونے والے لوگوں میں یہ لمحہ ذرا جلدی ظاہر ہوجاتا ہے
اور دیر سے اٹھنے والوں میں دیر سے۔ لیکن عام طور پر کچھ گھنٹوں کے وقت کا
یہ فرق حیران کن نہیں ہے۔‘
|
|
معمول کے کاموں کی وجہ سے جسمانی درجہ حرارت میں روزانہ کی بنیادوں پر آنے
والی تبدیلی، سیریبرل کارٹیکس میں میٹابولک سرگرمی کو بڑھا دیتی ہے ۔ اور
یہ کاگنیٹو پراسس کو تیز کر دیتا ہے۔ جون کاسکی کہتے ہیں ’کچھ تحقیقات کے
مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ دماغ کا زیادہ درجہ حرارت، تیزرفتار سینیپٹک
ٹرانسمیشن سے مطابقت رکھتا ہے۔ جسم کے درجہ حرارت میں مصنوعی اضافہ بھی
کارکردگی بڑھاتا ہے، لیکن صرف 37 سینٹی گریڈ سے تھوڑا زیادہ لیول تک۔ ایک
ابلتا ہوا دماغ اچھی طرح سے کام نہیں کرپائے گا۔‘
جون کاسکی کے مطابق نیند آنا، الرٹ رہنا، یاداشت کی کمی، حتی کہ ورزش کے
دوران کارکردگی، یہ سب جسم کے درجہ حرارت کے نظام سے منسلک ہیں۔ لیکن اس کا
مطلب یہ نہیں کہ درجہ حرارت ان تمام عوامل پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔
بلکہ دراصل یہ سرکارڈین کلاک ہے جو درجہ حرارت اور دیگر افعال کو متاثر
کرتی ہے، لہذا ہم اپنے درجہ حرارت کی پروفائل سےاپنی کارکردگی کی پیشن گوئی
کر سکتے ہیں۔ مثلاً صبح کے ابتدائی اوقات میں جسم کے کم درجہ حرارت کے باعث
جب ہم غنودگی کا شکار اور کم الرٹ ہوتے ہیں، ہمیں حادثات کا زیادہ خطرہ
ہوتا ہے۔
اپنی نیند کے سائیکل کا احترام کریں
تاہم مشکل کاموں کے لیے دن کے بہترین اوقات کا انحصار اس بات پر ہی کہ آپ
صبح جلدی بیدار ہونے والے لوگوں میں سے ہیں یا دیر سے اٹھنے والوں میں سے۔
اہم یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو دھیان بانٹنے والی چیزوں سے الگ رکھیں۔اور ایسا
کرنے کا بہترین طریقہ وہی ہے جو آپ کے نیند کے سائیکل سے مطابقت رکھتا ہو۔
جون کاسکی نے مذید کہا کہ ’حقیقی زندگی میں، ایسے لوگ جنہیں پیچیدہ کام
انجام دینے پڑتے ہیں جن کے لیے انہیں دھیان بانٹنے والی چیزوں سے دور رہنے
کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ایسے اوقات کا انتخاب کرتے ہیں جب باقی دنیا سو رہی
ہو۔ صبح جلدی بیدار ہونے والے لوگوں کے لیے یہ باقی لوگوں کے اٹھنے سے پہلے
کا وقت ہوگا۔ اور دیر سے اٹھنے والوں کے لیے وہ وقت جب سب پہلے ہی سو گئے
ہوں۔‘
یہ کہنا محفوظ ہوگا کہ تناؤ کی صورتحال جیسا کہ پریزینٹیشن یا تنازعات سے
نمٹنے کے لیے آپ دن کے ابتدائی اوقات کو ترجیح دیں، یہ آپ کو کام کے بعد
پرسکون ہونے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔
یہ آپ کو دن کے بعد والے اوقات میں تنہائی میں کیے جانے والے کاموں پر توجہ
مرکوز کرنے کا وقت دیتا ہے جن کے لیے آپ کو ذہنی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے،
لیکن اس بات پر انحصار کرتے ہوئے کہ آپ صبح جلدی بیدار ہونے والے لوگوں میں
سے ہیں یا دیر سے اٹھنے والوں میں سے، خود کو تھوڑی سی لچک کی اجازت دیں۔
لہذا یہ ثابت ہوا کہ اپنے دماغ کو دن بھر کے کاموں کے لیے تیار کرنے کا
بہترین طریقہ شاید آپ کے اپنے بستر سے ہی شروع ہوتا ہے۔
|