ہماری 60-65 فیصد آبادی تاحال پینے کے صاف پانی سے محروم ہے

ؒہمارے معاشرے میں بسنے والے غریب اور محنت کش جہاں اپنی بہت سی دوسری بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں وہاں پر ایک بنیادی مسلۂ صاف پانی کا بھی ہے اور ہماری 60-65 فیصد آبادی تاحال پینے کے صاف پانی سے محروم ہے اور اسطرح ہر سال سینکڑوں بچے اور بڑے جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مسلم لیگ کے دور میں صوبائی وزیر ماحولیات نے پنجاب کے شہریوں کو گھر وں میں فلٹرڈ پانی مہیا کرنے کا جو سہانا سپنا دکھایا تھا وہ واقعی بہت خوبصورت اور بڑا دل آویز تھا کہ صوبے بھر میں شہریوں کو منرل واٹر کی طرز پر گھروں میں بوتلوں اور گیلن میں فلٹر پانی مہیا کیا جائیگا اس مقصد کیلئے شہروں میں فلٹریشن پلانٹ لگائے جائینگے۔ اس بیان میں کس حد تک صداقت تھی اور ہمارے وزیر موصوف اپنے اس بیان میں اس ملک میں رہنے والے محنت کشوں اور غریبوں سے کتنے مخلص تھے یہ تو وہ جانتے ہیں یا پھر خدا بہتر جانتا ہے کیونکہ اب تو بیان سن سن کر ہم لوگ اتنے زچ ہو چکے ہیں کہ اب ہمیں ان وزیروں کی تمام باتیں ہی نا پائیدار لگتی ہیں۔ اور پی ٹی آئی کی حکومت سے امید وابسطہ کیئے ہوئے ہیں اور ہماری خواہش اس ملک کے وہ غریب اور محنت کش لوگ جو دیہاتوں اور قصبوں میں جوہڑوں کا پانی پی کر اپنی گزر بسر کرتے ہیں شائد انہیں بھی صاف پانی میسر آ جائے۔

پانی قدرت کا وہ انمول تحفہ ہے جو انسانی بقا کیلئے ناگزیر ہے۔ پانی حاصل کرنے کے ذرائع میں دریا، سمندر ، بارش، جھیلیں، قدرتی چشمے اور زیر زمین پانی کے ذخائر ہیں ۔ مگر پینے اور کھانا پکانے کیلئے ہلکا اور صاف پانی ہونا بہت ضروری ہے ورنہ انسان آلودہ پانی کے استعمال سے مختلف قسم کی بیماریوں مثلاً ہیپاٹائیٹس ، اسہال ، قے اور ہیضہ وغیرہ میں مبتلا ہو کر بعض اوقات اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور آلودہ پانی پینے سے ہر سال پاکستان میں لاکھوں بچے مر جاتے ہیں۔ انسانی صحت کو برقرار رکھنے کیلئے پانی کی آلودگی اور اسکے جراثیم ختم کرنے کیلئے اسمیں سے مختلف قسم کی آمیزشوں کو ختم کیا جانا بہت ضروری ہوتا ہے۔ جسکے لئے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے جاتے ہیں ۔ اس قسم کے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ بیسویں صدی کے آخر میں متعارف کروائے گئے تھے۔ آ بادی کے بڑھتے ہوئے تناسب سے جہاں انڈسٹری نے ترقی کی وہاں اسکے نتیجے میں لوگوں میں صحت کے حوالے سے بھی بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔جنمیں پینے کا صاف پانی ایک بہت بڑا مسلۂ ہے ۔ سب سے پہلا پلانٹ 1829 میں ٹیمز نامی دریا پر لندن میں لگایا گیا جہاں پر لوگوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کرنے کے انتظامات کئے گئے۔ 1854 میں لندن میں ہیضہ کے وبائی مرض پھیلنے سے بہت سی جانیں ضائع ہوگئیں اسطرح واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی اہمیت کا احساس ہوا اور یورپ اور امریکہ میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگنے شروع ہوئے۔ ہیضے کے اس جان لیوا مرض سے خاص طور پر ہندوستان اور پاکستان میں 1898- 1907 میں تین لاکھ ستر ہزار اموات واقع ہوئی تھیں ۔ ویبرو ایک ایسا بیکٹیریا ہے جو اکثر آلودہ پانی پینے سے منہ کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہے اسطرح وہ نظام انہضام پر اثر ہوکر اسے تباہ کر دیتا ہے اور دستوں اور قے کی صورت میں انسانی جسم سے وافر مقدار میں پانی کے اخراج سے بائی کاربونیٹ اور سوڈیم کی کمی واقع ہو جاتی ہے جس سے انسانی موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس مرض سے نجات حاصل کرنے کیلئے صرف ایک راستہ ہے اور وہ پینے کا صاف پانی ہے۔ ہمارے ملک میں ا بھی بھی ہر سال لاکھوں بچے اور بڑے آلودہ پانی پینے سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں مگر تاحال اس پر کوئی خاص توجہ نہ دی گئی ہے جو عوام کیساتھ ایک بہت بڑا ظلم ہے ۔ ہمارے ملک میں رہنے والے وہ امراء جو آجکل مارکیٹ میں دستیاب منرل واٹر پر بھروسہ کرکے اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ ان بیماریوں کا شکار نہیں ہونگے انہیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ یہ پانی جو بعض کمپنیاں کھلے عام منرل واٹر کا لیبل لگا کر لوگوں کو دھوکہ دیکر مارکیٹ میں موت تقسیم کرنے کا باعث بن رہی ہیں یہ پانی کسی طرح سے بھی منرل واٹر نہ ہے بلکہ یہ تو صاف بھی نہیں ہے اور اسطرح محنت کش اور غریب عوام کیساتھ ساتھ یہ امراء بھی ان بیماریوں کی لپیٹ میں آرہے ہیں اور انہیں چاہئے کہ اگر انہیں محنت کشوں اور غریب لوگوں کا خیال نہیں ہے تو کم از کم اپنی صحت کیلئے ہی ایسے انتظام اور قوانیں بنائے جائیں کہ وہ تو ان جان لیوا بیماریوں سے بچ جائیں۔

جہاں پانی انسانی صحت میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے وہاں پر پانی کی جمالیاتی حیثیت بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ پانی کار نگ اسکا ذائقہ اور اسکی بو پینے کے پانی میں بہت اہمیٹ رکھتی ہے۔ پینے کے پانی کو شفاف ، بے رنگ، بے بو اور بے ذائقہ ہونا چاہئے۔ اکثر پانی کا رنگ گدلا ، پیلاہٹ والا یا سبز ی مائل ہوتا ہے جو کائی یا پھر دوسرے کیمیکلز کی زیادتی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اور یہ پانی انسانی صحت کیلیے انتہائی مضر ہوتا ہے۔ پانی میں سے آنے والی بو اکثر اوقات پانی پر مشتملات گیسز اور اسکی ساخت کی وجہ سے ہوتی ہے بعض اوقات نلکوں اور کنویں سے حاصل کردہ پانی میں جو سڑے ہوے انڈوں کی طرح ایک خاص قسم کی سڑاند آتی ہے وہ ہائیڈروجن سلفائیٹ گیس کی وجہ سے آتی ہے جس کے پینے سے قے اور متلی شروع ہو جاتی ہے جو انسانی صحت کیلئے بہت مضر ہے۔ کیمیکلز کی آلودگی جو کہ پانی کی ساخت سے تعلق رکھتی ہے وہ پینے کے پانی میں شامل کیمیکلز جس میں iron, copper ,zinc chloride,mangancese, کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اگر پانی میں انکی مقدار صحیح نہ ہو تو اسطرح کا پانی انسان کو بیمار کر دیتا ہے اسکے لئے بہتر ہے کہ پانی کو لیبارٹری میں ٹیسٹ کرواکر استعمال میں لایا جائے۔

آجکل مارکیٹ میں کھلے عام پلاسٹک کی بوتلوں میں بند بعض مختلف نام نہاد کمپنیاں جو پیسے کے لالچ میں اپنی تجوریاں بھرنے کیلئے پلاسٹک کی بوتلوں پر خوبصورت لیبل لگا کر آلودہ پانی عوام کو منرل واٹر کے نام سے پلا کر انسانی صحت سے کھلواڑ کر رہی ہیں وہ انتہائی مضر صحت ہے اور اسطرح یہ مختلف کمپنیوں کی ڈیڑھ لیٹر پانی کی بوتل مارکیٹ میں بیس سے پچیس روپے میں فروخت ہو رہی ہے جو ظلم ہے مگر تا حال حکومت یا پھر ہمارے ملک کے وہ ادارے جو کھانے پینے کی اشیاء پر کنٹرول کرکے انہیں معیاری ہونے کا سرٹیفیکیٹ دیتے ہیں انہوں نے چپ سادھ رکھی ہے اور ایسی نام نہاد اور جعلی کمپنیوں کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں ہو رہی جو غریب اور محنت کشوں کیساتھ نہ صرف نا انصافی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ ادارے بھی ان نام نہاد اور جعلی کمپنیوں کو پناہ فراہم کر رہے ہیں اور انکے ساھ ملکر عوام میں بیماریاں تقسیم کر رہے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ اسوقت بازار میں دو قسم کے لوگ ہیں جو عوام کو دھوکہ دیکر انہیں غیر معیاری اور آلودہ پانی فراہم کر رہے ہیں ان میں سے ایک تو وہ لوگ ہیں جو سرے سے پاکستان سٹینڈرڈ ائیزڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی سے رجسٹرڈ شدہ نہ ہیں اوریہ لوگ غیر رجسٹرڈ اور غیر معیاری پانی عوام کو پلا کر مختلف قسم کے وبائی امراض پھیلا کر عوام کو بیمار کر رہے ہیں۔ جبکہ دوسرے وہ لوگ ہیں جو پاکستان سٹینڈرڈ ایزڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی سے رجسٹرڈ شد تو ہیں مگر وہ اس ادارے کے معیار پر ہرگزپورے نہیں اترتے کیونکہ جب یہ لوگ اپنے برانڈ کو اس ادارے سے رجسٹرڈ کرواتے ہیں تو یہ لوگ اس ادارے کو انکے فراہم کردہ معیار کا سیمپل از خود مہیا کرتے ہیں اور میل ملاپ کر کے ’’ کوالٹی پروڈکٹ کا سرٹیفیکیٹ حاصل کر لیتے ہیں ۔اسطرح جب یہ ادارہ ان کمپنیوں کو سرٹیفیکیٹ جاری کرتا ہے تو وہ اپنی جان چھڑانے کیلئے اس سرٹیفیکیٹ پر لکھ دیتا ہے کہ ’’ درج بالا نتائج جو اس لیبارٹری میں سیمپل مہیا کیا گیا ہے اسکی روشنی میں حاصل کئے گئے ہیں۔ یہ لیبارٹری اس بات کی گارنٹی دینے سے قاصر ہے اور ذمہ داری قبول کرنے سے بھی انکار کرتی ہے کہ جو پانی یہ کمپنی مارکیٹ میں فروخت کر رہی ہے وہ بھی معیاری ہے ‘‘ یہ ہے غریب اور محنت کش عوام کے ساتھ اس ادارے کا کھلے عام مذاق ہے جسے پوچھنے والا کوئی نہیں ہے ۔ ہونا تو یوں چاہئے کہ یہ سیمپل ادارے کا ایک ذمہ دار افسر از خود جاکر جہاں پر یہ پانی تیار کیا جا رہا ہے اور جو اس پانی کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اس جگہ سے اپنی آزاد مرضی سے لے مگر ایسا نہیں ہوتا بلکہ جو کمپنیاں یہ پانی تیار کرکے مارکیٹ میں بیچ رہی ہیں انکا ایک نمائیندہ اس ادارے میں پانی کا سیمپل لیکر جاتا ہے اور وہ پانی کیونکہ معیار کے مطابق ہوتا ہے لہٰذا اندرون خانہ ملی بھگت سے معاملہ طے کرکے اسے سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا جاتا ہے اور اسطرح یہ پانی بنانے والی کمپنیاں غریب اور محنت کش عوام کو غیر معیاری ،آلودہ اور جراثیم سے لبریز پانی پلا کر انہیں بیمار کر رہی ہیں اور اسطرح ہیضہ اور ہیپاٹائیسس کے امراض میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور لوگ موت کی دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں۔ یہ ادارے جو ان کمپنیوں کو انکے پانی کے معیار ی ہونے کا سرٹیفیکیٹ دیتے ہیں انکا کسی طرح کا کوئی چیک اینڈ بیلینس نہیں ہے اور نہ ہی ان دو نمبر پانی بنانے والی کمپنیوں پر چھاپہ مار کر انہیں چیک کیا جاتا ہے کہ کیا یہ کمپنیاں واقعی جو پانی مارکیٹ میں مہیا کر رہی ہیں انکے پلانٹ کا کہیں پر وجود بھی ہے اور جس پلانٹ پر یہ پانی تیار کرکے عوام کی جان و مال سے کھیلا جا رہاہے وہ واٹر ٹریٹمینٹ پلانٹ واقعی specification کے مطابق ہے یا نہیں۔ اسوقت زیادہ تر پانی جو مارکیٹ میں دستیاب ہے اگر اسے لیبارٹری میں چیک کروایا جائے تو وہ انسانی صحت کیلئے انتہائی غیر معیاری اور ضرر رساں ہوگا جس سے وہ کمپنیاں جو عوام کو معیاری پانی فراہم کر رہی ہیں وہ بھی بد نام ہو رہی ہیں۔ گھٹیا اور غیر معیاری پانی جو اس وقت بازار میں دستیاب ہے اسمیں سے بعض کمپنیاں ایسی بھی ہیں جو پانی کو بغیر عمل کثیف اور treatment کے پانی کو ڈائریکٹ نلکے سے بوتلو ں میں بھر کر سیل کر دیتی ہیں اور بازار میں یہ غیر معیاری اور مضر صحت پانی مختلف ناموں سے فروخت ہو رہا ہے۔ مگر ہماری ضلعی حکومت کو اپنے جھنجھٹوں سے فرصت ملے تو وہ عوام کی بھلائی کے بارے میں کچھ سوچے۔ عوام اور حکومت کو دھوکہ دیکر نلکے سے ڈائریکٹ بوتلوں میں بھرے ہوئے اس غیر معیاری ، گندے ، جراثیم ذدہ اور مضر صحت پانی کو منرل واٹر کا نام دیکر مارکیٹ میں فروخت کرنے والے یہ مکروہ اور دھوکے باز لوگ عوام سے پیسے لیکر انہیں جان لیوا بیماریوں میں مبتلا کر رہے ہیں۔ اصل میں وہ گندہ اور مضر صحت پانی جسے بعض کمپنیاں منرل واٹر کا نام دیکر کھلے عام مارکیٹ میں فروخت کر رہی ہیں وہ منرل واٹر نہیں ہے بلکہ عام اور آلودہ پانی ہے۔ منرل واٹر قدرتی چشموں ، آبشاروں اور جھیلوں کے پانی کو کہا جاتا ہے جس میں قدرتی طور پر مختلف قسم کی معدنیات مثلاً کیلیشم، کاربونیٹ، میگنیشم، سلفیٹ، پوٹاشیم ، سوڈیم سلفیٹ اور مختلف قسم کی دھاتیں جو قدرتی طور پر پانی میں تحلیل ہوتی ہیں اور یہ پانی انسانی صحت کیلئے انتہائی مفید اور کار آمد ہوتا ہے۔ جبکہ اگر مصنوعی طور پر منرل واٹر تیار کرنا ہو تو پہلے اس پانی کو باقائدہ طور پر ٹریٹمینٹ کرکے صاف کیا جاتا ہے پھر اسمیں کیلشیم،میگنیشم، پوٹاشیم، سلفیٹ، فلورائڈ سوڈیم اور کلورائید وغیرہ کی آمیزش کی جاتی ہے اور اسطرح اس پانی کو لیبارٹری میں ٹیسٹ کر کے اس بات کی یقین دہائی کر لی جاتی ہے کہ یہ پانی واقعی انسانی صحت کیلئے مفید ہے اور اسے اس ان تمام مراحل سے گزار کر کرسٹل کلیئر کرکے بوتلوں میں بھرا جاتا ہے اور بعد میں سیل کر دیا جاتا ہے تاکہ کسی قسم کا شک وشبہ نہ رہے۔ سب سے پہلے منرل واٹر جینیوا کے ایک سنار جس کا نام جیکب شویپ تھا نے 1794 میں اپنے دوستوں میں متعارف کروایا جو بہت مقبو ل ہوا اسطرح اسکا بزنس بڑھتا چلا گیا اور اسنے اسوقت کے انتہائی جدید پلانٹ پر اس پانی کو تیار کرکے بوتلوں میں بھر کر لندن کی مارکیٹ میں متعارف کروایا ۔ اسنے تین قسم کا پانی تیار کیا پہلی قسم کا پانی وہ تھا جسے میڈیکل میں استعمال کیا جاتا تھا، دوسری قسم کا پانی وہ تھا جو عام طور پرپینے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور تیسری قسم کا پانی وہ تھا جسے گردوں کے مریضوں میں استعمال کروایا جاتا تھا ۔ منرل واٹر اتنا مقبول ہو گیا کہ 1820 میں منرل واٹر کی تیاری میں انتہائی جدید پلانٹس کا استعمال کیا جانے لگا اور اسطرح یہ پانی پوری دنیا میں صحت کیلئے میڈیکل کے طور پر بھی استعمال ہونے لگا۔

آئیں دیکھیں کہ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس پر پانی کی کثافتوں کو کسطرح دور کیا جاتا ہے۔ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس میں پانی صاف کرنے کا طریقہ جسے عمل کثیف کہا جاتا ہے کچھ اسطرح سے ہے کہ پانی کو اس پلانٹ میں ریت کی گہری تہہ سے گزارا جاتا ہے جس سے بہت سی کثافتیں صاف ہوجاتی ہیں یا پھر جدید پلانٹس میں پانی کی کثافتوں کو ایلومینیم سلفیٹ ، فیرس کلورائڈ اور فیرس سلفیٹ کے ذریعے صاف کیا جاتا ہے اسطرح تمام کثافتیں اور پانی میں موجود جراثیم جم جاتے ہیں اور ایک ٹینک میں جمع ہو جاتے ہیں پھر پانی کو ریت کے ذریعے عمل کثیف کرکے اسے چھان لیا جاتا ہے اور اس آلودہ اور بھاری پانی کو عمل کثیف سے پہلے اور بعد میں کلورین یا بلیچنگ کے ذریعے صاف کرکے اسکی تمام کثافتیں دھو لی جاتی ہیں اوروہ پانی جراثیم اور آلودگی سے پاک ہو جاتا ہے اگر mangances کی تعداد پانی میں بہت ذیادہ موجود ہو تو پھر اسمیں سے ہوا کو گزار کر ناپسندیدہ mangances جو آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے پانی میں جمع ہو جاتے ہیں انہیں صاف کر لیا جاتا ہے اور اسطرح ان مراحل سے گزر کر پانی پینے کے قابل ہوتا ہے جس سے انسان مختلف متعدی بیماریوں سے بچ جاتا ہے۔جبکہ مارکیٹ میں مختلف ناموں سے فروخت ہونے والا منرل واٹر عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے ۔

لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول کے ادارے کو اب دقیانوسی طریقہ کار چھوڑ کر متعلقہ فیکٹری جسے یہ سرٹیفیکیت جاری کرنا ہو اپنا نمائیندہ بھیجکر وہاں پر موجود سٹاک سے سیمپل حاصل کرکے اسے سیل کرے ا ور پھر اسکی کوالٹی کا سرٹیفیکیٹ جاری کرے اور عوام کو یقین دہانی کروائی جائے کہ یہ پانی و اقعی اسکے معیار کے مطابق ہے ورنہ عوام کو بے وقوف نہ بنایا جائے ۔اور جو لوگ منرل واٹر کے نام پر جراثیم ذدہ اور آلودہ پانی پلا کر لوگوں میں موت فروخت کر رہے ہیں انکے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لائی جائے ہم وزیر ماحولیات سے التماس کرتے ہیں کہ فی الحال وہ منرل پانی کے نام پر موت بانٹتی ہوئی ان فیکٹریوں کو بند کروانے میں عوام کی مدد کریں اور انکے خلاف کارروائی کرکے اس طرح کی نام نہاد منرل واٹر بنانے والی کمپنیوں کو فوری طور پر بند کیا جائے ۔ اور ضلعی حکومت کو چاہئے کہ وہ اس طرف سے آنکھیں بند نہ کرے اور جانتے بوجھتے ہوئے عوام کو مہلک بیماریوں کی دلدل میں نہ دھکیلے اور جن دکانوں پر یہ پانی کھلے عام فروخت ہو رہا ہے ان دکانوں پر چھاپے مارے جائیں اور اس پانی کو اپنے قبضے میں لیکر انکے خلاف کارروائی کرکے انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے اور ایسا مضر صحت پانی فراہم کرنے والی نام نہاد فیکٹریوں کے لائینسنس کینسل کرکے انہیں سیل کیا جائے تاکہ آلودہ اور جراثیم زدہ پانی پینے سے مرنے والے لاکھوں افراد کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جا سکے۔
 

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 138543 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.