اور فرمانِ قائد ؒ کے مطابق:
ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا؛
بلکہ ایسی تجربہ گاہ حاصل کر نا چاہتے تھے
جہاں ہم اسلام کے اصول آزما سکیں۔
حفیظ دعا گو ہیں کہ خدا اس ملک کے عوام کی ہمتیں جواں رکھے اور عزائم بے
دار۔ اور خطہ پاک کی آبرو کا جذبہ اس قوم
کے دل میں ہمیشہ رہے۔ جس کی بنیاد محمد علی جناح ؒ نے رکھی۔
؎ جس کی بابائے ملت نے رکھی بنا
ہم اسی قصرِ ملت کے معمار ہیں
اور قصر ملت کی حفاظت کے لیے اتحاد اور یکجہتی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے
کیونکہ قوموں کی سب سے بڑی طاقت یہی ہے اس کا مشاہدہ ہم زندگی کے ہر مرحلے
میں کرتے ہیں ۔ انسانوں کے زندگی گزارنے کا معاشرتی نظام اسی وحدت اور
یکجہتی کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے ۔
قومی ترانے میں اتحاد کے درس سے یہ بات اخذ کرنا بہت ہی آسان ہے کہ
ابوالاثر حفیظ جالندھری کے پیش نظر حکیم الامت حضرت علامہ اقبال کے خیالات
و تصورات نہایت پختہ تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو ایسے ہی اتحاد کا پیغام دیا
تھا جس کے متمنی حفیظ جالندھری ہیں:
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمی
اور پھر قوم مسلم کا مغربی اقوام سے موازنہ کرتے ہوئے کہا تھا:
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری
علامہ اقبال نےاپنی نظم ’’بزم انجم‘‘میں امت مسلمہ کو اتحاد، یگانگت اور
یکجہتی کا پیغام انہیں ستاروں سے تشبیہ دیتے ہوئے ان الفاظ میں دیا۔
اک عمر میں نہ سمجھے اس کو زمین والے
جو بات پاگئے ہم تھوڑی سی زندگی میں
ہیں جذب باہمی سے قائم نظام سارے
پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں
یہ اتحاد ہی ہے جس کی بدولت تہذیب و ثقافت وجود میں آتی ہے۔ وحدت، یگانگت
اور اتحاد کو نگل لینے والی منفی صورتیں بھی ہمارے آس پاس بکھری پڑی ہوتی
ہیں ان سے مقابلہ کرنا بھی انسانی معاشرے کی نہ صرف ایک اہم ذمے داری ہے
بلکہ یہ اتحاد ویگانگت قائم رکھنے کے لیے جزو لا ینفک ہے۔ اگر ہم من حیث
القوم ایک سمت کا تعین نہیں کرتے تو بکھر جانے کے امکانات قوی ہو جاتے ہیں۔
علامہ مسلمانوں کو باور کراتے ہیں کہ تمہاراخدا ایک قرآن ایک ، رسولﷺ ایک،
کعبہ ایک اور دین ایک ہے پھر تم گروہوں اور فرقوں میں کیوں تقسیم ہوگئے
ہو۔وہ کہتے ہیں۔
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیﷺ، دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
پس اگر زمانے میں پنپنا چاہتے ہو تو اس کا واحد راستہ اتحاد اور یگانگت کا
ہے۔
یہی مقصود فطرت ہے، یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی
تبان رنگ و خون کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تو رانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
ہوس نے کردیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا محبت کی زباں ہوجا
المختصرزیرِ بحث بند کا آخری تشریح طلب لفظ ”سلطنت“ ہے، جس کے لغوی معنی
بادشاہی یا حکومت کے ہیں۔ کسی بھی ملک کی خوشحالی، بقا اور سلامتی کی سب سے
زیادہ ذمہ دار اس ملک کی حکومت ہوتی ہے۔ شاعر”پاکستان“ کے لیے ایسی حکومت
کا خواب دیکھتا ہے، جو سرمایہ داروں کی جنگ ِ زر گری کا نتیجہ نہ ہو، جس
میں بندوں کو صرف گنا نہ جاتا ہو، تولا بھی جاتا ہو۔شاعر ایسی حکومت کا
متمنی ہے جو ہر طرح سے اسلامی نظام کی تابع ہو اور اس نظام کے سنہری اصولوں
کے تحت عدل و انصاف کی حکمرانی ہو، رنگ و نسل اور مذہب کے امتیاز کے بغیر
ہر شہری کو تمام بنیادی اور انسانی حقوق حاصل ہوں، ہر شخص کو رائے اور ضمیر
کی آزادی حاصل ہو، زندگی کی بنیادی ضروریات کی ضمانت حاصل ہو اور قانون کی
نظروں میں حاکم اور محکوم، آقا اور غلام میں کوئی تمیز روا نہ رکھی جائے۔یہ
تمام باتیں صرف اور صرف اسلامی نظامِ حکومت
میں ہی میسر آسکتی ہیں۔ اس لیے شاعر ایسی سلطنت کی خواہش کرتا ہے جو اپنے
فلاحی مقاصد اور عدل و انصاف کے اصولوں کی بنا پر اپنی مثال آپ ہو۔
غرض یہ کہ شاعر کی تمنا ہے کہ پاکستان کی بھاگ ڈور ایسے افراد کے ہاتھوں
میں ہو جو اس ملک کو خوشیوں کا گہوارہ بنا سکیں۔جو قومی مفادات کو اپنے
ذاتی مفادات پر ترجیح دیں، جو حکومت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل ہوں،
جو اتنی صلاحیت رکھتے ہوں کہ اپنے محدود ملکی وسائل کو بروئے کار لاکر اسے
خوشحال بنا سکیں، جو افرادی قوت کو صحیح معنوں میں استعمال کر سکیں، جو
صنعتی اور ذرعی طور پر ملک کو ترقی دے سکیں، جو ملک کو سائنس اور ٹیکنالوجی
کے میدان میں آگے بڑھا سکیں۔ مختصر یہ کہ وہ ملک کوخوشحال بنانے، ترقی دینے
اور قائم رکھنے کے لیے ہر ممکن کو شش کریں۔
|