بارش برستی ہے تو برستی چلی جاتی ہے اور بڑے بڑے شہروں
کو منہ چھپانے پے مجبور کر دیتی ہے۔ ایسے لگتا جیسے قدرت انسان کے مقابلے
پے آ گئی ہو اور اس مقابلے میں وہ اپنا لوہا منوا کر ہی دم لیتی ہے۔ بارش
نے حالیہ موسم برسات میں انسان کی تمام تر ترقی کو اپنے لحاظ سے بے توقیر
کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ انسان قدرت کے مقابلے کی کوشش میں مصروف
رہتا ہے لیکن اس کشمکش میں فتح ہمیشہ قدرت کے نصیب میں لکھی جاتی ہے یا
شاید پہلے ہی سے لکھی ہوتی ہے۔بارش نے بڑے بڑے شہروں کی شاندار شاہراہوں کو
نہروں میں تبدیل کر کے اپنی ازلی برتری کا ثبوت فراہم کر دیا۔ اور انسانی
ترقی ہاتھ ملتے رہ گئی یا اپنا سا منہ لے کے رہ گئی۔
زلزلے تو انسان کو اشرف المخلوقات ماننے کو تو جیسے تیار ہی نہیں۔یا یوں
کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ زلزلے یا بھونچال تو شاید انسان کو کچھ بھی نہیں
سمجھتے۔ یوں دندناتے ہوئے آتے ہیں اور سناٹا بکھیر کر چلے جاتے ہیں ۔
انسانوں کے دل میں وہ خوفِ خدا اترتا ہے جو کسی بھی اور طرح کے سمجھانے
بجھانے یا عذاب و غضب کے واقعات پڑھانے یا سنانے سے بھی نہیں آتا۔زلزلے
انسان کو اندر سے ہلا دیتے ہیں جیسے وہ زمیں کو اندر اور باہرسے ارتعاش میں
مبتلا کرتے ہیں ایسے ہی انسان بھی اندر اور باہر سے ہل جاتے ہیں۔ زلزلوں کے
سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ اکثر بیشتر ان کے متعلق پیش گوئی بھی نہیں ہو پاتی
اور یہ انسان کو انجانے میں آ لیتے ہیں اور انسان اپنی بے بسی کو اقرار کئے
بغیر نہیں رہ پاتے اور اپنے خدا یا اپنے اپنے خدا ؤں کو یاد کر کے کچھ
اطمینان کا سامان فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انسان اگر اچھا سیاست دان ہے تو فطرت اس سے زیادہ بڑی سیاست دان ہے وہ
انسان کو اس کی اصلیت یاد دلاتی رہتی ہے۔ گرمیوں میں آنے والا زور کا پسینہ
اس کو بتا دیتا ہے کہ موسم اس کی مرضی کے تابع نہیں ہیں۔ اور سردیوں میں
لگنے والا نزلہ زکام بھی ’سوں سوں‘ کی ضرب لگوا کے انسان کی انا کو تاراج
کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔انسان کے اندر کا فرعون اتنا پسینہ بہا کر اور
نزلہ زکام کا شکار ہو کر بھی ’میں میں‘ کرنے سے باز نہیں آتا۔ اور یہ ’میں
میں‘ اس نے بکروں سے سیکھی ہے جنہوں نے ایک دن قصاب کی دکان پر الٹے سر
لٹکنا ہوتا ہے۔ لیکن انسان ’میں میں‘ کرنے والوں کا یہ انجام دیکھ کر بھی
’میں ‘ نہیں چھوڑتا۔
محلے ہوتے تھے تو ’محلے دار‘ بھی ہوتے تھے ، راہ ہوتے تھے تو’ راہگزر‘ اور’
راہگزیں‘ بھی ہوتے تھے لیکن جب سے کالونیاں اور سڑکیں بنی ہیں ، انسان
تنہائی کا شکار ہو گیا ہے کیوں کہ ’کالونی دار ‘ نہیں ہوتے اور نہ کوئی
’سڑک دار ‘ یا ’سڑک گزر ‘ یا ’سڑک گزیں‘ ہوتا ہے۔ نئی تہذیب میں تنہائی کا
بہت عمل دخل ہو گیا ہے۔ جدید معاشرت میں اکیلا پن بہت بڑا مسئلہ بن کر
سامنے آیا ہے اور یہ اکیلا پن یورپ میں مشرق کی نسبت کئی گنا زیادہ ہے۔
انسان نے ترقی تو خریدی لیکن ’انسانیت‘ کی قیمت پر ۔ اور انسان، انسانیت
بیچ کر پھر سے انسانیت کو تلاش کرنے نکلا ہواہے جو نہ فیس بک پے ملتی ہے
اور نہ وٹس اپ پے۔ انسان جب تک اکٹھے نہیں بیٹھتے ان کا کتھارسس نہیں ہوتا
اور جب تک کتھارسس نہیں ہوتا ان کو سکون نہیں ملتا اور جب تک سکون نہیں
ملتا بے سکونی سر پر منڈلاتی رہتی ہے۔ اس منڈلاتی بے سکونی کو کسی جگہ
بٹھانے کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور یہ بے سکونی ہے کہ ٹی وی، موبائل، وغیرہ
سے بھی اچاٹ ہوتی دیکھائی دیتی ہے۔
جاؤں کہاں بتا اے دل
دنیا بڑی ہے سنگ دل
کی مصداق یہ دنیا اتنی سنگدل نہیں جتنی انسان اسے خود بنا لیتا ہے۔
انسان کئی ایک تضادات کا مجموعہ ہے جب وقت ہوتا ہے تو سخیوں کی طرح منٹوں
کی جگہ گھنٹے اور گھنٹوں کی جگہ دن اور دنوں کی جگہ مہینے لٹاتا بلکہ اڑاتا
چلا جاتا ہے۔ اور جب وقت گزر جاتا ہے تو بیٹھ جاتا ہے پچھتانے ، اور
پچھتانے میں ایسا سکون پاتا ہے کہ پھر پچھتاتا ہی چلا جاتا ہے۔ اوراگر کوئی
سمجھائے بھی کہ اب پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے تو بھی پچھتانے کا وظیفہ
یوں دھراتا ہے جیسے اس وظیفے سے اس کا گزرا ہوا وقت واپس مل جانا ہو۔
پچھتانے سے گزرا ہوا وقت یا کھوئی ہوئی چیز واپس تو نہیں لیکن تھوڑی دیر اس
کے ساتھ مزید وقت، یعنی کہ خیالوں میں، گزارنے کا موقع مل جاتا ہے ۔ اور
شاید لوگ اسی لئے وہ لوگ پچھتانے کا فعل دھراتے چلے جاتے ہیں کہ اس پچھتانے
سے کھوئی ہوئی چیز یا وقت پھر سے انسان کے پاس چلا آتا ہے۔ اور اس کے دل کے
سکون کا سامان کرجاتا ہے چاہے جھوٹا ہی سہی۔
چائے کا چلن ہمارے معاشرے کا جزو لازم بن چکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چائے اور
سگرٹ برصغیر کے لوگوں کو انگریزوں نے لگائے یعنی ان کا عادی بنایا۔ وہ لوگ
خود بھی انہی چیزوں کے عادی بلکہ رسیا تھے اور ہمارے لوگوں کو تہذیب کے
اعلیٰ درجات سے روشناس کروانے کے لئے انہوں نے ان کو چائے کا چُسکا‘ یا
’چُسکی‘ اور سگرٹ کا ’سوٹا‘ لگانے کی عملی سعی کی جس میں وہ اس قدر کامیاب
ہوئے کہ بس کیا کہنے۔ پھر فلموں کے ذریعے سگرٹ، سگار اور وسکی جیسی چیزوں
کوانہوں نے معاشرے کا حصہ بنانے میں مدد لی جس کی کامیابی کسی سے ڈھکی چھپی
نہیں۔ ہمارے بہت سے داشور ذہن کی اس حالت کو پہنچ جاتے ہیں کہ جب تک وہ
چائے کی چسکی اور سگرٹ کا ’سوٹا‘ نہ لگائیں ان کا ذہن کام اسٹارٹ نہیں کرتا
اور بعض تو حدِ فاصل عبور کر جاتے ہیں اور ’ وسکی‘ تک پہنچ کر ہی اپنے کلام
یا کام کا آغاز فرماتے ہیں۔ لیکن جب بات سگرٹ سے آگے بڑھی اور ہیروئن کا ’
ہُوٹا‘ بھی اس ’سوٹے‘ میں شامل حال ہو گیا تو پھر بات کہاں سے کہاں تک جا
پہنچی کی اس سے آگے بات کرنے کی جسارت نہیں کی جا سکتی۔ بے شمار جوانیاں اس
سوٹے کے ہوٹے کا شکار ہو کر جلد ہی ملکِ عدم کی ریل میں سوار ہو گئیں اور
افسوس کہ ابھی تک ہو رہی ہیں۔
جب انسان اپنی زندگی کے پچاس سال کی سرحد عبور کر لیتا ہے تو اسے بات بات
پر بچپن یاد آنے لگتاہے۔ گرمیوں میں برف کے گولے چوستے بچے دیکھ کر بچپن
آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتا ہے اور سردیوں میں کسی ہیٹر یا انگیٹھی کے پاس
بیٹھنا ماں کے چولہے کے گرد بہن بھائیوں کا جمگھٹا اس کے ذہن کو یادوں کی
حرارت سے بھر دیتا ہے۔بچپن سوالوں، خیالوں، خوابوں اور خواہشوں سے بھرا
ہوتا ہے جبکہ بڑہاپا جوابوں، اور فکروں سے مزین ہوا ہوتا ہے۔ اچھا ہے کہ
انسان کو بچپن میں اپنے بڑہاپے کی نہ خبر ہوتی ہے اور نہ فکر ورنہ بچپن کی
رنگین وادی پر پڑنے والے بڑہاپے کے گھمبیر سائے اس کی خوشیاں اکارت کردیتے۔
دیکھنے میں آیا کہ بہت سے بد طینت لوگ بھی دیکھنے میں بہت خوبصورت لگتے
ہیں۔ جس سے عام لوگوں کو انہیں پہچاننے میں بہت بڑی غلطی لگ جاتی ہے۔ میرا
مطلب میک اپ سے اپنے حسن وجمال میں اضافہ فرمانے والے نہیں۔ میں تو خدوخال
کے لحاظ سے یا کھال کے رنگ کے لحاظ سے بات کر رہا ہوں۔ میک اپ کرنے والے
اکثر لوگ اچھے ہوتے ہیں اور جمالیات کا اچھا احساس رکھتے ہیں اور اسی لئے
تو وہ اس پے رقم خرچ کرتے ہیں۔ ایک تو وہ رقم اجاڑیں اور دوسرا ان کی تعریف
بھی نہ کی جائے یہ کوئی مثبت بات نہیں ہے۔ بات کا مثبت ہونا اس کے ہونے سے
بھی زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ یعنی یا تو بات ہو ہی نہ یا اگر ہو تو مثبت ہو۔
لیکن دیکھنے اور سننے اور سمجھنے تینوں میں آیا ہے کہ اکثر باتیں منفی ہی
ہوتی ہیں یا منفی باتیں ہی زیادہ مزیدار اور دلبہار محسوس ہوتی ہیں جبکہ
مثبت باتیں تو بچپن سے سن سن کر کان پک چکے ہوتے ہیں۔ ستم یہ کہ مثبت باتوں
کے اکثر نام نہاد علمبردار اندر سے خود منفی سوچ کے حامل ثابت ہو رہے ہوتے
ہیں۔ لیکن بات گھوم پھر کر سوچ کے اسے ’بوڑھ‘ کے درخت کے نیچے آ کر ٹھہرتی
ہے کہ بات پھر بھی مثبت ہی ہونی بہتر ہے۔ منفی باتیں اچھی نہیں ہوتیں۔ لیکن
چلیں کبھی کبھار کرنے کی اور بات ہے جس کی اجازت کسی سے لینی یا مانگنی
نہیں پڑتی۔
اجازت مانگنا کبھی اچھا نہیں لگتا لیکن اجازت دینا ہمیشہ اچھا لگتا ہے۔
اجازت مانگنے میں انکساری کی انتہا ہے اور اجازت دینے میں ملنساری کی
انتہا۔نفسیاتی طور پر انسان اوپر جانا چاہتا ہے لیکن وہ یہ کبھی بھی طے
نہیں کر پاتا کہ وہ کتنا اوپر جانا چاہتا ہے۔ لیکن آخرِ کار اس کی یہ
دیرینہ خواہش پوری ہو ہی جاتی ہے اور اسے اوپر بلا، یا اٹھا لیا جاتا ہے۔
چاہے بظاہر لوگوں نے اسے کندھوں پر ہی کیوں نہ اٹھایا ہو۔اوپر جانے کی
خواہش دراصل انسان کی روح کی ہے اور نیچے جانے کی سرشت اس کی مٹی کی ہے۔
کیسی کمال کی بات ہے کہ دونوں کی خواہش بیک وقت پوری ہو جاتی ہے۔ مٹی ، مٹی
میں مل جاتی ہے اور روح اوپر سے اوپر نہ جانے کدھراڑ جاتی ہے۔
|