یہ برقی رشتہ کیا رنگ دکھاۓ گا حامد نے خواب میں بھی نہ
سوچا تھا البتہ جمیلہ نے اُسے اپنے خواب کے بارے میں ضرور بتایا تھا جو اُس
نے کبھی دیکھا تھا جس کی وجہ سے وہ حامد کو اپنے خوابوں کا شہزادہ بناۓ
بیٹھی تھی حالانکہ نہ کوئ میل ملاپ اور نہ کوئ رشتہ داری نہ محلہ داری فقط
ایک جھلک اور موبائل کے پیغام کی برقی لہر سے وجود میں آئ برقی رشتہ داری
اور مسلسل پیغامات کی راہ داری اور محبت کو میسّر ایک کمزور سواری اور ایک
خواب آور کنواری دوسرا شادی شدہ بیوپاری
جمیلہ ویسے تو حامد کو پسند کر بیٹھی تھی مگر اُس کا خیال جو خواب کی صورت
اختیار کر چکا تھا اور وہ سپنا جو وہ دن میں دیکھتے دیکھتے رات میں بھی
دیکھنے لگی تھی اور خواب میں حامد کو دیکھتے دیکھتے اور اُس کی محبت سے
بھیگتے بھیگتے اب حقیقت کا رنگ دینے کے لیے بے چین تھی جب اُس خواب کا زکر
حامد سے کرتی تو وہ جمیلہ کو سمجھاتا کہ اس کا مطلب وہ نہیں جو وہ نکال رہی
ہے اور نکال نہیں پا رہی ہے مگر ساتھ ہی حامد پر بھی اُس کا اثر ہونے لگا
اور وہ ایک صاحبِ علم کے پاس پہنچا جنہوں نے فرمایا کہ خواب ایک حقیقت ہے
اور خواب سچے بھی ہوتے ہیں مگر اکثر کا کوئ مطلب نہیں ہوتا اور وہ جو سچے
ہوتے بھی ہیں اُن میں بھی خواب دیکھنے والے کا اپنا خیال بھی غالب آجاتا ہے
جو غلط بھی ہوسکتا ہے اور ہر وقت ہر ایک سے بیان بھی نہیں کرنا چاہیے اور
کوئ خوابوں کا علم رکھنے والا خیرخواہ ہی بتا سکتا ہے ۔ بیان کردہ خواب تو
روحانی ہے مگر آپ روحانیت کے رستےپر شائد چل نہ پائیں
بہتر ہے آپ بات چیت کا سلسلہ بند کر دیں اور اُن سے کہیں کہ میں آپ کا
احترام کرتا رہوں گا
حامد کو ہمدردی بھی ہو گئ تھی اُس سے اور وہ انجانے میں محبت میں بدل چُکی
تھی اور محبت عادت میں ڈھل چُکی تھی ۔ اُسے بڑا مشکل لگ رہا تھا کہ تعلّق
اور بات چیت کا سلسلہ کس طرح بند کرے
حامد کو تو بات سمجھ میں آگئ تھی مگر جمیلہ نہ سمجھی یا وہ سمجھنا نہیں
چاہتی تھی لیکن جو محبت وہ ایک دوسرے کو دے چُکے تھے وہ واپس تو نہیں لی
جاسکتی تھی اور نہ بُھلائ جاسکتی تھی مگر اُس محبت کی یاد کا گلدستہ یادوں
میں سجا کر اور رابطہ منقطع کر کے دونوں کو ایک نئ زندگی گُزارنا ضروری ہو
گیا تھا اور وہ برقی رشتہ جو حقیقی رشتوں کو کمزور کر رہا تھا اُس سے
چھٹکارا پانا ہی شائد اُن زندگیوں کے لیے اُن مخصوص حالات میں بہتر تھا اور
اس حد تک رہ جاۓ کہ کبھی کبھی یہ اشعار گُنگُنا لیں
وہ جو لطف مجھ پہ تھے پیش تر، وہ کرم کہ تھا میرے حال پر
مجھے سب یاد ہے ذرا ذرا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی ، کبھی ہم میں تم میں بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
صرف مرد و عورت کے تعلق کی بات نہیں یہ برقی تعلقات کسی طرح کے بھی ہوں اس
طرح کسی ٹیکنولوجی کے سحر میں کیا گرفتار ہو جانا چاہے ؟ موبائل انٹر نیٹ
یا گیم یا کچھ اور ، یہ سوچنا پڑے گا کہ یہ برقی رشتے ہمیں اُن حقیقی رشتوں
سے دور تو نہیں کر رہے کیونکہ ٹیکنولوجی انسان کے لیے ہے انسان ٹیکنولوجی
کے لیے نہیں کہ اُس میں ایسا کھو جاۓ کہ ایسوں کو کھو دے جن کو کھو کر
پچھتانا پڑے
|