نیوز روم میں ایسا سوگ تھا، جیسے میتیں آس پاس ہی پڑی ہوں
تین دوست، تین اکلوتے بیٹے، تین موتیں
کراچی میں ایک بار پھر کرنٹ نے تین زندگیاں نگل لیں
ہر کوئی دکھی دل کے ساتھ بجلی تقسیم کار کمپنی کے لیۓ قلم تیز کر رہا تھا
”کے الیکٹرک کی بے حسی ایک اور جان لے گئی“
"بارشیں کی لاکھوں بوندیں آنسوؤں میں ڈھل گئیں“
ٹی وی اسکرینز بھی غم و غصے سے لال ہونے لگیں...
الفاظ بھی چلا چلا کر شہر میں ماتمیوں کے ساتھ کھڑے ہونے لگے
اتنے میں مارکیٹنگ کی ایک کال نے دکھ کو نفرت میں بدل دیا
ایک سنئیر بولے
"خبر روک دو اشتہار آ گیا ہے“ |