میجر راجہ عزیز بھٹی شہید ( نشان حیدر)

میجر عزیز بھٹی کی ریزرو پلاٹون نمبر 3کمپنی بی آر بی کے مشرقی کنارے پر پوزیشن سنبھال چکی تو میجر شفقت بلوچ کی قیادت میں 17پنجاب کی ڈی کمپنی کو واپسی کا حکم مل گیا۔اس کے باوجود کہ یہ کمپنی بی آر بی کے مشرقی کنارے پر تعینات تھی لیکن میجر بھٹی نے اپنی کمپنی کے ہمراہ رہنے کی بجائے برکی گاؤں کے بالا خانے پر اوپی پوسٹ پر رہنا پسند فرمایا ۔جہاں کھڑے ہو کر وہ دشمن کی نقل و حرکت کا صحیح اندازہ لگا کر گولہ باری کروا رہے تھے ۔حالانکہ یہ کام او پی کا تھالیکن میجر بھٹی نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے او پی کے فرائض سنبھال لیے۔جیسے ہی دشمن فوج کسی جانب سے پیش قدمی کرتی تو میجر بھٹی کی بتائی ہوئی رینج پر گولہ باری شروع ہوتی اور دشمن فوج کے ٹینک اور توپیں راکھ کا ڈھیر بن جاتیں۔اس بات کا علم دشمن کو بھی ہوچکا تھا کہ کوئی ماہر نشانہ باز اوپی برکی کے بالاخانے میں موجود ہے ‘لیکن بالاخانے کو تباہ کرنے جتنی بھی کوششیں ہوئیں وہ ناکام ٹھہریں ۔ہڈیارہ گاؤں دشمن کے قبضے میں جاچکا تھا ‘ برکی کی جانب پیش قدمی جاری تھی۔ 7ستمبر کا سورج طلوع ہوا تو میجر بھٹی وضو کرکے خدائے بزرگ و برتر کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے ‘ سجدے میں وہ اتنا روئے کہ آنسووں سے آپ کا دامن بھیک گیا ۔نماز سے فراغت کے بعد جب دور بین آنکھوں سے لگائی تو برکی خورد اور برکی کلاں کے درمیان درختوں کی اوٹ میں دشمن کی نقل و حرکت دکھائی دی۔دشمن ساری رات یہاں اسلحہ جمع کرتا رہا تھاآپ نے مقام اور رینج بتا کر توپخانے کو گولہ باری کا حکم دیا تو دشمن کی نفری وہیں بھسم ہوگئی اور بارود کو آگ لگ گئی۔ آگ کے شعلے آسمان کو چھوتے رہے۔ایک بار پھر دشمن کے طیارے بالا خانے پر حملہ آور ہوئے تو پاک فضائیہ کے شاہینوں نے انہیں خاک چٹا دی۔جنگ شروع ہوئے تین دن اور تین راتیں گزرچکی تھیں ۔کمانڈنگ آفیسر نے میجر بھٹی کو آرام کی غرض سے واپسی کا حکم دیا۔میجر بھٹی نے جواب دیا سر یہ بڑا نازک محاذ ہے میں یہاں دشمن کی چالوں سے پوری طرح واقف ہوچکا ہوں ۔نئے آفیسر کو ان چالوں کو سمجھنے میں وقت لگے گا جبکہ ہمارے لیے ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔گزارش ہے کہ مجھے محاذ جنگ سے واپس نہ بلایاجائے۔اسی اثنا ء میں حوالدار اکرم کھانا لے کر آگیا وہ میجر بھٹی سے کہنے لگا میں اچھا آبزرور ہوں آپ کھانا کھائیں میں دور بین سے دشمن کی نقل و حرکت دیکھتا ہوں۔حوالدار اکرم نے دور بین سے دیکھا کہ ایک جیپ اور ٹرک بالا خانے کی جانب تیزی سے بڑھتے چلے آرہے ہیں۔حوالدار اکرم نے رینج بتا کر فائر مانگا تو رینج صحیح نہ ہونے کی بنا پر فائر ضائع گیا ۔ میجر بھٹی نے کھانا چھوڑ کر دور بین سنبھالی اور صحیح رینج پر گولہ باری کا حکم دیا تووہ جیپ اور ٹرک بھی راکھ کا ڈھیر بن گئے۔دشمن کو مسلسل تازہ کمک پہنچ رہی تھی اوردباؤ میں حد درجہ اضافہ ہو رہا تھا ‘ بارودی سرنگیں بچھانے کے بعد میجر بھٹی نے جوانوں کو بی آر بی کے کنارے پر پہنچنے کا حکم دے دیا اور خود بالاخانے سے ابھی اترے ہی تھے کہ بھارتی فوج کا ایک مسلح دستہ نیچے کھڑا دکھائی دیا۔ سکھ حوالدار نے ہینڈزاپ کہا اور مشین گن کی نالی میجر بھٹی کے سینے پر رکھ دی۔اشارہ ملتے ہی مشین گن چلی اور تمام بھارتی فوجی زمین پر ڈھیر ہوگئے جو زندہ بچے وہ بھاگ نکلے۔میجر بھٹی اپنے ساتھی کے ہمراہ محاصرہ توڑ کر بی آر بی نہر تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔11ستمبر کی صبح بی آربی کے مغربی کنارے پر کھڑے ہو کر میجر بھٹی پیش قدمی کرتے ہوئے بھارتی ٹینکوں اور پیدل فوج پر گولہ باری کروا رہے ۔صوبیدار نے کہا میجر صاحب آپ براہ راست دشمن کی فائرنگ رینج میں ہیں اس لیے پٹڑی سے نیچے اتر آئیں۔میجر بھٹی نے جواب دیا اس سے اونچی جگہ اور کوئی نہیں ‘ جہاں سے میں دشمن کی نقل وحرکت کا مشاہدہ کرسکوں۔میری جان کی فکر مت کرو ۔اس وقت وطن عزیز کی حفاظت ہر چیز پرمقدم ہے۔ چھ راتیں جاگ جاگ کر میجر بھٹی کی آنکھیں سوج چکی تھیں اور پلکیں جھبکنے میں تکلیف اور دقت محسوس ہوتی تھی ۔12ستمبر کی صبح طلو ع ہوئی ۔برکی سے شمال کی جانب کھجوروں کے درختوں کی آڑ میں دشمن کے فوجی نہر کی جانب بڑھتے دکھائی دیئے آپ کی بتائی ہوگئی رینج پر گولہ باری کی گئی تو دشمن پسپا ہونے پر مجبور ہوگیا۔ میجر بھٹی نے وضو کرکے نمازاداکی ۔بالوں میں کنگھی کرکے صوبیدار کے ساتھ چائے پینے لگے۔صوبیدار غلام محمد اعلی پائے کے دست شناس تھے ۔میجر بھٹی نے اپنا ہاتھ انہیں دکھاتے ہوئے کہا دیکھو میری قسمت میں شہادت لکھی بھی ہے کہ نہیں۔صوبیدار نے بتایا شہادت لکھی تو ہے لیکن اس بات کا علم نہیں کہ یہ مرتبہ کب آپ کو ملے گا۔میجر بھٹی نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچتے ہوئے کہا میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میری شہادت بہت قریب ہے ۔اس کے بعد میجر بھٹی نے ایک جوان کو اپنی وردی لانے کو کہا وہ کسی اور کی وردی لے آیا۔ میجر بھٹی نے کہا کفن اور وردی اپنی ہی اچھی لگتی ہے۔اسی اثناء میں ایک بارپھر بھارتی توپ خانے نے گولہ باری شروع کردی ۔ میجر بھٹی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے نہر کے بلند کنارے پر کھڑے ہوکر فائرنگ کی سمت کاتعین کرنے لگے۔آپ کی بتائی ہوئی رینج پر گولہ باری ہوئی تو بھارتی فوج کے لاہور کی جانب بڑھتے ہوئے قدم ایک بار پھر رک گئے۔دشمن کی نگاہیں بھی آپ کو تلاش کرچکی تھی۔ ابھی آپ کے ہاتھ دوربین اٹھائے آنکھوں کی جانب اٹھے ہی تھے کہ ٹینک کا ایک جلتا ہوا فولادی گولہ آپ کے سینے کے پار ہوگیا ۔ اسی لمحے میجر راجہ عزیز بھٹی اس مقام شہادت پر فائز ہوچکے تھے جس کی تمنا وہ اپنے دل میں رکھتے تھے ۔ میجر راجہ عزیز بھٹی 6اگست 1923ء کو ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے ۔وہاں ہی پرورش پائی اور تعلیم حاصل کی ۔1948ء میں آپ پاکستان ملٹری اکیڈیمی سے وابستہ ہوگئے۔آپ کا خاندان نصف صدی قبل ضلع گجرات کے نواحی قصبے لادیاں میں آبا دہوا۔ حکومت پاکستان نے جرات اور بہادری کے صلے میں آپ کو سب سے بڑے فوجی اعزاز "نشان حیدر "سے نوازا۔
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 786470 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.