ورلڈ لٹریسی ڈے اور تعلیم نسواں

خوانددگی کاعالمی دن ہرسال 8ستمبرکودنیاکے تقریباًتمام ممالک میں منایاجاتاہے اوراسے منانے کااعلان یونیسکو نے 1965کے اخیرمیں کیاتھااوراسی طرح پہلی مرتبہ خواندگی کاعالمی دن 1966میں منایاگیا۔
کسی بھی معاشرے کی کامیابی وکامرانی میں علم سے ہوتی ہے کسی بھی تحریک کی تاریخ اٹھاکے دیکھ لو چاہے وہ سیاسی،مذہبی،لسانی ،قومی یا کوئی بھی تحریک کیوں نہ ہوعلم وتعلیم کے بغیرکامیاب نہیں ہوسکی۔ اس بات سے بھی انکارنہیں کیاجاسکتاکہ جب تک نوجوان پڑھے لکھے نہ ہوں گے تب تک معاشرہ ترقی نہیں کرسکتاجس طرح میرے پیارے آقانبی کریم ﷺکی تعلیمات وتربیتکانتیجہ تھاکہ نوجوانوں نے وقت کے یزیدوں کے غرور کوٹھکانے لگایا۔پاکستان میں تعلیم کا شعبہ ایک خاموش بحران کا شکارہے تعلیم کی اہمیت سے کوئی فردکوئی معاشرہ کوئی مذہب اور کوئی بھی ملک انکارنہیں کرسکتا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تو نہایت ہی ضروری ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ پر جب پہلی وحی اتاری گئی اس کا پہلا حرف ہی یہی تھا’’اقراء‘‘یعنی پڑھ اسی وجہ سے تعلیم علم کو بہت ہی زیادہ اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ اﷲ کا حکم بھی ہے مگرافسوس کی بات تویہ ہے کہ پاکستان کے چالیس فیصدسے زائدبچے سکول کا منہ ہی نہیں دیکھ پاتے یاتو انکی غربت انہیں کام پرلے جاتی ہے یاپھرانہیں سکول ہی میسرنہیں ہوتے ہمارے ملک میں کئی گھوسٹ سکول ہیں جہاں پر صرف جنات کا بسیرہ ہے استادوں کا وہاں کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں مگرتنخواہ برابرلے رہے ہیں پاکستان جنوبی ایشیاء کا سب سے ناخواندہ ملک ہے جس کی مجھے چھان بین کرنے پر نہایت مایوسی ہوئی اور مجھے امیدہے میرے قارائین کوبھی ہوگی کہہ انڈیا کا ملک ہم سے رقبے اور آبادی کے لحاظ سے زیادہ ہے مگراس نے تعلیم پرتوجہ دے کرخواندگی میں ہم سے آگے نکل گئے مگرہمارے حکمران ایک دوسرے کو نکلوانے اور خود کی کرسی پکی کرنے میں ہی لگے رہتے ہیں سب کو صرف اپنی کرسی کی پڑی ہے اگرکسی کو اپنے ملک کی ہوتی تو آج ہمارا ملک بھی خواندہ ممالک میں شمار ہوتاہمارے ملک میں تقریباً50%لڑکیاں اپنی ابتدائی تعلیم ہی مکمل نہیں کرپاتی کیونکہ ہماراکلچرہے کہہ بیٹی نے ویسے بھی گھرسنبھالنا ہے نہ کہہ نوکری کرنی ہے اس کے برعکس ہمیں اگریہ سوچنا چاہیے کہ ’’بیٹی کودولت جائیداد دوگے تووہ ختم ہوجائے گی ایک تعلیم ہے جوہمیشہ رہے گی‘‘اگریہی ایک بات ہم لوگوں کی سمجھ میں آجائے تو ہم لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کی تعلیم پربھی توجہ دے سکتے ہیں پاکستان میں لڑکوں کی شرح خواندگی تقریباً70%اورلڑکیوں کی 45%ہے اورپاکستان میں کم وبیش ڈیڑھ لاکھ سکول ہیں جو45%لڑکوں اور30%لڑکیوں کیلئے میسرہیں جس کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم کا فرق یہیں سے شروع ہورہا ہے ۔تعلیم کوجتناہوسکے مفت کی جائے جس کی وجہ سے ہربچہ سکول میں نظرآئے اور بھاری بھرکم فیسوں سے جان چھوٹ جاے جس سے والدین خوشی خوشی ملک کے معماروں کوسکول کی راہ دکھائیں ہمارے سکولوں کوچاہیے صرف رزلٹ کی دوڑ کے پیچھے نہ رہیں بچوں کوپریکٹیکل کیلئے بھی تیارکریں اورمحنت کرکے تعلیم کو عام کریں ۔مجھے بڑے افسوس سے کہناپڑرہاہے کہ 72سال آزادی کے بعدبھی ہم سن رہے ہوتے ہیں کہ ہمارانظام تعلیم کیساہو،زبان کون سی ہومیں پوچھناچاہتاہوں کہ جولوگ لاکھوں کی تنخواہ لے کرآج تک یہ فیصلہ نہیں سکے کہ کون سانظام تعلیم ہوتووہ کس لیے ملک ومحکمہ پربوجھ بنے ہوئے ہیں کیونکہ بنیادی حقوق کاقانون ہربچے کوتعلیم کاحق دیناحکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ فرض ہے افسوس ہے کہ پاکستان کاعام شہری 72سال آزادی کے بعدبھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے ۔پاکستان کے نظام تعلیم کی زبوں حالی پرنظرڈالی جائے توپتہ چلتا ہے کہ پاکستان پر کوئی ایک نظام تعلیم رائج نہیں ہوا بلکہ طالبعلموں پر نظام تعلیم کے کئی حملے کیے گئے اور ہرحملہ پہلے سے خطرناک ثابت ہوا نہ کہہ تعلیمی نظام کو فائدہ دیا ہومسلسل تعلیم جیسے حساس معاملے پرتجربات کیے جارہے ہیں ہرصوبے میں الگ الگ نصاب ہیں اورزبان بھی الگ الگ ہے بلکہ میں نے تواس حدتک نوٹ کیاہے کہ ہرسکول نے اپنی الگ یونیفارم کی طرح الگ سلیبس ہے جو 100فیصدوالدین کے اخراجات بڑھانے کے ساتھ ساتھ بچوں کیلئے بھی بوجھ ہے۔پاکستان کے نظام تعلیم کی خرابیوں پرتوجہ کی جائے تو چندوجوہات سامنے آتے ہیں جیسے کہ :اپنی زبان سے دوری مجھے اس پر ایک مثال یاد آتی ہے کہ ایک بچہ تھا روز سکول جاتا استا اسے سبق دیتا ب بینگن وہ پڑھتا پردوسرے روز بھول جاتا روزکی یہی روٹین رہی آخرایک دن استاد نے اسے کہا کہ تجھے یہ سمجھ کیوں نہ آتا تو اس نے کہا کہ اسے ہماری زبان میں ’’وتاؤں‘‘کہتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ جب بچے کوگھرمیں کچھ اور سکول میں کچھ اور پڑھایا جائے گا تو بچہ پریشان تو ہوگا اسی وجہ سے وہ سکول سے ہی بدزن ہوجاتا ہے اسی لیے اپنی زبان میں تعلیم ضروری ہے اور ہمارے ملک میں انگریزی کو لازمی قراردیا گیا ہے اب جتنے ملکوں نے ترقی کی ہے وہ انگریزی کی وجہ سے کی ہے نہیں جی انہوں نے اپنی زبان کے بل بوتے پرہی ترقی کی ہے ہمارااپنی زبان سے دوری،طبقاتی تفریق،ریسرچ اورمعیارتعلیم کا فقدان تعلیم کا ترجیح پالیسی میں شامل نہ ہونا ہے ۔اگرانگریزی کے نقصان کی بات کروں تو ہمارے جتنے بھی نوجوان میٹرک میں آکے ٹھس ہوجاتے ہیں اسی انگریزی کی وجہ ہے ایک سروے کے مطابق 95%بچے انگریزی کی وجہ سے سکول چھوڑتے ہیں اور میٹرک کارزلٹ اٹھا کے چیک کرلیں 80فیصدبچے انگریزی میں فیل ہوتے ہیں جن میں کچھ تو پاس ہوجاتے ہیں کچھ اگلے سال تک کا انتظارکرتے ہیں جن میں پھربھی کچھ رہ جاتے ہیں انٹرمیں بھی حالت اس سے بھی ابترہے 97%بچے انگریزی کا شکارہوکے گھربیٹھ جاتے ہیں جس پر ہمیں توجہ کی ضرورت ہے جب اردو میں نصاب ہوگا توعام طالب علم بھی ٹاپ کرسکے گا نہ کہہ اچھے اور پرائیویٹ سکول کے طالبعلم جن کے پاس ہرسہولیات ہوتی ہیں تعلیم ہرایک کا حق ہے تو یاتوپرائیویٹ سکولوں کا معیارسرکاری سکولوں کی طرح ہونا چاہیے یا سرکاری سکولوں کوہی پرائیویٹ سکول بنا کے بزنس کا اڈہ بنا دینا چاہیے جہاں سے کئی کرپٹ لوگوں کے گھرتوچلیں گے اگرحکومت تبدیلی ہے تو تعلیم کے حوالے سے بھی کچھ تبدیلی آنی چاہیے تاکہ اس تبدیلی کی ہوا میں سب جھوم سکیں۔خواندگی ہمارے ملک کی خواندگی 58فیصدہے اس اس میں کمی کی وجہ یہ ہے کہ ہو یاتوہم بچوں کوسکول نہیں بھیجتے اگربھیجتے ہیں توان کی تعلیم پوری ہونے سے پہلے انہیں کسی کام پربٹھادیتے ہیں کیونکہ ہمارے آگے غربت آجاتی ہے ہمارے ملک میں شرح خواندگی میں تب تک اضافہ نہیں ہوسکتا جب تک بے روزگاری اورغربت کاخاتمہ نہ ہوایک رپورٹ کے م طابق پرائمری تعلیم میں سب سے کم نائجیریاہے جہاں چھ کروڑ بچے سکول نہیں جاتے اوراس رپوٹ کے مطابق پاکستان دوسرے نمبرپرہے جس میں 5کروڑ50لاکھ بچے سکول نہیں جاپاتے ایتھوپیا،فلپائن اوربھارت بلترتیب تیسرے چوتھے اورپانچویں نمبرپرہیں ۔بے روزگاری کے خاتمہ کے ساتھ ہم جب تک یکساں ذریعہ تعلیم( قومی زبان) ،یکساں نظام تعلیم،یکساں نصاب تعلیم بناکر100فیصدشرح خواندگی کے خواب کوشرمندہ تعبیرکرسکتے ہیں۔
 

Ali Jan
About the Author: Ali Jan Read More Articles by Ali Jan: 288 Articles with 197144 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.